سندھ میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والا ’ڈی ایس پی جوڑا‘، جس نے ہسپتال کے آئی سی یو میں شادی کی سالگرہ منائی

بی بی سی اردو  |  Dec 14, 2025

شادی کی سالگرہ کا بڑا سا کیک، مرہم پٹی میں لپٹے ہوئے ہاتھوں کو ملا کر بنایا گیا دل، آئی سی یو کا وارڈ اور مریضوں کے گاؤن (لباس) پہنے نوجوان جوڑے کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ۔۔۔

یہ کوئی عام شادی شدہ جوڑا نہیں بلکہ یہ صوبہ سندھ کے ضلع شکار پور کی خاتون ڈی ایس پی پارس بکھرانی اور ان کے شوہر ڈی ایس پی ڈاکٹر ظہور احمد سومرو ہیں، جو چند روز قبل ڈکیتی کی واردات کے بعد ملزمان کو گرفتار کرنے کے آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشانہ بن کر انتہائی زخمی حالت میں ہسپتال میں لائے گئے تھے۔

نو دسمبر کو اس جوڑے کی شادی کی سالگرہ کا دن تھا، جس کے لیے انھوں نے خصوصی طور پر کیک کا انتظام بھی کیا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ دونوں اس آپریشن میں زخمی ہو کر آئی سی یو پہنچ گئے اور یوں دو روز تاخیر سے ان کی سالگرہ ہسپتال کے وارڈ میں منائی گئی۔

یاد رہے کہ پارس بکھرانی اور ڈاکٹر ظہور احمد سومرو دونوں ہیسندھ کی پولیس میں فرائض سر انجام دیتے ہیں اور ان دنوں ضلع شکار پور کی الگ، الگ حدود میں میں دونوں میاں بیوی بطو ڈی ایس پی تعینات ہیں۔

ڈی آئی جی پارس بکھرانی کو آئی سے یو سے اب کمرے میں منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر ظہور احمد سومرو کو ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا ہے۔ تاہم وہ ابھی بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ ہسپتال میں موجود ہیں۔

بی بی سی نے جب سنیچر کی شام ان دونوں سے رابطہ قائم کیا تو اس وقت پارس بکھرانی کو آئی سی یو سے کمرے میں منتقل کیا جاچکا تھا مگر وہ تکلیف میں تھیں اور ممکنہ طور پر آئندہ چند دونوں کے لیے مزید بات چیت کرنے سے قاصر تھیں، جس پر ہماری بات چیت ڈاکٹر ظہور احمد سومرو سے با ت ہوئی۔

’علاقہ میرا ہے اور آپریشن میں خود لیڈ کروں گی‘

خاتون ڈی ایس پی پارس بکھرانی اور ڈی ایس پی ڈاکٹر ظہور احمد سومرو اس ماہ نو دسمبر کو شکار پور ہی کے ایک علاقے میں پولیس مقابلے میں زخمی ہوئے تھے۔

ڈاکٹر ظہور احمد ومرو نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس ماہ کی سات اور آٹھ تاریخ کو شکارپور میں ڈکیتی کی واردت میں ایک تاجر سے 26 لاکھ روپیہ لوٹ لیا گیا تھا۔

ان کے مطابق پولیس نے جب واقعہ کی تفتیش کی تو پتا چلا کہ اس واقعہ کے مبینہ ملزمان شکار پورکی مچھر کالونی کے علاقے میں موجود ہیں، جوڈی ایس پی سٹی پارس بکھرانی کی حدود میں آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈسڑکٹ پولیس آفیسر شکار پور کی جانب سے انھیں ہدایت ملیں کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی جائے اور یہ آپریشن ڈی ایس پی پارس بکھرانی اور ڈاکٹر ظہور احمد سومرو کی قیادت میں ہوگا۔

ان کے مطابق مچھر کالونی کو پولیس کے لیےایک مشکل علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

