Hulton Archive/Getty Imagesسڈنی رائلی کو برطانوی انٹیلیجنس کی تاریخ میں سب سے بڑا جاسوس سمجھا جاتا ہے
پانچ نومبر 1925 کی شام کو قیدی نمبر 73 کو ماسکو کی بدنام زمانہ لوبیانکا جیل میں ان کے قید خانے سے نکال کر قریبی سوکولنیکی جنگل میں لے جایا گیا۔
سوویت ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی (او جی پی او) کے تین آدمی ان کے ساتھ کار میں تھے۔ کار باگاروسک روڈ کے ساتھ ایک تالاب کے پاس رکی اور قیدی کو حکم دیا گیا کہ وہ گاڑی سے نکل کر جنگل میں سیر کرے۔
اس میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی کیونکہ اس سے پہلے بھی قیدی کو کچھ دنوں کے وقفے سے اسی طرح کی سیر کرائی جا چکی تھی۔
ونس ہاکنز نے وارفیئر ہسٹری نیٹ ورک کے اگست 2004 کے شمارے میں شائع ہونے والے ’دی مسٹیریئس سڈنی رائلی‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’قیدی نے گاڑی سے نکل کر بمشکل 30 سے 40 قدم ہی اٹھائے تھے جب او جی پی او کے جاسوس ابراہم بیسالوف نے اپنا پستول نکالا اور ان کی کمر میں گولی مار دی۔‘
قیدی کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ اسے اس طرح قتل کر دیا جائے گا اور اگر اسے اندازہ ہوتا بھی تو بچ نکلنے کا کوئی موقع نہیں تھا کیونکہ سٹالن نے خود اسے قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
نتیجتاً، برطانوی خفیہ حلقوں کے سب سے بڑے جاسوس سمجھے جانے والے سڈنی رائلی موقع پر ہی مارے گئے۔
یوکرین کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئےBiteback Publishing
رائلی کے کارناموں کو برطانوی انٹیلیجنس کی تاریخ کے بڑے کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سب سے پہلے ان کی سوانح عمری ’ایڈوینچرز آف آ برٹش ماسٹر سپائی‘ میں دنیا کے سامنے آئے جو ان کی موت کے بعد 1931 میں شائع ہوئی تھی۔
اس خود نوشت کے اقتباسات لندن ایوننگ سٹینڈرڈ میں بھی شائع ہوئے۔ سٹیفن گرے اپنی کتاب ’دا نیو سپائی ماسٹرز‘ میں لکھتے ہیں ’رائلی میں ایک اچھے جاسوس کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔ وہ کئی زبانیں بولتا تھا، لوگوں کو آسانی سے بے وقوف بنا سکتا تھا اور ہر جگہ گھسنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا تھا۔ دوست بنانا اور ان کے راز حاصل کرنا اس کے لیے بہت آسان تھا۔ وہ برطانیہ کے بہترین جاسوسوں میں سے ایک تھا، جسے سوویت بھیجا گیا تھا۔‘
رائلی 1873 میں اودیسا، یوکرین میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1890 کی دہائی میں وہ لندن چلے گئے، جہاں انھوں نے نہ صرف ایک آئرش خاتون سے شادی کی بلکہ ان کا پہلا نام بھی اپنا لیا۔ انھوں نے خود کو آئرش کہنا شروع کر دیا۔ تب سے انھوں نے ایک تاجر اور ایک آزاد جاسوس کے طور پر کام کیا۔
جاپان اور برطانیہ کے لیے جاسوسیTempus
ان کا کام معلومات اکٹھا کرنا تھا جسے وہ بیچ سکتے تھے۔ روس جاپان جنگ کے دوران، انھوں نے روسی دفاعی منصوبوں کو چرا کر جاپانیوں کو بیچ دیا۔
