لاہور کے علاقے مال روڈ پر جوکر کے روپ میں کھلونے بیچ کر ماں کا علاج کروانے والی ایک باہمت لڑکی کی کہانی جب سوشل میڈیا پر آئی تو اس کی زندگی پہلے سے زیادہ مشکل ہوگئی۔
صائمہ مال روڈ پر گرمی کے موسم میں جوکر کا لباس پہن کر بچوں کے چھوٹے چھوٹے کھلونے بیچتی تھی، جہاں لوگ اسے چھیڑتے بھی تھے، ان کا ماسک اتارنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور تنگ بھی کرتے تھے۔ ان سب مشکلات کے باوجود وہ دو وقت کی روٹی کیلئے اور اپنی والدہ کا علاج کروانے کیلئے یہ سب برداشت کرتی رہی۔
لیکن ان کی زندگی مشکل میں تب پڑ گئی جب ان کی زندگی کی کہانی کو سوشل میڈیا پر نشر کیا گیا۔ اور پھر پنجاب حکومت کی جانب سے صائمہ کی مدد کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔
تاہم نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں صائمہ نے بتایا کہ میرے ساتھ بہت سے وعدے کیے گئے تھے، جس کی وجہ سے میں نے سڑکوں پر جوکر کا لباس پہن کر کھلونے بیچنے کا کام چھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے کہا کے جب میرا انٹرویو سوشل میڈیا پر دکھایا گیا تو پنجاب حکومت کی طرف سے کچھ لوگ آئے اور مجھے 50 ہزار روپے دیے گئے اور مجھے میری ماں کے علاج کے ساتھ روزگار کیلئے وعدے بھی کیے گئے۔ لیکن مجھ سے جو وعدہ کیے گئے تھے آج تک ان پر عمل نہیں کیا گیا۔
میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ صائمہ کو حکومت نے گھر بھی دیا ہے، 3 لاکھ روپے بھی دیے گئے ہیں لیکن حقیقت میں مجھے کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ صائمہ نے بتایا کہ میرے گھر کے حالات کو دکھایا گیا، میری ماں جو بیماری میں مبتلا ہیں ان تک کو دکھایا گیا۔ بس ویڈیو بنائی گئی، پوری دنیا کو میرے حالات دکھائے۔ مگر پھر کچھ بھی نہیں ہوا ہمیں بے سہارا تنہا چھوڑ دیا گیا۔
یہ تو حکمران کا وعدہ ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان دیا جائے گا، مگر میں مکان بھی نہیں مانگتی ہوں میری تو صرف حکمرانوں سے یہ التجاء ہے کہ مجھے عزت سے نوکری کرنے دی جائے تاکہ میں اپنی ماں کا علاج کروا سکوں۔
زندگی باپ کے بعد سے مشکل سے مشکل ہی ہوتی گئی۔ میرے والد زندہ نہیں، نہ ہی کوئی بھائی، میں ہی اکیلی اپنی ماں کا سہارا ہوں۔
میں نے اپنے ہر انٹرویو میں کہا ہے کہ مجھے بھیک پر زندگی نہیں گزارنی، مجھے عزت کے ساتھ روزگار کمانا ہے۔ میں منہ چھپا کر حلال رزق تلاش کررہی تھی، مجھے تنگ کیا جاتا تھا مگر میں وہ سب برداشت کرلیتی تھی، مگر اب تو یہ بھی ممکن نہیں۔
اب میں حکومت کے نمائندوں کو فون کرتی ہوں تو میرا فون نہیں اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں یہ نہیں کہتی کہ پوری دنیا غلط ہے مگر میں جہاں بھی نوکری کیلئے گئی مجھے وہاں ذاتی ملکیت سمجھ کر ہراساں کیا جاتا تھا۔ جو کہ مجھے پسند نہیں آیا تھا۔ وہ میرے لیے ممکن نہیں تھا اس لیے میں نے نوکری کو خیرآباد کہہ دیا۔
میں جس کرائے کے مکان میں اچھے سے رہے رہی تھی، اب وہ مالک مکان جو کہ خود بیوہ خاتون ہیں انہوں نے مجھے گھر خالی کرنے کا کہہ دیا ہے۔ وہ ڈر رہی ہے کہ میرا مکان پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے کہیں کوئی قبضہ نہ کر لے۔ اب میں اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوں۔
وہ کہتی ہے کہ میڈیا پر آنے کے بعد سے میری زندگی اور زیادہ مشکل میں پڑ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں رسول ﷺ سے شکایت ضرور کروں گی آپ کی امت نے ستایا بہت ہے۔