’نو دسمبر سے پہلے اس کی پوری منصوبہ بندی کی گئی۔ اس موقع پر میں نے پارس بکھرانی سے کہا کہ اس آپریشن کی قیادت میں کرتا ہوں اور وہ تھوڑا پیچھے رہ کر نگرانی کرلیں تو ہمیشہ کی طرح انھوں نے سختی سے کہا کہ علاقہ میرا ہے اور میں ہی اس آپریشن کی قیادت کروں گی، تاہم افسران کی ہدایت پر میں ساتھ دے سکتا ہوں۔‘

ڈاکٹر ظہور احمد سومرو کا کہنا تھا کہ آٹھ دسمبر کی شام کو پارس بکھرانی نے خود اپنے ساتھی افسران کے ساتھ مل کر اس آپریشن کی پوری منصوبہ بندی کی جس کے بعد ہم ساتھ گھر آ گئے اور صبح چھ بجے آپریشن کے لیے ساتھ نکلے۔

ڈاکٹر ظہور احمد نے مزید بتایا کہ اس روز صبح سویرے گھر سے ہم ایک ہی گاڑی میں ساتھ نکلے اور جب پولیس فورس کے ساتھ مچھر کالونی کی طرف گئے تو ایک جگہ پر منصوبے کے مطابق دونوں الگ الگ گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔

یاد رہے کہ دونوں کو الگ الگ مقام سے آپریشن کی قیادت کرنا تھی۔

ڈاکٹر ظہور احمد کا کہنا تھا کہ ’ہمارا منصوبہ یہ تھا کہ ہم ملزمان کے ٹھکانے سے کچھ فاصلے پر پہنچ کر گاڑیوں کو ترتیب سے لگانے کے علاوہ بلٹ پروف جیکٹیں پہن لیں گے۔‘

’ہم جب ابھی اس مقام سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھے کہ اونچائی پر بیٹھے ہوئے ملزمان نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس سے مجھے دو گولیاں لگیں جو پار ہو گئیں، مجھے فوری طور پر ایس ایچ او کی گاڑی میں بیٹھا کر ہسپتال پہنچایا گیا۔‘

کچے کے بیزار ڈاکوؤں کو پکّے میں بسانے کی پالیسی’میڈم آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔۔۔‘ کچے کے ڈاکو کاروبار یا محبت کا جھانسہ دے کر کیسے لوگوں کو اغوا کرتے ہیںپھولن دیوی کا وہ ’انتقامی قتل عام‘، جس کی چار دہائیوں بعد صرف ایک ملزم کو سزا سُنائی گئیسلطانا ڈاکو اور برصغیر میں امیر کو لوٹ کر غریب کو دینے کی روایت

ڈاکٹر ظہور احمد کہتے ہیں کہ پارس بکھرانی تھوڑے ہی فاصلے پر تھیں مگر وہ مجھے دیکھ نہیں پارہی تھیں۔

’جب پارس کو پتا چلا کہ میں زخمی ہو گیا ہوں تووہ میری گاڑی کی طرف آئیں اور اسی وقت ملزمان نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ جس سے ان کو بھی دو گولیاں لگیں اور وہ شدید زخمی ہو گئیں۔‘

ڈاکٹر ظہور کے مطابق ملزمان نے پارس بکھرانی کی گاڑی پر پچاس ساٹھ گولیاں فائر کر کے اس کو مکمل چھلنی کردیا۔

’مجھے یہ اطلاع ایس ایچ او کی گاڑی کےڈرائیورنے بتائیں جنھیں پارس بکھرانی کےڈرائیور نے یہ اطلاع دی تھی۔ میں اپنی تکلیف بھول گیا اور فوری طور پر گاڑی سے اتر کر پارس کی طرف جانا چاہتا تھا لیکن ایس ایچ او نے مجھے روک کر کہا کہ وہ مجھ سے پہلے ہسپتال پہنچ چکی ہوں گی۔‘

’گھبرانا نہیں اللہ سب ٹھیک کرے گا‘

ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہلے ڈاکٹر ظہور احمد سومرو پہنچتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر کے بعد پارس بکھرانی کو بھی پہنچا دیا جاتا ہے۔