اینڈریو کک اپنی کتاب ’ایس آف سپائیز، دا ٹرو سٹوری آف سڈنی رائلی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ریلی نے جنگی سامان کی خرید و فروخت میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے جاپان میں بڑی مقدار میں بارود خریدا اور نیویارک میں روسیوں کے لیے ہتھیار بھی خریدے۔‘
’انھیں آخری بار روس میں 1915 کے موسم گرما میں، 1919 کے روسی انقلاب سے پہلے دیکھا گیا تھا۔ 1914 میں رائلی نے سینٹ پیٹرزبرگ میں ایک جرمن جہاز ساز کمپنی کے مالک سے جرمنی کی بحریہ کی توسیع کا مکمل بلیو پرنٹ چرایا اور معلومات برطانوی انٹیلیجنس کو فروخت کیں۔‘
روس میں اکتوبر کے انقلاب کے بعد، رائلی نے رضاکارانہ طور پر برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ وہ اس وقت نیویارک میں جنگی معاہدوں پر کام کر رہے تھے۔
ان کے سوانح نگار اینڈریو کک کے مطابق ’رائلی کسی بہانے روس میں دوبارہ داخل ہونے کا منصوبہ بنا رہا تھا، جہاں وہ سینٹ پیٹرزبرگ میں قیمتی سامان اور پینٹنگز کی ایک بڑی مقدار اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ وہ انھیں واپس برطانیہ لانے کی کوشش کر رہا تھا۔‘
رائلی کو جاسوسی کے لیے روس بھیجا گیا تھا
برطانیہ کی خفیہ انٹیلیجنس سروس (ایس آئی ایس) کے سربراہ سر مینسفیلڈ کمنگ نے 18 مارچ 1918 کو روس بھیجے جانے سے پہلے ان کا پس منظر چیک کیا تھا۔ انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی فائیو کے مطابق، رائلی پیدائشی طور پر ہوشیار تھے۔
نیویارک کے ایس آئی ایس سٹیشن نے انھیں ایک ٹیلیگرام بھیجا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ وہ قابل بھروسہ شخص نہیں ہیں اور جو ذمہ داریاں انھیں روس میں سونپی جا رہی ہیں ان کے لیے وہ موزوں نہیں۔
کک لکھتے ہیں کہ ’ایک ایس آئی ایس افسر، نارمن تھوائٹس نے ایک بینکر سے کہا تھا کہ رائلی ایک ہوشیار تاجر ہے لیکن نہ تو محب وطن ہے اور نہ ہی اصول پسند، اس لیے اسے کسی ایسے عہدے کے لیے منتخب نہیں کیا جانا چاہیے جس میں وفاداری کی ضرورت ہو۔‘
عورتوں سے دوستیPublic Affairs
سڈنی رائلی کو کبھی بھی پرکشش شخصیت کے طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ کمنگز نے جب رائلی کی تفصیل روس میں تعینات اپنے جاسوسوں کو بھیجی تو انھوں نے لکھا کہ ’اس کا قد پانچ فٹ دس انچ ہے۔ اس کی آنکھیں بھوری اور قدرے پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کے چہرے پر بہت سی لکیریں ہیں اور وہ سیاہ ہے۔‘
لیکن کسی چیز نے ہمیشہ خواتین کو رائلی کی طرف راغب کیا۔ انھوں نے انٹیلیجنس جمع کرنے کے لیے انھیں آزادانہ طور پر استعمال کیا۔
رابرٹ سروس اپنی کتاب ’سپائیز اینڈ کمیسرز‘ میں لکھتے ہیں، ’رائلی کی بے شمار معشوقاؤں میں نوجوان روسی اداکارہ یلیزاویتا اوتن بھی شامل تھیں۔ انھوں نے شیریمیٹیف لین میں کریملن سے چند سو گز کے فاصلے پر ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لیا ہوا تھا۔ ان کا ایک قریبی تعلق ڈگمارا کاروزس کے ساتھ بھی تھا، جو اسی اپارٹمنٹ میں رہتی تھیں۔ ڈگمارا جرمن شہری تھیں اور 1915 میں وزارتِ داخلہ کی سکیورٹی نے ان پر جاسوس ہونے کے شبہے میں تحقیقات بھی کی تھیں۔‘
