بابا روزانہ امی کو مارتے تھے اور وہ صرف رو کر چُپ ہو جاتی تھیں ۔۔ صائمہ، نور اور قرۃ العین جیسے واقعات کب تک ہمیں سننے پڑیں گے ؟

ہماری ویب  |  Jul 24, 2021

عورت اگر بیٹی ہے تو رحمت، ماں ہے تو جنت اور بیوی ہے تو شریکِ حیات جو ہر اچھے برے وقت میں آپ کا ساتھ نبھانے والی ، قدم بقدم چلنے والی ذات ہے۔ نبی ﷺ کے وجود سے قبل عورت کی معاشرتی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی، البتہ نبی ﷺ نے خواتین کو عزت و مقام اور ایک بلند مرتبہ دلوایا، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر جہالت کا دور دوراں ہے، آج پھر سے خواتین اتنی ہی تکلیف میں مبتلا ہیں جتنی کہ دورِ جہالت میں تھیں، اس وقت بھی خواتین کی عصمت دری اور غلامی کی زندگی عروج پر تھی اور آج بھی بالکل ویسا ہی ہے۔ لیکن اگر آج کے دور اور ماضی کے دور میں فرق ہے تو وہ سوچ کا ہے، ماحول کا ہے، پڑھائی لکھائی اور فرقوں کا ہے، اس کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا فرق عیاں ہو۔ پہلے گھر میں موجود خواتین کودھتکارا جاتا تھا مگر اب گھر میں رہنے والی خواتین کو بہت عزت دی جاتی ہے۔ لیکن وہیں کچھ بد کردار، بد اخلاق لوگ ایسے ہیں جو خواتین کو دو کوڑی کا بھی نہیں سمجھ رہے۔

آئے روز خواتین کی ساتھ زیادتی اور ان کو تشدد کرکے قتل کرنے کے واقعات ، عزت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، مگر پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ ملزمان کو جیل ہو جاتی ہے اور پھر ان کو چھوڑ بھی دیا جاتا ہے، ملزمان دندناتے پھرتے ہیں مگر انصاف کی راہیں دیھکتی خواتین اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو بھی ہونٹ سی کر برداشت کرلیتی ہیں۔

حال ہی میں 4 واقعات ایک کے بعد ایک ہوئے جن میں قرۃ العین عمر، نور مقدم، صائمہ اور خدیجہ نامی خواتین کے ساتھ ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی، قرۃ العین کی بات کریں تو اس کی کیا غلطی تھی؟ 10 سال تک شوہر کا ظلم و ستم سہتی رہی، کتنی مرتبہ والدین کے گھر لوٹی، مگر بھائیوں نے اپنی عزت کی خاطر کے خاندان والے کیا بولیں گے؟ بس اس ڈر سے بہن کو ایک ظالم کے ہاتھوں بندھا رہنے دیا جس کا نتیجہ آخر کار تشدد کی موت نکلا کہ اس کی ہاتھ، ناک، کان اور منہ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ 4 سالہ چھوٹی بچی ماں پر ہونے والی ظلم کا احوال بتاتے ہوئے رو پڑی اور کہا کہ پاپا میری امی کو بہت مارتے تھے، روزانہ رات کو وہ امی کو مارتے رہتے اور امی رو رو کر چپ ہو جاتی کیونکہ امی کی بات کوئی نہیں سنتا تھا پھر آپ نے دیکھا کہ کس طرح بیوی کو مارنے کے بعد ویڈیوز میں ملزم عمرجھومتا رہا، رقص کرتا رہا؟ کیونکہ وہ ایک بااثر باپ کی اولاد ہے، اس کو سزا نہیں ہوگی وہ بچ جائے گا اس فخر سے سرِعام بیوی کا قتل کرکے بھی گھوم رہا ہے؟ آخر کیوں؟ ہماری پولیس جس کا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، خیال کرنا ہے وہ چند لاکھ روپے کی خاطر لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ ہونے دیتی ہے؟ ایسے واقعات میں پولیس کا کردار کم و بیش 70 فیصد منفی ہی دیکھا جاتا ہے۔ کیا ظالموں کے ساتھ ایسے پولیس والوں کو بھی پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کے لئے حکومت کوئی اقدام کیوں نہیں کرتی؟

صائمہ رضا کی بات ہو تو جناب ان کا بھی کیا ظلم تھا؟ صرف یہی کہ وہ اپنا گھر بچانے کی خاطر ایک ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں جو ان کو اور اپنی اولاد کو قتل کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا؟ گھریلو جھگڑے میں فائرنگ کرکے بیوی کو قتل اور سگے جوان بیٹے اور بیٹی کو شدید زخمی کرکے فرار ہوگیا، ملزم انتہائی شدید نشے کا عادی مگر چونکہ وہ بھی بااثر ہے، پیسے والا ہے اس لئے پولیس نے بالغ بچوں کا بیان لینے کے بعد بھی کوئی کاروائی نہ کی اور اگر کی بھی تو سفاک باپ کو پکڑ نہ سکی؟ ان دونوں واقعات میں شوہر ہی سفاک نکلے اور بیویوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

