AFP via Getty Images19 نومبر 1995 کو پاکستانی حکام اسلام آباد میں مصری سفارتخانے میں دھماکے کے بعد جائے وقوعہ کا معائنہ کر رہے ہیں
19 نومبر 1995 کو ویسے تو اتوار تھا مگر پاکستان میں یہ کام کا دن تھا کیوںکہ تب پچھلے کئی سال سے ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہو رہی تھی۔
تب کے ملکی اور غیر ملکی اخبارات سے پتا چلتا ہے کہ تقریباً صبح نو بج کر 30 منٹ پر دو افراد دارالحکومت اسلام آباد کے وسط میں واقع مصری سفارتخانے پہنچے اور گولیوں اور دستی بموں سے باہر موجود محافظوں کو ہلاک کر دیا۔
اس کے بعد 250 پاؤنڈ وزنی بم سے لیس گاڑی تیزی سے احاطے کے اندر داخل ہوئی۔ اس بم کے دھماکے سے دروازے اُڑ گئے۔
تین منٹ بعد ایک جیپ، جس میں دوسرا اور اس سے بھی بڑا بم تھا، بھی پھٹ گئی اور عمارت کا ایک پہلو زمین بوس ہو گیا۔ بم پھٹنے سے ویزا سیکشن کی جگہ ایک دس فٹ گہرا گڑھا بن گیا۔
ہمسایہ جاپان اور انڈونیشیا کے سفارت خانے بھی متاثر ہوئے۔ اسی طرح ایک قریبی بینک کو بھی نقصان پہنچا۔
مصری سفیر اس روز وہاں نہیں تھے اس لیے وہ محفوظ رہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلا خودکش حملہ تھا۔
دونوں خودکش حملہ آور، سفارت خانے کے سیکنڈ سیکریٹری، تین مصری سکیورٹی گارڈز اور دیگر 12 افراد — جن میں پاکستانی سکیورٹی گارڈز، عام شہری اور کم از کم چار دیگر سفارت کار بھی شامل تھے — ہلاک ہوئے۔ جبکہ تقریباً 60 افراد زخمی ہوئے۔ اگلے دن ہسپتال میں ایک 17واں شخص بھی جان سے گیا۔
ایمن الظواہری اور مصری تنظیمیں
ڈگلس جیہل نے نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ یہ ’شدت پسندوں کے مصری حکومت کو تین سال قبل مرتد قرار دینے کے بعد اس کے خلاف ہونے والا سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔‘
اپنی کتاب ’گوانتناموز چائلڈ‘ میں مائیکل شیپرڈ لکھتے ہیں کہ ’تین مختلف مصری اسلامی تنظیموں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ لیکن پاکستان اور مصر دونوں کے حکام کو فوراً شک ہوا کہ اس کے پیچھے ایمن الظواہری کا ہاتھ ہے۔‘
’بعد میں ظواہری کی یادداشتوں میں یہ شبہات درست ثابت ہوئے۔‘
مصری معالجین کے گھرانے میں پرورش پانے والے ظواہری کا پیشہ بھی طب تھا۔ انتہا پسند نظریات سے آشنائی ہوئی، مصری و بین الاقوامی عسکری تنظیموں میں شامل ہوئے اور پھر کئی حملوں اور پُرتشدد کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں اپنے کردار کے باعث پہچانے گئے۔
ایمن الظواہری کی ہلاکت: مصر کا ڈاکٹر مطلوب ترین دہشت گرد کیسے بنا؟’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہ’ہم بچوں سمیت بس کو اڑا دیں گے‘: پشاور سکول بس کی ہائی جیکنگ، جس کا اختتام اسلام آباد میں چھ گولیوں پر ہواایمن الظواہری: امریکی جاسوسوں نے القاعدہ کے سربراہ کو کیسے ڈھونڈ نکالا؟
بالآخر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی قیادت ان کے ہاتھ میں آگئی۔ ایف بی آئی کے انتہائی مطلوب افراد میں سے ایک ظواہری 31 جولائی 2022 کو کابل، افغانستان میں ایک ڈرون میزائل حملے میں ہلاک ہو گئے۔
اخبار ’الشرق الاوسط‘ کی 3 دسمبر 2001 کی اشاعت میں ظواہری نے لکھا کہ ’ہمیں مصری حکومت کی طرف سے ملک سے باہر مصری بنیاد پرستوں کے خلاف اپنی مہم کو وسعت دینے کے ردعمل میں اقدام کرنا پڑا۔‘
