پاکستان میں سیاسی عدم استحکام روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور ایسے میں عدلیہ کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کیونکہ پاکستان کی تاریخ متنازعہ فیصلوں سے بھری پڑی ہے اور ماضی میں ملک کی عدلیہ نے جانبدارانہ فیصلے کے تحت عوام میں مقبول سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزاء سنائی اور اس عمل میں پیش پیش رہنے والے جسٹس مولوی مشتاق کا جنازہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ سننے والی بنچ کے سربراہ تھے۔مورخین بتاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سینیارٹی نظرانداز کرتے ہوئے مولوی مشتاق کوچیف جسٹس نہیں بنایا تھا لہٰذا مولوی مشتاق حسین نے بھٹو کے خلاف فیصلہ سنانے میں انصاف کے سب تقاضوں کو پامال کیا۔
مولوی مشتاق حسین نے جو کیا وہی کچھ سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی کیا جس کا بعد میں جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اعتراف کیا کہ بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی اور ادا کار شاہد بتاتے ہیں کہ جسٹس مولوی مشتاق حسین کا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تعصب ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ میں نے انہیں بھٹو کی پھانسی روکنے کی درخواست کی لیکن وہ نہ مانے اور انتقال کے بعد جب مولوی مشتاق حسین کا جنازہ جا رہا تھا تو میں بھی اس میں شریک تھا۔
اداکار شاہد بتاتے ہیں کہ اس جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا اور جسٹس نسیم حسن شاہ سمیت ان سب ججوں کو مکھیوں نے کاٹا، جنہوں نے بھٹو کو سزائے موت دی تھی، اس وقت صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ لوگ جنازہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے شائد یہ اس فیصلے کا ردعمل تھا۔