پہلے عوام مہنگائی کے آسمانوں کا شکوہ کرتے نظر آتے تھے لیکن اب تو غمزدہ عوام حکومتی بے حسی اور مہنگائی کے پڑنے والے کوڑوں کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اب کوئی احتجاج بھی نہیں کرتے۔ عمران خان اور تحریکِ انصاف کی حکومت سے عوام کو کافی امیدیں تھیں لیکن وزیرِ اعظم کے سارے بیانات اب تک صرف طفل تسلیاں ہی ثابت ہوئے ہیں۔
گزشتہ کچھ مہینوں میں مہنگائی کی ایسی تیز آندھی چلی ہے جس میں پہلے ڈالر اور پیٹرول کے بعد روزمرہ کی عام استعمال کی چیزیں بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔ اس آرٹیکل میں ان چیزوں کے مہنگا ہونے کی وجہ بیان کی جائے گی جو کسی زمانے میں جیب پر اس قطعی بھاری نہیں ہوتی تھیں۔
ہر چیز باہر سے منگوائی جاتی ہے
ہم نے مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں ہمیشہ یہی پڑھا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے یعنی ایسا ملک جو اپنی زیادہ تر خوراک خود پیدا کرتا ہے اور زراعت ملک کا اہم ترین شعبہ ہے۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گاڑیاں اور مشینری سے لے کر کھانے پینے کی چیزیں جیسے کہ چینی بھی باہر سے منگوانی پڑتی ہے جس کی وجہ سے ہر چیز کو منگوانے کے خرچے کے علاوہ ٹیکس کی ادائیگی بھی کرنی پڑتی ہے اور اسی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے۔
کون سی چیز کتنی منگوائی؟
بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دالوں کی درآمد میں چوراسی فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ چینی جو پچھلے سال اگست کے مہینے میں نوسوسترہ میٹرک ٹن منگوائی گئی تھی اس سال چھیاسٹھ ہزار میٹرک ٹن منگوائی گئی۔ چائے کی درآمد چوبیس فیصد بڑھی۔

درآمدات کی وجہ
ماہر معیشت خرم شہزاد کے مطابق ہر چیز باہر سے منگوانے کی اسل وجہ چیزوں کے بڑھتے استعمال اور تیل اور پیٹرول کی بڑھتی قیمت کی وجہ سے ہوا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ’مقامی سطح پر وسائل اور پیداوار اتنی نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کی طلب کو پورا کر سکیں اس لیے پاکستان کو درآمدات کرنا پڑتی ہے۔‘ مہر معیشت کا کہنا تھا کہ اگر ہم ہر چیز باہر سے منگوا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے تجارتی خسارہ بڑھا ہے لوگوں کے پاس قوت خرید کم ہے۔
کپاس کی زراعت پر فائدہ پڑھ لیں
ہم میں سے اکثر لوگوں کا بچپن پی ٹی وی پر کسان ٹائم اور فصلوں کے کیڑے مار دوائی کے اشتہارات دیکھ کر گزرا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک پاکستان میں کپاس سستی ہوتی اور اسی کے زریعے ملکی معیشت کو بہت زیادہ استحکام ملتا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پیداوار میں بھی کمی آرہی ہے۔
کپاس کی پیداوار کے حوالے سے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ کپاس کی اب پیداوار پہلے کے مقابلے میں آدھی ہوگئی ہے جس کی وجہ مہنگی کھاد اور ناقص دوائیاں ہیں۔ پاکستان کسان اتحاد کے چئیرمین چوہدری محمد انور کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم کے ایمرجنسی پروگرام میں کپاس کی فصل کو بری طرح نظر انداز کیا گیا جس کے بعد اب کپاس پر ان اللہ پڑھ لینا چاہیئے۔