کھیلتے ہوئے بچوں کو کمرے میں بند کر دیا ۔۔ جانیے پاکستان کے اس علاقے کے بارے میں جہاں پریاں رہتی ہیں؟

ہماری ویب  |  Sep 16, 2021

ہر انسان نے اپنے بچپن سے ہی یہ باتیں سن رکھیں ہیں کہ پریاں، دیو اور چڑیلیں ہوتی ہیں مگر آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی یہ باتیں پہلے سے کئی زیادہ طور پر سننے کو ملتی ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت موجود ہے۔ آج ہم یہاں پاکستان کے ایک ایسے علاقے کی بات کریں گے جہاں پریوں کا بسیرا ہے۔ تو وہ علاقہ ہے آزاد کشمیر۔

آزاد کشمیر کے ضلع کو ٹلی کے علاقے کھوئی رٹہ میں پہاڑوں کے درمیان میں کئی غاریں موجود ہیں جن میں علاقہ مکینوں کا ماننا ہے کہ پریاں رہتی ہیں اور کئی لوگوں کو مانناہے کہ یہاں نہ صرف پریاں رہتی ہیں بلکہ دیو اور چڑیلوں کا بھی بسیرا ہے۔کوٹلی کے ہی رہائشی محمد اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ یہ غاریں یہاں آنے والے طالبعلموں کیلئے بنائی گئی تھیں۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے جو کہ ہم نے اپنے بڑوں سے سنی ہے ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ علاقے کچ بچے ان غاروں میں کھیلنے کو گئے تو اس غار میں ایک بڑا کمرہ ہے اور اس کمرے کا دروازہ پتھر کا تھا تو جب بچے اس بڑے کمرے میں گئے تو یہ دروازہ خود ہی بند ہو گیا جس کے بعد تمام لوگ پریشان ہوئے اور ان میں کافی خوف پھیل گیا۔

جس کے بعد ایک بھینسے کی قربانی دی اور اس کا خون دروازے پر ڈالا تو جا کر دروازہ کھلا جس کے بعد بچوں کو نکال کر یہ پتھر کا دروازہ توڑ دیا گیا۔ مگر آج بھی کبھی کبھار جب کوئی انسان اس بڑے کمرے میں جاتا ہے تو ایک بڑ سا سانپ باہر نکل آتا ہے لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔

اسی موضوع پر مظفرآباد کی ڈیپارٹمنٹ آف ٹورازم اینڈ آرکیالوجی کی سربراہ رخسانہ نعیم کہتی ہیں کہ یہاں قدیم زمانے میں جو چالبعلم بدھازم کی تعلیم حاسل کرنے کیلئے آتے تھے انکی رہائش اور کھانے پینے کیلئے یہ جگہ بنائی جاتی تھیں اور زیادہ تر سڑکوں کے ساتھ جو پہاڑ موجود ہوتے تھے انہیں کاٹ یہ غاریں بنائی جاتیں تھیں۔

اس بارے میں رخسانہ نعیم نے مزید بتایا کہ یہ پہلی صدی عیسوی سے یوں پہاڑوں کے درمیان رہنے کی جگہ بنائی جاتی تھی اور اسے مورین بادشاہ اشوک نے شروع کروایا تھا جبکہ یہ ہنر برصغیر پاک و ہند کا سب سے قدیم ہنر ہے جو اس وقت بہت بہترین ہنر مانا جاتا تھا ۔جو زبان ان غاروں میں نظر آتی ہے لکھی ہوئی اسے شارادا زبان کہتے ہیں جو کہ آٹھویں صدی بعد از مسیح تک برصغیر میں بولی جاتی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ صرف کشمیر میں ہی بولی جانے لگی تھی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More