’امریکی اور مغربی سفارت خانوں کو نشانہ بنانا ہمارے مقررہ گروہ کی صلاحیت سے باہر تھا۔ اس لیے ہم نے اسلام آباد میں مصری سفارت خانے کو نشانہ بنانے پر اتفاق کیا جو پاکستان میں عربوں کا پیچھا بلکہ عرب مجاہدین کی جاسوسی بھی کر رہا تھا۔‘
شیپرڈ کے مطابق 1980 کی دہائی کے اوائل میں قاہرہ میں قید اور انتقام لینے کے عہد کے بعد یہ ظواہری کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔ ’لیکن یہ مصری حکومت پر ان کا پہلا حملہ نہیں تھا۔ اس سے کچھ ماہ پہلے ظواہری نے سوڈان کے دارالحکومت خرطوممیں مصری جہادی گروہ کے ارکان کے ساتھ ملاقات کی تھی جو ظواہری کے اپنے گروہ الجہاد کا حریف تھا۔‘
’اس ملاقات کا اختتام اس معاہدے پر ہوا تھا کہ وہ اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر صدر حسنی مبارک کے قتل کی منصوبہ بندی کریں گے۔‘
’26 جون کو جب مبارک ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا گئے تو یہ منصوبہ عمل میں لایا گیا۔ جیسے ہی مبارک کا قافلہ ایئرپورٹ سے شہر کی طرف بڑھا، دو کاروں میں سوار حملہ آوروں نے اس پر گولی چلائی۔ دو ایتھوپیائی پولیس اہلکار مارے گئے مگر پانچ حملہ آور بھی ہلاک ہوئے اور تین گرفتار۔ مبارک محفوظ رہے۔‘
’قاہرہ واپسی پر مبارک نے عہد کیا کہ وہ ملک سے تمام انتہا پسندوں کا صفایا کر دیں گے۔‘
Reutersایمن الظواہری اور اسامہ بن لادنٹرک کے انجن نمبر سے سراغ ملا
لوئی ڈی کروز نے اپنی کتاب ’ان مٹیگیٹڈ ڈزاسٹر‘ میں لکھا ہے کہ مصری حکومت نے انسدادِ دہشت گردیکے ایک نئے قانون کے تحت دہشت گرد تحریکوں سے ہمدردی ظاہر کرنا بھی جرم بنا دیا۔ سیاسی قیدیوں کے لیے پانچ نئی جیلیں تعمیر کی گئیں۔
شیپرڈ کے مطابق ’مصری پولیس نے اندھا دھند کارروائیاں کیں، گھروں کو جلایا اور مشتبہ افراد کو پکڑا جو پھر کبھی نظر نہ آئے۔ جلد ہی ظواہری کے ساتھیوں نے اسلام آباد میں مصری سفارتخانے پر بم دھماکہ کر دیا۔‘
ڈینس اے پلوخنسکی نے اپنی کتاب ’اینٹی امیریکن ٹیررزم‘ میں لکھا ہے کہ بتایا جاتا ہے کہ بن لادن نے اسلام آباد آپریشن کی منظوری نہیں دی تھی اور وہ اس حملے سے ناخوش تھے۔
پلوخنسکی نے القاعدہ کے آپریشنل کمانڈر ابو حفس المصری کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حملہ مصری سفارت خانے میں مصری خفیہ ایجنٹس کے ہاتھوں ’بھائیوں‘ پر تشدد اور جنسی حملوں کا انتقام لینے کے لیے کیا گیا۔
اخبارات کے مطابق بم دھماکے میں استعمال ہونے والے ٹرک کا انجن بلاک برآمد ہوا، جس پر اس کا نمبر صحیح حالت میں موجود تھا۔ اس کی بنیاد پر تحقیقات کرنے والوں نے گاڑی کے آخری رجسٹرڈ مالک سے رابطہ کیا جس نے انھیں بتایا کہ اس نے ٹرک دو افراد کو فروخت کیا تھا۔
نیویارک ٹائمز نے ایک خبر میں لکھا کہ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ دھماکے کے وقت سفارت خانے میں کام کرنے والے پانچ افغان افراد میں سے صرف ایک موجود تھا، اور حکام باقی چار کو ’تلاش‘ کر رہے تھے۔
’دھماکے کے چند دن بعد، پاکستان نے چھ مصری، دو افغان اور دو اردنی شہریوں کی گرفتاری کا اعلان کیا۔‘
