ٹرانسپیرینسی سروے: کیا واقعی حالیہ دور میں پاکستان میں کرپشن کم ہوئی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 10, 2025

Getty Imagesٹی آئی پی کے سروے کے مطابق قومی سطح پر لوگوں کی اکثریت کو لگتا ہے کہ پولیس کے محکمے میں سب سے زیادہ کرپشن ہے

عالمی سطح پر حکومتوں میں کرپشن پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے حال ہی میں پاکستان کے حوالے سے ایک قومی کرپشن پرسیپشن سروے جاری کیا ہے جس کے بہت سے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ ’رواں برس 66 فیصد شہریوں نے کہا ہے کہ انھیں گذشتہ 12 ماہ کے دوران عوامی سہولیات کے حصول کے لیے رشوت نہیں دینا پڑی۔‘

تاہم ساتھ ہی ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ سروے کا حصہ بننے والے 77 فیصد افراد نے کہا ہے کہ ’وہ کرپشن کا سد باب کرنے کی حکومتی کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں۔‘

خیال رہے کہ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل پاکستان یعنی ٹی آئی پی نے سروے کے لیے ایک مخصوص تعداد میں پاکستانی شہریوں کا نمونہ لیا جس میں ان سے عوامی سہولیات فراہم کرنے والے لگ بھگ نو اداروں میں کرپشن کے حوالے سے رائے جانی گئی ہے۔

ٹی آئی پی سروے کے مطابق قومی سطح پر لوگوں کی اکثریت یعنی 24 فیصد افراد یہ تاثر رکھتے ہیں کہ پاکستان میں پولیس کے محکمے میں سب سے زیادہ کرپشن پائی جاتی ہے۔ صوبائی سطح پر صوبہ پنجاب میں پولیس کے حوالے سے یہ تاثر سب سے زیادہ یعنی 34 فیصد افراد کا ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں اپنی حکومت کی طرف سے ٹی آئی پی کی سرورے رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’سروے کے مطابق عوام کی بڑی تعداد نے یہ رائے دی ہے کہ ہماری حکومت کے دوران انھیں کرپشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ عوام کی یہ رائے کرپشن کے خلاف جنگ اور شفافیت کے فروغ کے حوالے سے ہماری کوششوں کا اعتراف ہے۔‘

تاہم حال ہی میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف نے پاکستان حکومت کی درخواست پر گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹکس اسسیسمنٹ رپورٹ شائع کی ہے جس میں عالمی مالیاتی ادارے نےکہا ہے کہ پاکستان کے تمام ریاستی اداروں کو کرپشن کے چیلنج کا سامنا ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ نے اس کی بنیادی وجہ ریاستی اداروں میں نظام کی کمزوریاں بتائی ہے۔ ساتھ ہی عالمی مالیاتی ادارے نے تحویز کیا ہے کہ "پاکستان کو پالیسی سازی میں شفافیت اور احتساب کے عمل کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔"

تو سوال یہ ہے کہ ٹی آئی پی کے حالیہ سروے کی بنیاد پر کرپشن میں کمی کے حکومتی دعوے کو کس حد تک درست مانا جا سکتا ہے۔ اور کیا اس سروے کو از خود کرپشن ماپنے کے معتبر پیمانے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل ایک نظر ڈالتے ہیں کہ سروے میں دیگر کیا نتائج سامنے آئے ہیں۔

پاکستان میں کرپشن کا تاثر اور سروے کے نتائجReutersشہباز شریف: ’سروے کے مطابق عوام کی بڑی تعداد نے یہ رائے دی ہے کہ ہماری حکومت کے دوران انھیں کرپشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے سروے کا حصہ بننے والے لوگوں کی رائے میں پاکستان میں پولیس کا محکمہ سب سے زیادہ کرپٹ ہے جبکہ ٹینڈر اور پروکیورمنٹ کے ادارے میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ کرپشن پائی جاتی ہے۔

سروے میں شامل ہونے والے افراد کے مطابق پاکستان میں عدلیہ تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ کرپٹ ادارہ ہے۔ اسی سروے کے سیمپل افراد میں 59 فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں زیادہ کرپٹ ہیں۔

جہاں 66 فیصد افراد نے یہ کہا ہے کہ انھیں گذشتہ ایک برس کے دوران عوامی سہولیات کے حصول کے لیے رشوت دینا نہیں پڑی وہیں صوبہ سندھ میں 46 فیصد افراد نے یہ کہا کہ انھیں عوامی سہولیات کے حصول کے لیے رشوت دینا پڑی۔ صوبہ پنجاب میں یہ شرح 39 فیصد رہی۔

سروے کے مطابق 57 فیصد افراد نے یہ کہا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ان کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے۔

صحت کے شعبے میں 38 فیصد افراد نے ہسپتالوں، 23 فیصد نے ڈاکٹروں جبکہ 21 فیصد نے ادویات بنانے والی کمپنیوں کو کرپشن کی آماجگاہ کے طور پر نشاندہی کی ہے۔ سروے کے مطابق 67 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ صحت کے شعبے میں کرپشن براہ راست لوگوں کی زندگیوں کو بڑے پیمانے پر متاثر کرتی ہے۔

