دنیا بھر میں مشہور شخصیات نے اپنی آخری ویڈیو میں کچھ نہ کچھ ایسا کہا ہوتا ہے جو کہ مداحوں سمیت لوگوں کو نہ صرف پسند آتی ہے بلکہ ہمدردی کا باعث بھی بنتی ہے۔
چند مشہور شخصیات نے اپنی زندگی کے آخری انٹرویو میں کچھ ایسا کہا ہے جو کہ مداحوں سمیت اپنے سننے والوں کو اشکبار کر گئے۔
قائداعظم:
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے متعلق پروفیسر ڈاکٹر الہٰی بخش نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ قائد جب اپنے آخری لمحات میں تھے تو انہوں نے کہا "میں اب نہیں"۔
یہ جملہ ادا کرنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی قائد خالق حقیقی سے جاملے۔
عرفان خان:
اپنی جاندار اداکاری کی بنا پر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے والے عرفان خان اپنی والدہ کے گرویدہ تھے۔ اپنے انتقال سے کچھ لمحے قبل بھی وہ یہی کہتے رہے کہ " دیکھو میری ماں مجھے لینے آئی ہیں۔" اس کے بعد وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔
لیڈی ڈیانا:
لیڈی ڈیانا ویسے تو شاہی خاندان کی بہو تھیں لیکن سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتی رہی ہیں۔ لیڈی ڈیانا کی کار کو جس وقت حادثہ پیش آیا اس وقت وہ کافی گھبرا گئی تھیں۔ ان کی زبان پر صرف ایک ہی جملہ تھا " میرے خدا، یہ کیا ہورہا ہے؟"
صدام حسین:
دو دہائیوں تک عراق پر حکمرانی کرنے والے صدام حسین کی حکومت کا تختہ 2003 میں الٹا، انہیں جب تختہ دار پر لٹکایا گیا تو وہ کافی پُر جوش دکھائی دیے، چہرے کے تاثرات اس بات کو واضح کر رہے تھے کہ وہ افسردہ نہیں ہیں۔
ان کے آخری الفاظ بھی لوگوں کو متاثر کیے بغیر نہ رہ سکے، " میں قسم کھاتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد۔۔" آخری جملہ ابھی پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ پھانسی دے دی گئی تھی۔
نازیہ حسن:
پاکستان کی مشہور پاپ گلوکارہ نازیہ حسن جو کہ کینسر جیسے خطرناک مرض میں مبتلل ہوکر انتقال کرگئی تھیں ۔ نازیہ ایک مثبت سوچ رکھنے والی گلوکارہ تھیں۔
نازیہ حسن کے آخری انٹرویو انکے مداحوں کے لیے آخری الفاظ تھے جو کہ مداحوں کو ہمیشہ یاد رہیں گے کہ میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئیں ہیں مگر میں اسپتال جا رہی ہوں، علاج کروارہی ہوں، مجھے امید ہے میں دن بہ دن بہتر ہوجاؤنگی۔ کیموتھیرپی آسان نہیں ہوتی، یہ آپ کو جسمانی طور پر متاثر کرتی ہے۔
نازیہ نے انٹرویو دیتے وقت اپنے جذبات پر با مشکل قابو رکھا حالانکہ چہرے کے تاثرات واضح تھے۔ نازیہ کا کہنا تھا کہ میں ان تمام افراد کی شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے لیے دعائیں کی، نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس وقت آپ جتنا مثبت رہ سکتے ہیں رہیئے۔ میں اپنے ہر لمحے کو اینجوائے کر رہی ہوں، فیملی کے ساتھ وقت بتا رہی ہوں۔
جبکہ نازیہ حسن ماضی کی یادوں کو دہرا کر جذباتی ہوگئیں تھیں۔ شاید انہیں اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ اب وقت بہت کم ہے۔