شکاگو ٹربیون کے مطابق ایک کینیڈین شخص احمد خضر کو جنوری میں گرفتار کیا گیا۔ خالد عبد اللہ، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انھوں نے بم دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑیوں میں سے ایک خریدی تھی، خضر کے گھر میں مقیم تھے اور ان کی بڑی بیٹی زینب کے منگیتر تھے۔
خضر کو مارچ 1996 میں رہا کر دیا گیا کیونکہ کوئی ثبوت نہیں ملا کہ وہ دھماکے میں ملوث تھے۔
دسمبر تک بم دھماکے سے متعلق 16 افراد کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔
’رمزی یوسف کی حوالگی کا بدلہ‘
امریکی اخبار ’واشنگٹن رپورٹ‘ کے مطابق جنوری 1996 میں پاکستان نے اعلان کیا کہ حملوں کے سلسلے میں فیصل آبادسے دو سوڈانی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اکتوبر 1998 میں، تین افراد کو جنوبی افریقہ اور مئی 1999 میں ایکشخص کو کویت میں گرفتار کیا گیا اور مصر کےحوالے کیا گیا، جہاں ان پر سفارت خانے کے دھماکے میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلایا گیا۔ جولائی 1999 میں 71 مشتبہ عسکریت پسندوں کے مقدمات مصری فوجی عدالت میں منتقل کر دیے گئے۔
سی آئی اے کے سابق اہلکار رابرٹ بیر نے اپنی کتاب ’سی نو ایول‘ میں لکھا ہے کہ عِماد مغنیہ نے اس حملےمیں ملوث ایک شخص کے ’سفر میں سہولت فراہم کی‘، اور یہ کہ ان کے ایک نائب نے ’حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں سے ایک کو چوری شدہ لبنانی پاسپورٹ مہیا کیا تھا۔‘
سٹیورٹ بیل نے نیشنل پوسٹ میں ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھا کہ سنہ 2002میں ابو الدہب نے مصری تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف کیا کہ انھوں نے ایک کیلیفورنیا بینک اکاؤنٹ سے پیسے منتقل کیے تاکہ حملے کی مالی معاونت کی جا سکے۔
’دی نیو جیکال‘ نامی کتاب میں سائمن ریو نے پاکستان کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے حوالے سے لکھا کہ یہ حملہ ان کے ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ ’رمزی یوسف کی حوالگی کے بدلے ایک واضح پیغام تھا۔‘
ایان سٹیورٹ کی سیئٹل ٹائمز کے لیے رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے بتایا کہ حملہ اس لیے ہوا کیونکہ مصر نے 10 مشتبہ دہشت گردوں کو حوالے کیا تھا۔
عمر ناصری کے قلمی نام سے لکھنے والے ایک مراکشی لکھاری اور یورپی کاؤنٹرٹیررزم ایجنسیز کے مخبر نے اپنی کتاب ’انسائڈ دی جہاد‘ میں لکھا ہے کہ جب افغان تربیتی کیمپوں میں دھماکے کی خبر پہنچی تو افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں جلال آباد کے قریب واقع درونتہ میں جشن مناتے ہوئے شدید ہوائی فائرنگ کی گئی تھی۔
ایمن الظواہری: امریکی جاسوسوں نے القاعدہ کے سربراہ کو کیسے ڈھونڈ نکالا؟دو مئی کی کہانی، اسامہ بن لادن کے پڑوسی کی زبانی’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہ’ہم بچوں سمیت بس کو اڑا دیں گے‘: پشاور سکول بس کی ہائی جیکنگ، جس کا اختتام اسلام آباد میں چھ گولیوں پر ہوا24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت اور ’آپریشن موغادیشو‘: وہ کارروائی جس کے بعد امریکی فوج کو صومالیہ سے نکلنا پڑاتہران میں یرغمال امریکیوں کی بازیابی کا امریکی مشن کیسے ناکام ہوا