ٹی آئی پی کے سروے کے مطابق سیمپل کیے گئے افراد کے مطابق پاکستان میں کرپشن کی تین بڑی وجوہات میں احتساب کے عمل اور شفافیت کا فقدان، معلومات تک رسائی کا محدود ہونا اور کرپشن کے مقدمات میں تاخیر شامل ہیں۔

’یہ رپورٹ حقیقی کرپشن ناپنے کا پیمانہ نہیں‘

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں معلم اور ماہر معیشت علی حسنین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل پاکستان کا قومی کرپشن پرسیپشن سروے بنیادی طور پر خلاصہ ہے کہ پاکستانی کرپشن کے بارے میں ایک مخصوص سال کے دوران کیا تاثر رکھتے ہیں۔

’یہ حقیقی کرپشن ماپنے کا پیمانہ نہیں ہے۔ یہ سروے ہمیں قابل اعتماد طریقے سے یہ بتاتا ہے کہ پاکستانی کرپشن کے بارے میں کیا سمجھتے ہیں لیکن یہ خود سے یہ ظاہر نہیں کر سکتا کہ کیا واقعی کرپشن بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے۔‘

علی حسنین کہتے ہیں کہ اس سروے کے حوالے سے طریقہ کار کی بہت سی بندشوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے لوگوں کی جو سیمپلنگ کی گئی وہ بلا ترتیب گھروں سے حاصل کرنے کے بجائے مخصوص مقامات پر کی گئی جیسا کہ پارک اور مارکیٹ وغیرہ۔

’جواب دہندگان نے مصدقہ تجربات کے بجائے تاثرات رپورٹ کیے جس کی وجہ سے ان کے جوابات سماجی خواہشات کے دباو یا پھر خبروں میں چلنے والے مسائل کے تابع کہا جا سکتا ہے۔‘ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سروے میں تمام قومی محکموں کو برابری کی سطح پر شامل نہیں کیا گیا۔

علی حسنین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سالہا سال سے مسلسل سامنے آنے والی بڑی مثالیں وزن رکھتی ہیں تاہم چھوٹے اور باریک فرق کو انتہائی احتیاط سے دیکھنا چاہیے خاص طور پر مختلف اداروں کی رینکنگ میں معمولی سی تبدیلی یا صوبائی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مسلسل سامنے آنے والے نتائج کہ پولیس اور ٹینڈر اینڈ پروکیورمنٹ کو سب سے زیادہ کرپشن کے شکار سویلین اداروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے معتبر ہے کیونکہ ان کے درمیان فرق بہت بڑا اور مستحکم ہے لیکن دیگر اداروں میں رینک کی چھوٹی سی تبدیلی عددی اعتبار سے زیادہ معنی نہیں رکھتی اور اسے حقیقی تبدیلی نہیں بلکہ سیمپلنگ نوائز یا شور کہا جا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’رواں سال کے نتائج عوامی مایوسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔‘

علی حسنین کے خیال میں جہاں 66 فیصد جواب دہندگان نے یہ بتایا کہ انھیں عوامی سہولیات کے حصول کے لیے گذشتہ برس رشوت نہیں دینا پڑی وہیں 77 فیصد حکومت کی کرپشن کا سد باب کرنے کی کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ ساتھ ہی 78 فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ اینٹی کرپشن کے اداروں کو نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ اس رپورٹ کو عوام کی مایوسی اور اداروں میں عدم اعتماد کی تشخیص کے طور پر دیکھنا چاہیے نہ کہ کرپشن کے ماپنے کے سائنسی تجزیے کے طور پر دیکھا جائے۔

کیا سروے سے کرپشن میں کمی کا تاثر درست ہے؟

ڈاکٹر ساجد امین اسلام آباد کے ادارے سسٹینیبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ یعنی ایس ڈی پی آئی میں ماہر معیشت ہیں۔ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل پاکستان کے کرپشن سروے 2025 پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے بی بی سی سے بات کی۔

ساجد امین کہتے ہیں کہ اس سروے کو اگر سیدھا سادھا دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ احتساب اور شفافیت کے نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

’اس کے لیے معلومات تک رسائی ایک انتہائی اہم پہلو ہے۔ یہ وہ ستون ہے جس کے ذریعے شفافیت ممکن بنائی جا سکتی ہے اور شفافیت کے بغیر احتساب ممکن نہیں۔‘

ساجد امین کے خیال میں ’رشوت نہ دیتے کی ضرورت نہ پڑنے‘ کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بہت سی سروسز یعنی عوامی سہولیات کو ڈیجیٹلائز کیا گیا ہے یعنی سروس لینے والے اور دینے والے کے درمیان براہ راست رابطے کو ڈیجیٹلائیزیشن کے ذریعے کم کیا گیا ہے۔

’تاہم یہاں جو زیادہ بڑا اور اہم پیغام ہے وہ یہ ہے کہ 77 فیصد افراد ایسے ہیں جو کرپشن کے سد باب کے لیے حکومت کی کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں۔‘