کیا شادی کرتے وقت ایسے مردوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ بیویاں بھی کسی کی اولاد ہیں، یہ بھی انسان ہیں۔ معاملات کو آپس میں بیٹھ کر سلجھانے یا بڑوں کی مشاورت سے کیوں سلجھائے نہیں جاتے؟ کیوں موت ہی آخری حل ہوتا ہے؟

خدیجہ صدیقی جوکہ خود ایک وکیل تھی جو دوسروں کو انصاف دلواتی تھیں، یہ خود مر گئیں مگر ان کو انصاف نہ مل سکا اور ان کو مارنے والے ان کے ساتھی ملزم شاہ حسین کو بھی رہا کردیا گیا جس نے 23 مرتبہ تیز دھار چھریوں کے وار سے ان کو قتل کیا تھا۔ یہاں تو ساف واضح ہے کہ قانون نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں، کیونکہ ملزم شاہ حسین بھی ایک وکیل ہے اور اس کا جرم کسی کو جرم نہیں لگ رہا۔ یہاں معاشرتی اعتبار سے دیکھا جائے تو خدیجہ کے ساتھی وکیل اور فیصلہ دینے والے جج اور انتظامیہ کو سخت ایکشن لیتے ہوئے جسمانی ریمانڈ کرنا چاہیئے تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے، اس کی شدید تفتیش کروائی جاتی، مگر عورت مرگئی تو مرگئی کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ اگر اس جگہ ہماری بیٹی یا بہن ہوتی تو ہم کیا کرتے، لیکن یہاں بھی سوچ حیران ہے کہ قانون سے سوال کرنے والا کوئی بشر نہیں۔

نُور مقدم کا کیس تو دو رائے دے رہا ہے ایک طرف جہاں والدین کی جانب سے بیٹی کے دوستوں یا اس کے حلقہ احباب پر نظر نہیں رکھی گئی تو دوسری جانب ملزم ظہیر جعفر کے والدین کی جہالت واضح دکھ رہی ہے وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ ان کے بیٹے نے ایک نوجوان بچی کی جان لے لی اس کو شدید تکلیف پہنچا کر جان سے مارا اور اب ڈرامہ کر رہا ہے جس پر والدین نے بھی کہہ ڈالا کہ بیٹا ذہنی مرض میں مبتلا ہے؟ خُدا کا خوف کرو وہ ذہنی مرض میں مبتلا ہے تو کچھ روز بعد امریکہ پڑھنے کیسے جا رہا ہے؟ اس کے پاس امریکی شہریت کیسے ہے؟ اس کے پاس نشے کی چیزیں کیا کر رہی ہیں؟ اگر بیٹا پاگل ہی ہے تو اتنے بڑے گھر میں اکیلے بیٹے کو چھوڑ کر تم والدین کہاں گے تھے؟ ایسے تو وہ اپنی جان بھی لے سکتا تھا، فون کرکے نور کو کیوں بلایا اسی کو کیوں مارا؟ اور جب نور نے بھاگنے کی کوشش کی تو وہ آسانی سے بھاگ سکتی تھی اگر تمہارا بیٹا پاگل تھا تو؟

آخر کب تک اس قسم کے واقعات ہمارے سامنے آتے رہیں گے اور ہمارا ضمیر ملامت کرتا رہے گا؟ ان سب کیسز کا جائزہ لیا جائے تو تربیت اور سوچ ہی وہ یکساں جُز ہے جو سب کیسز میں دکھائی دے رہا ہے اور بااثر باپ کی اولاد ہونا یا پیسے والا ہونا مجرموں کو بلا خوف نڈر بنا رہا ہے۔ جب تک ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کی غلطیوں پر سخت ردِعمل کا اظہار نہیں کریں گے، اپنا فرض پورے طریقے سے نہیں نبھائیں گے شاید ہم ایسے واقعات سنتے رہیں گے اور نوجوان یا ایسے افراد جن کی سوچ میں اس حد تک منفی رو جزب ہوگئی ہے وہ جب تک خدا کے خوف سے نہیں ڈریں گے ان کا دل اور دماغ ایسے منصوبے بناتا رہے گا۔ ان سب میں ریاستِ پاکستان اور قانون کو سمجھنے والے با شعور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر ایک مجرم کو سخت سزا یا پھانسی کی سزا سنائیں اور ان کے وہ والدین جو اس جرم میں ان کی پردہ پوشی کر رہے ہیں ان کو بھی قیدِ بامشقت کی سزا سنائیں تو انصاف کا بول بالا ہوتا نظر آئے گا، اس وقت ہماری خواتین، نوجوان لڑکیاں، ہماری مائیں، ہماری بہنیں بنا کسی خوف کے زندگی گزار سکیں گی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More