پشاور سے امریکی جاسوس طیارے کی سوویت یونین تک پرواز جس نے دو دشمن ممالک کو مزید تلخیوں کی طرف دھکیل دیاکراچی سے ڈھاکہ جانے والا طیارہ، برطانوی جاسوس اور خطرناک ہتھیار: جب انڈیا میں آسمان سے اسلحے کی بارش ہوئیجب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیارافت الہجان: مصر کے افسانوی جاسوس ’نمبر 313‘ قومی ہیرو تھے یا اسرائیلی ڈبل ایجنٹ؟
رابرٹس نے اپنی کتاب میں ایک لمبی فہرست دی، ’اس کے علاوہ اولگا سٹارزیوسکایا بھی اس کی محبت میں دیوانی تھیں اور اسے یقین تھا کہ جلد ہی ان کی شادی ہو جائے گی۔ وہ کانگریس آف سوویت کے دفتر میں ٹائپسٹ تھیں۔ رائلی کی ان میں دلچسپی کی بنیادی وجہ ان کی اہم دستاویزات تک رسائی تھی۔ رائلی کا ایک اور خاتون ماریہ فریڈ سے بھی تعلق تھا۔ اس کا بھائی الیگزینڈر، فوج میں لیفٹیننٹ کرنل تھا اور دفترِ عسکری امور میں تعینات تھا۔‘
سٹیفن گرے لکھتے ہیں کہ ’وہ خفیہ زندگی گزارنے اور مختلف بھیس بدلنے میں مہارت رکھتا تھا۔ وہ کئی زبانیں جانتا تھا اور روانی سے روسی بولتا تھا۔ پیٹروگراڈ میں وہ ترک تاجر کانسٹانٹین ماسینو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ماسکو میں اس نے خود کو یونانی تاجر کانسٹنٹائن کے طور پر پیش کیا۔‘
’دوسری جگہوں پر وہ خود کو سگمنڈ ریلیسکی کے نام سے روسی انٹیلیجنس ایجنسی کے کریمنل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے رکن کے طور پر ظاہر کرتا تھا تاہم ایک معتبر مبصر کے لیے ضروری غیر جانبداری اس میں موجود نہیں تھی۔‘
لینن تک رسائی
اپریل 1918 میں ماسکو پہنچنے پر رائلی نے وہاں موجود برطانوی جاسوسوں سے رابطہ کرنے سے گریز کیا۔ وہ براہِ راست کریملن گیا اور دعویٰ کیا کہ وہ سوویت کامیابیوں پر ایک کتاب کی تحقیق کر رہا ہے۔ نتیجتاً، وہ ولادیمیر بروئیوِچ، لینن کے چیف آف سٹاف سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
رابرٹ سروس اپنی کتاب ’سپائیز اینڈ کمیسرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سڈنی اور بروئیوِچ کے درمیان ملاقات اتنی کامیاب رہی کہ سڈنی کو نہ صرف سرکاری گاڑی دی گئی بلکہ اسے پولی ٹیکنیکل میوزیم میں منعقدہ مئی ڈے کی تقریبات میں شرکت کی دعوت بھی دی گئی جہاں ٹراٹسکی تقریر کرنے والے تھے۔‘
’جب سڈنی اور اس کے دوست ہال پہنچے تو ہال پہلے ہی بھر چکا تھا۔ ’انھیں جو نشست دی گئی وہ ایسی تھی کہ ان کے اور ٹراٹسکی کے درمیان بس ایک پیانو جتنی جگہ تھی۔ سڈنی نے اپنے دوست سے سرگوشی میں کہا، ’یہی موقع ہے کہ ٹراٹسکی کو قتل کر کے بولشیوازم (ایک سیاسی نظریہ اور تحریک جو روس میں 20ویں صدی کے اوائل میں ابھری) کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔‘‘
