زندگی کے کسی بھی شعبے میں نمایاں مقام حاصل کرنا ایک مشکل ترین عمل ہے۔ لیکن اگر جسمانی طور پر معذوری کا شکار شخص کوئی ایسی کامیابی حاصل کرلے تو یہ کسی بڑے کارنامے سے کم نہیں ہوتا۔ آج ہم آپ کو ان تین جسمانی طور پر معذور افراد کے بارے میں بتائیں گے، جہنوں نے اپنی معذوری کو کمزوری نہیں سمجھا بلکہ معذوری کو اپنی طاقت بنا لی۔
علی حسن
علی حسن نے معذوری کو اپنے لیے ہرگز کمزوری یا رکاوٹ نہیں بننے دیا، بلکہ اسے زندگی میں کامیابی کیلئے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔ علی حسن کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے۔ وہ پولیو کی بیماری کے باعث ایک ٹانگ سے معذور ہیں۔ علی 14 سالوں سے ٹائر پنچر کے کام سے وابستہ ہیں۔ علی نے بتایا کہ جب وہ پنچر کا کام سیکھنے کیلئے گئے تو انہیں کہا گیا کہ تم کیسے کرو گے، تم تو چل بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ ساتھ دن کے اندر وہ ٹائر پنچر کا کام سیکھ گئے تھے۔
علی حسن کے مطابق یہ کام میرے لیے مشکل نہیں، میرے ہاتھ سلامت ہیں۔ میرا دل مضبوط ہے، اللّٰہ کا شکر ہے میں بڑی گاڑیوں کے ٹائر بھی تبدیل کر سکتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے رشتےداروں نے کہا تم معذور ہو تم کچھ نہیں کرسکتے، لوگوں نے یہاں تک کہا کہ یہ بھیک مانگے گا۔ لیکن میں نے ان سب کو غلط ثابت کیا، اور آج میں اپنی محنت سے پیسے کماتا ہوں۔
علی حسن نے بتایا کہ پہلے دن کی کمائی میں نے جب اپنے والد کے ہاتھ میں رکھی تو ان کے آنکھوں میں سے آنسوں آگئے تھے۔ اپنے والد کو خوش دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں اپنے والد کو زیادہ پیسے کما کر دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ معذور ہونا گناہ نہیں ہے، مگر معذور ہو کر معذوری دکھانا وہ گناہ ہے۔
شازیہ بتول
کوئٹہ شہر سے تعلق رکھنے والی خاتون شازیہ بتول کم سنی میں ہی جسمانی معذوری کا شکار ہوگئی تھیں۔ وہ بچپن میں بیماری کے دوران غلط علاج کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہوگئیں تھیں۔ لیکن انہوں نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی، جبکہ انہوں نے آرٹس کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔
شازیہ بتول کے مطابق ان کی والدہ نے ان کی ہمت بندھائی اور بعد میں ان کی ہزارہ کمیونٹی کے افراد نے بھی انہیں سپورٹ کیا۔
شازیہ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
شازیہ کا کہنا تھا کہ معذوری کے حوالے سے انہیں مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ایسے افراد کے لیے معاشرے میں سہولیات موجود نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں، دفتر، پارکوں سمیت ہر جگہ جانے میں مسائل پیش آتے ہیں۔
زرغونہ ودود
جسمانی معذوری کا شکار خواتین میں ایک نمایاں نام زرغونہ ایڈووکیٹ کا بھی ہے، جنہوں نے معذوری کے باوجود اپنی جیسی دیگر خواتین کے مسائل کو حل کرنے بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ جبکہ معذور افراد کے حوالے سے قائم ایک تنظیم میں وہ سماجی کارکن کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ جسمانی طور پر معذور افراد پر کوئی الگ سے مہربانی کی جائے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی قابلیت اور صلاحیت کے لحاظ سے مواقع فراہم کیے جائیں، تاکہ وہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرسکیں اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