ماہر معیشت ساجد امین کہتے ہیں کہ اس کی ایک بڑی وجہ کرپشن کو رپورٹ کرنے کے طریقہ کار کا فقدان ہے۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ حکومت کو ایسی پالیسی سازی کرنے کی ضرورت ہے جس سے کرپش کو رپورٹ کرنے شفاف طریقہ کار وضح کیا جا سکے۔

کیا ٹی آئی پی اور آئی ایم ایف کی رپورٹس کے نتائج میں کوئی فرق ہے؟EPAماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور ٹی آئی پی دونوں کی رپورٹس میں یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ پاکستان کو کرپشن کے خلاف احتساب اور شفافیت کے عمل کو مزید بڑھانا ہو گا

کرپشن سے متعلق آئی ایم ایف کی رپورٹ میں ریاست پاکستان کے پانچ اہم فنگشنز کا جائزہ لیا گیا تھا کہ جن میں گورننس، مالیاتی شعبے کی نگرانی اور قانون کی عملداری وغیرہ شامل تھے۔

حکومت کی درخواست پر مرتب کی گئی آئی ایم ایف کی رپورٹ میں معلوم ہوا تھا کہ وسیع پیمانے پر ریاستی تسلط کے ساتھ چلنے والی معیشت میں کرپشن کے کئی خطرات موجود ہیں، اداروں کی صلاحیت کمزور ہے جبکہ ریگولیٹری ماحول پیچیدہ ہے۔

اس میں کہا گیا تھا کہ اداروں کی نگرانی کے طریقے اور احتساب کے نظام میں خامیاں ہیں۔ ان سب کی وجہ سے نجی شعبے کو رکاوٹوں کا سامنا ہے اور حکومتی اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں تجویز دی گئی تھی کہ اداروں اور قوانین کو مضبوط کیا جائے، شفافیت بڑھائی جائے اور معاشی پیداوار اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے اداروں کے بیچ تعاون بڑھایا جائے۔

ماہر معیشت ساجد امین سمجھتے ہیں کہ ٹی آئی پی کا کرپشن سروے بھی بڑی حد تک آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ سے مطابقت رکھتا ہے۔

اُن کے خیال میں دونوں میں یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ پاکستان کو کرپشن کے خلاف احتساب اور شفافیت کے عمل کو مزید بڑھانا ہو گا۔

’ایک بات جو اس سروے میں بھی دوسرے نمبر پر ہے وہ حکومت کے ٹینڈر اور پروکیورمنٹ کے نظام میں کرپشن کا تاثر ہے جو کافی حد تک آئی ایم ایف کی رپورٹ سے مطابقت رکھتا ہے۔‘

ساجد امین کہتے ہیں کہ پاکستان میں پروکیورمنٹ کے نظام کو ری ویمپ کرنے یا نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں وہ ادارے جس کے پاس پروکیورمنٹ کی ذمہ داری ہے ان کے پاس یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ مارکیٹ میں فیئر پرائسنگ کا اندازہ کر سکیں۔

’اِن اداروں کے اندر مارکیٹ انٹیلیجنس کی صلاحیت قائم کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ صرف کسی ایک بِڈ (بولی) کو پیسے بچانے کے اعتبار سے تشخیص نہ کریں بلکہ ویلیو فار منی ہونے کا بھی اندازہ کر سکیں۔‘

ساتھ ہی وہ پروکیورمنٹ کے اداروں اور عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور ڈیجیٹلائز کرنے کی تجویز بھی دیتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ ریاستی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کو ترجیح دینے کی حوصلہ شکنی کے لیے پروکیورمنٹ کے سخت قوانین پر عمل کیا جائے۔

ساجد امین کے خیال میں ٹی آئی پی کے سروے سے جو تین بڑے پیغامات سامنے آتے ہیں ان میں وہی نکات ہیں جو آئی ایم ایف کی رپورٹ میں سامنے آ چکے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ پاکستان میں کرپشن کے سدباب کے لیے شفافیت کے عمل کو تیز کرنے اور احتساب کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے کرپشن پرسیپشن سروے 2025 کے بارے میں بیان میں کہا ہے کہ ’عوام کی اکثریت نے معیشت کی بحالی کے لیے حکومتی اقدامات کو کامیاب قرار دیا جو کہ انتہائی خوش آئند ہے۔‘

انھوں نےکہا کہ یہ رپورٹ حکومت کی جانب سے کی گئی اصلاحات کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ’ہم نے حکومت کے ہر شعبے میں میرٹ اور شفافیت سے بھرپور نظام کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا اور اس حوالے سے مزید کام کر رہے ہیں۔‘

تاہم خیال رہے کہ ماضی میں شہباز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی اسی نوعیت کی ماضی کی رپورٹس کو رد کرتی رہی ہے۔

’آئی ایم ایف وغیرہ بھی ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟‘کھڑکی توڑ ملک ریاض بمقابلہ نظامِ ریاست نواز حکومت کی بحالی: ’چمک‘ کا نتیجہ یا اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار محدود کرنے کی کوشش؟بنگلہ دیشی وزیراعظم کا ’چپڑاسی‘ جس کے اکاؤنٹ سے چار سو کروڑ نکلے
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More