دونوں میاں بیوی انتہائی شدید تکلیف کے باوجود ایک دوسرے کے لیے مسکراتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی مسکراہٹ کے پیچھے تکلیف کو موقع پر موجود سب لوگ محسوس کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ظہور احمد سومرو کہتے ہیں ’جب میں ایمرجنسی میں پہنچا تو اس وقت تک پارس بکھرانی نہیں آئی تھیں، تاہم تھوڑی دیر بعد پارس بکھرانی کو بھی لایا گیا جو کافی تکلیف میں تھیں۔

’وہ مجھ سے زیادہ زخمی تھیں۔ ان کی حالت کے پیش نظر پہلے ایئر ایمبولینس کے ذریعے کراچی پہنچانے کی بات کی گئی، تاہم پھر سکھر ہی تمام انتظامات مہیا کیے گئے۔‘

اس موقع پر ڈاکٹر ظہور احمد سومرو نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ ’گھبرانا نہیں اللہ سب ٹھیک کرے گا تو پارس بکھرانی نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ جی بالکل میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟‘

ہسپتال میں شادی کی دوسری سالگرہ

اس کے بعد دونوں میاں بیوی کیا گیا اور خوش قسمتی سے انھیں کسی بڑی سرجری کی ضرورت نہیں پڑی۔

ڈاکٹر ظہور احمد سومرو کے مطابق ’جب علاج معالجہ کے بعد پارس بکھرانی ہوش میں آئیں تو انھوں نے مجھے کہا کہ جلدی سے ٹھیک ہوجائیں، پھر فیلڈ میں چلتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ظہور احمد نے بتایا کہ نو دسمبر کا دن ہماری شادی کی سالگرہ کا دن ہے۔

’ہم نے اپنی شادی کی دوسری سالگرہ کے لیے ایک کیک کا خصوصی طور پر انتظام کیا ہوا تھا۔ مگر اس کیک کے ساتھ تو ہم اپنی شادی کی سالگرہ نہیں منا سکےکیونکہ دونوں زخمی ہوچکے تھے۔ 11دسمبر کو میئر شکار پور ہسپتال آئے اور جب انھیں یہ پتا چلا کہ نو دسمبر ہماری شادی کی سالگرہ کا دن تھا تو انھوں نے ہسپتال ہی میں ہمارے لیے کیک کا انتظام کردیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے مریضوں ہی کے کپڑوں میں کیک کاٹا اور ایک دوسرے کو شادی کی مبارک باد پیش کی تھی۔ پارس بکھرانی تکلیف میں تھیں مگر اس تکلیف کے باوجود وہ میرے لیے مسکرانے کی کوشش کرتی تھیں۔‘

’خاتون نہیں پولیس افسر ہوں‘

ڈاکٹر ظہور احمد سومرو کہتے ہیں کہ شکار پور سے پہلے وہ دونوں لاڑکانہ میں تعنیات تھے۔

وہاں پر اکثر کچے کے علاقے میں آپریشن ہوتے تھے۔ ایسے ہی ایک آپریشن سے قبل پارس بکھرانی نے میٹنگ میں کہا کہ آپ مجھے کچے کے علاقے میں کیوں نہیں لے کر جاتے۔ میں سب کچھ کرسکتی ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’خوش قسمتی سے اب تک ہماری تعیناتی ایک ہی ضلع میں ہوتی آئی ہے۔ اکثر جب کوئی ایسی مہم ہو تو میں پارس بکھرانی سے کہتا ہوں کہ آپ پیچھے رک کر نگرانی کرلیں تو وہ نہیں مانتیں بلکہ کہتی ہیں کہ مجھے خاتون پولیس آفیسر نہ کہا جائے بلکہ پولیس افسر ہوں جو سب کچھ کرسکتی ہے۔‘

ڈاکٹر ظہور احمد سومرو کہتے ہیں کہ ان کی اہلیہ نے تین چار پولیس مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور اس دوران انھوں نے جم کر فائرنگ اور مقابلہ کیا تھا۔