لیکن اس نے اپنے جذبات پر قابو رکھا۔ روس پہنچنے پر اس کی بولشویزم کے بارے میں مثبت رائے تھی لیکن چند دن ماسکو میں گزارنے کے بعد اس کے خیالات بدل گئے اور وہ سوویت حکومت کے خلاف ہو گیا۔
رابرٹ لاک ہارٹ اور جارج ہل جو ماسکو میں تعینات برطانوی جاسوس تھے، نے اپنی سوانح عمری میں ذکر کیا کہ سڈنی رائلی نے سوویت حکومت کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ رائلی کا منصوبہ یہ تھا کہ کریملن کی حفاظت کرنے والے لاتوین گارڈز، لینن سمیت اعلیٰ سوویت رہنماؤں کو ہتھیار کے زور پر گرفتار کریں۔
انھوں نے لینن کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کی کیونکہ رائلی کا خیال تھا کہ اگر لینن کو غیر ملکی طاقتوں نے مارا، تو سوویت عوام کا ردِ عمل تباہ کن ہوگا۔
جارج الیگزینڈر ہل اپنی کتاب ’گو سپائے دا لینڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’رائلی کا اصل منصوبہ یہ تھا کہ تمام کمیونسٹ رہنماؤں، بشمول لینن کو ماسکو کی سڑکوں پر پریڈ کروا کے عوام کے سامنے ان کی تذلیل کی جائے اور روسیوں کو دکھایا جائے کہ وہ کتنے کمزور ہیں۔ یہ ایک مشکل کام تھا۔ سڈنی کے ساتھی ہل نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ عملی نہیں ہے، اسے ویٹو کر دیا۔‘
Biteback Publishingآپریشن ناکام ہو گیا
17 اگست کو رائلی اور ایک اور برطانوی ایجنٹ جارج ہل نے لاتوین رجمنٹ کے کمانڈر سے ملاقات کی۔ منصوبہ یہ تھا کہ ستمبر کے پہلے ہفتے میں کونسل آف پیپلز کمیسارس اور سوویت قیادت کی میٹنگ کے دوران بغاوت انجام دی جائے۔
لیکن آخری لمحے میں غیر متوقع واقعات نے آپریشن کو متاثر کیا۔ 30 اگست کو ایک فوجی کیڈٹ نے پیٹروگراڈ میں سوویت انٹیلیجنس ایجنسی چیکا کے سربراہ موسل یوریٹسکی کو قتل کر دیا۔ اسی دن فانیہ کیپلن نے لینن پر اس وقت فائر کیا جب وہ ماسکو کی ایک فیکٹری سے نکل رہے تھے۔
لینن اس حملے میں زخمی ہو گئے۔ ان واقعات کے بعد چیکوف نے ہزاروں سیاسی مخالفین کو گرفتار کرنے کی مہم شروع کی۔
رائلی کے ساتھی جو بغاوت کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، وہ بھی اس آپریشن کے دوران گرفتار ہوئے۔ انھوں نے پیٹروگراڈ میں برطانوی سفارتخانے پر دھاوا بولا اور سڈنی رائلی کے ساتھی کرومی کو قتل کر دیا۔ رائلی کا دوسرا ساتھی رابرٹ لاک ہارٹ بھی گرفتار ہو گیا۔
بعد میں وہ ماسکو میں گرفتار کیے گئے سوویت سفارت کار میکسیم لیتوینو کے بدلے رہا کر دیے گئے۔ رائلی کی کورئیر یلیزاویتا اوٹن، ماریا فریڈے اور ایک اور معشوقہ، اولگا سٹارژیفسکایا، بھی گرفتار ہو گئیں۔
رائلی کی گرفتاری
رائلی کے چھپنے کے مقام پر روسی انٹیلیجنس نے بھی چھاپہ مارا لیکن برطانوی جاسوسوں کی مدد سے وہ روس سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ فن لینڈ اور سٹاک ہوم کے راستے نو نومبر کو لندن پہنچے۔
