والدین اپنے بچوں کے لئے ان کے اچھے مستقبل کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں، جس کے لئے وہ اپنی خواہشات کی بھی فکر نہیں کرتے اور پھر ان محنتی والدین کی اولاد اگر پڑھ لکھ جائے ان کا نام روشن کردے تو ان کی پوری زندگی کی محنت وصول ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی ایک کہانی آزاد کشمیر سے ہم آپ کو بتا رہے ہیں جس کو جان کر آپ کو بھی ان بچوں پر فخر ہوگا اور دعا کریں گے کہ آپ کے بچے بھی یوں ہی قابل اور لائق بنیں۔
آزادکشمیر پولیس میں 1993میں کانسٹیبل ویٹر کے طو پر ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے گل حسن کو بھرتی کیا گیا تھا جنہوں نے ساری زندگی اپنی محنت اور ایمانداری سے کام کیا۔ یہ اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ مانک پیاں مہاجر کیمپ مظفرآباد میں دو کمروں کے کچی چھت کے مکان میں رہتے تھے اور غربت کے باعث خود تو تعلیم حاصل نہ کی، مگر اپنے بچوں کو تعلیم کے
زیور سے آراستہ کیا۔
گل حسن کی 2 بیٹیاں اور 2 بیٹے ڈاکٹر بن گئے اور اب اپنے فرائض پوری ذمہ داری سے نبھا رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی کسی سے بھی ایک روپیے کی ادھار نہیں لی اور نہ ہی کسی سے قرض لیا یا رشوت لینے کے بارے میں سوچا، یہاں تک کہ ان کو ایک مرتبہ ٹانگ میں گولی بھی لگ گئی تھی، مگر بہرحال یہ اپنی ایمانداری سے گھر کا گزر بسر کرتے رہے۔
آج ان کے 4 بچے ڈاکٹر ہیں جو ان کا فخر ہیں، ٹوئٹر پر تاجک سہیل نامی شخص نے ان کی تصویر اور معلومات شیئر کی ہیں، جس کے بعد فیس بک پر بھی ان کی کہانی خوب وائرل ہو رہی ہے۔ صارفین بھی ان کے بچوں کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہے ہیں۔ گل حسن کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ میرے بچے در در کی ٹھوکریں نہ کھائیں، خود پڑھ لکھ کر اپنا نام بنائیں
۔
میرے والد پیسے نہ ہونے کے باعث ڈاکٹری علاج سے محروم رہ گئے تھے اور جلد ہی مجھے چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے، جس پر میرے دل میں یہی امید تھی کہ میرے بچے ڈاکٹر بنیں اور فری میں ان ضرورتمندوں کا علاج کریں جن کے پاس ڈاکٹروں کی فیس ادا کرنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