’ان کا نشانہ مجھ سے بہتر ہے اور بہترین فائرنگ کرتی ہیں۔ اپنے علاقے کے تمام معاملات خود دیکھتی ہیں۔ رات کو گشت کرتی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ پارس بکھرانی نے انگلش لٹریچر میں نمل یونیورسٹی سے ماسٹر کیا ہے اور انھیں بچپن ہی سے پولیسنگ کا بہت شوق تھا اور ان کے والد نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی تھی، جس کے بعد وہ سندھ پبلک سروس کا امتحان پاس کرکے ڈی ایس پی بنی تھیں۔

ظہور احمد سومرو ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔

ڈاکٹر بننے کے بعد پولیس میں جانے کا شوق ہوا جس کے لیے تین دفعہ سی ایس ایس کا امتحان دیا، جس میں دو مرتبہ تو کامیابی نہیں ملی مگر تیسری مرتبہ کامیابی ملی مگر اس وقت ان کو پولیس کے شعبے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا تھا۔

پھر سندھ پبلک سروس میں ڈی ایس پی کے لیے امتحان ہوئے تو اس میں انھیں کامیابی مل گئی تھی۔

’پارس کو بل نہ دینے دیتا‘

ڈاکٹر ظہور احمد سومرو کہتے ہیں کہ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد دونوں کی سکھر کے ایس ایس پی ہی کے دفتر میں اٹیچمینٹ ہوئی جہاں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی اور اس کے بعد پولیس اکیڈمی اسلام آباد میں تربیت کے لیے بھیجا گیا جہاں پر تربیت کا ایک سخت شیڈول ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صبح ورزش، پریڈ اور دیگر معاملات کے بعد کلاسز ہوتی ہیں اور اگر شام کو تھوڑا سا وقت مل جاتا تو کبھی کبھار ڈنر کے لیے چلے جایا کرتے۔

’وہاں پر اکثر پارس بکھرانی کوشش کرتیں کہ وہ بل ادا کریں مگرمیں نہیں کرنے دیتا تھا۔ اس طرح ہم قریب آتے چلے گئے۔‘

ڈاکٹر ظہور احمد سومرو کا کہنا تھا کہ ’اس دوران میں نے ہمت کرکے اپنے دل کی بات کہہ دی جس پر انھوں نے کہا کہ اپنے والدین کو میرے والدین کے گھر بھیجو اور یہ کہ حتمی فیصلہ والدین کا ہوگا۔ جس پر میں نے اپنے والدین کو بھیجا تو ان کے والدین نے رشتہ قبول کرلیا اور ہمارا نکاح ہوگیا تھا۔‘

ڈاکٹر ظہور احمد سومرو کا کہنا ہے کہ ’اس وقت میری ساری توجہ اپنی اہلیہ کی صحت کی جانب ہے اور میں ان کے ساتھ ہسپتال کے کمرے ہی میں ہوں جہاں پر ان کو ورزش کے علاوہ جذباتی سہارا اور صحت یاب ہونے میں مدد فراہم کررہا ہوں کہ مجھے پتا ہے کہ وہ دوبارہ فیلڈ میں جانے کو بے تاب ہیں۔‘

کچے کے ڈاکوؤں کی اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اور پولیس پر سوالات: ’دس لاکھ ایس ایچ او کے بتائے بندے کو دیے اور مغوی واپس آ گیا‘ماچھکہ حملہ: ’راکٹ لانچر سے لیس 131 ڈاکو‘ پنجاب پولیس پر کیسے حملہ آور ہوئے؟اسلام آباد میں گاڑی کی ٹکر سے سکوٹی پر سوار دو خواتین کی ہلاکت: ورثا نے ’اللہ کے نام پر‘ ملزم کو معاف کیا، تحریری فیصلہلُنڈ گینگ کے سربراہ کی ہلاکت: ’صاحب، میں نے آپ کے کہنے پر شاہد لُنڈ کو قتل کر دیا ہے!‘’ڈاکوؤں کا شہنشاہ‘ مان سنگھ جس کا چار ریاستوں کی پولیس نے 15 سال تک پیچھا کیاسیلابی ریلے کی نذر ہونے والے کانسٹیبل حیدر علی: چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی جسے ’پولیس یونیفارم کا اتنا جنون تھا کہ رات کو بھی پہنے رکھتا‘
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More