ڈی بریفنگ کے بعد رائلی نے اگلے چند سال مختلف یورپی ممالک میں گزارے۔ اس دوران ایک روسی عدالت نے سڈنی رائلی کو بولشیو حکومت کو گرانے کی کوشش کے جرم میں موت کی سزا سنائی۔ 1925 میں رائلی آخری مشن کے لیے دوبارہ روس واپس آئے۔
ان کا مقصد سوویت یونین کی عسکری اور صنعتی صلاحیتوں کے بارے میں انٹیلیجنس جمع کرنا تھا۔
یو جین نیلسن نے اپنے مضمون ’سڈنی رائلی، ایس آف سپائیز‘ جو یروشلم ٹائمز میں 21 اگست 2023 کو شائع ہوا، میں لکھا کہ ’رائلی سوویت حکومت کو گرانے کے جنون میں مبتلا تھا۔ اسے یقین تھا کہ سوویت یونین میں سرگرم ایک خفیہ اینٹی بولشیو تنظیم ’ٹرسٹ‘ اس کام میں اس کی مدد کر سکتی ہے۔‘
’لیکن یہ دراصل روسی انٹیلیجنس ایجنسی کا جال تھا، جس کا مقصد غیر ملکی ایجنٹس اور بولشیو حکومت کے مخالفین کو روس میں پھنسانا تھا اور رائلی اس میں پھنس گیا۔‘
انھیں فن لینڈ کے راستے روسی سرحد عبور کرنے اور زمینی راستے سے سفر کرنے کی دعوت دی گئی۔ فن لینڈ سے ایک ٹرسٹ ایجنٹ فیوڈور ان کے ساتھ روس آیا۔ فیوڈور دراصل ایک روسی انٹیلیجنس ایجنٹ تھا۔
اس نے انھیں ایک دور دراز علاقے میں واقع کیبن تک پہنچایا۔ کچھ ہی دیر بعد کیبن کو روسی فوجیوں نے گھیر لیا۔ انھیں گرفتار کر کے ماسکو کے لوبیانکا جیل لے جایا گیا، جہاں کئی دن تک سخت حراست میں پوچھ گچھ کی گئی۔
انھیں 5 نومبر 1925 کو ماسکو کے قریب ایک جنگل میں گولی مار دی گئی۔
طویل عرصے تک روس یہ دعویٰ کرتا رہا کہ انھیں جیل سے فرار کی کوشش کے دوران گولی ماری گئی لیکن 2002 میں سابق سوویت ایجنٹ بورس گڈز نے رائلی کے سوانح نگار اینڈریو کک کو ایک انٹرویو دیا جس میں بتایا کہ وہ اس ٹیم کے رکن تھے جس نے سڈنی رائلی سے پوچھ گچھ کی اور بعد میں انھیں گولی ماری۔
سڈنی رائلی اور جیمز بانڈBradley Smith/CORBIS/Corbis via Getty Imagesفلیمنگ کو رائلی کی کارناموں کے بارے میں اپنے دوست رابرٹ لاک ہارٹ سے معلومات ملی
خیال کیا جاتا ہے کہ ایان فلیمنگ جاسوس جیمز بانڈ کا کردار تخلیق کرتے وقت سڈنی رائلی کی زندگی سے متاثر ہوئے۔
فلیمنگ کو رائلی کی کارناموں کے بارے میں اپنے دوست رابرٹ لاک ہارٹ سے معلومات ملی جو روس میں رائلی کے ساتھ کام کر چکے تھے اور جنھوں نے مشہور کتاب ’رائلی: ایس آف سپائیز‘ لکھی تھی۔
فلیمنگ نے رائلی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے جیمز بانڈ کا کردار تخلیق کیا، جیسے ان کی خوب صورتی، عمدہ لباس کا شوق، خواتین، گاڑیاں اور شراب کے شوقین، متعدد زبانوں اور ہتھیاروں میں مہارت اور اپنے دشمنوں کے تئیں بے رحم رویہ۔
کراچی سے ڈھاکہ جانے والا طیارہ، برطانوی جاسوس اور خطرناک ہتھیار: جب انڈیا میں آسمان سے اسلحے کی بارش ہوئیرافت الہجان: مصر کے افسانوی جاسوس ’نمبر 313‘ قومی ہیرو تھے یا اسرائیلی ڈبل ایجنٹ؟جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاپشاور سے امریکی جاسوس طیارے کی سوویت یونین تک پرواز جس نے دو دشمن ممالک کو مزید تلخیوں کی طرف دھکیل دیاامریکہ کی پہلی خاتون جاسوس جنھوں نے صدر لنکن کے قتل کے منصوبے کو ناکام بنایا