27ویں آئینی ترمیم: ’طاقت کا پلڑا ایک بار پھر فوج کے حق میں‘ اور اس کے سربراہ تاحیات فیلڈ مارشل

بی بی سی اردو  |  Nov 15, 2025

EPAترمیم کے بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر، جو نومبر 2022 سے آرمی چیف ہیں، اب بحریہ اور فضائیہ کی کمان کے بھی نگران ہوں گے۔

پاکستان کی پارلیمان نے فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو نئے اختیارات اور عمر بھر کے لیے گرفتاری اور مقدمات سے استثنیٰ دینے کی منظوری دے دی ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ قدم خود اختیاریت یا شخصی حکومت کی جانب پیش رفت ہے۔

جمعرات کو قانون بننے والی 27ویں آئینی ترمیم سے ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے طریقہ کار میں بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

ترمیم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے مسلح افواج کے انتظامی ڈھانچے میں شفافیت اور وضاحت پیدا ہوتی ہے اور عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔

ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک پاکستان کی سیاست میں فوج کا کردار طویل عرصے سے نمایاں رہا ہے، کبھی براہِ راست اقتدار پر قبضے کی صورت میں تو کبھی پس پردہ اثر و رسوخ کے ذریعے۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان میں کبھی سویلین خود مختاری بڑھی تو کبھی جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیا الحق جیسے فوجی حکمرانوں کے دور میں عسکری غلبہ نظر آیا۔ تجزیہ کار اس سویلین عسکری توازن کو ’ہائبرڈ نظام‘ کہتے ہیں۔

بعض افراد اس ترمیم کو اس بات کی علامت سمجھتے ہیں کہ صورتحال فوج کے حق میں جا رہی ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں قائم ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ مائیکل کوگل مین کہتے ہیں: ’میرے نزدیک یہ ترمیم اس بات کا تازہ ترین، بلکہ شاید سب سے مضبوط اشارہ ہے کہ پاکستان اب ہائبرڈ نظام نہیں بلکہ مابعد ہائبرڈ نظام کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں:’ہم ایک ایسی صورتحال دیکھ رہے ہیں جہاں سول اور فوج کے درمیان طاقت کا فرق اپنی حد سے بڑھ چکا ہے۔‘

Getty Imagesپاکستانی فوج نے ملک کی سیاست میں کئی مواقع پر اہم کردار ادا کیا ہے

ترمیم کے بعد عاصم منیر، جو نومبر 2022 سے آرمی چیف ہیں، اب بحریہ اور فضائیہ کی کمان کے بھی نگران ہوں گے۔

ان کا فیلڈ مارشل کا عہدہ اور وردی تاحیات رہیں گی اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انھیں ذمہ داریاں سونپی جائیں گی جو صدر وزیراعظم کے مشورے سے طے کریں گے۔

یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس سے انھیں زندگی بھر عوامی امور میں نمایاں کردار حاصل رہے گا۔

بل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان کی عسکری کمان کے ڈھانچے میں وضاحت آئی ہے۔

سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں کے استعفوں کے بعد عدلیہ کی آزادی پر بحث: 27 ویں آئینی ترمیم اور وفاقی آئینی عدالت کا قیام اعلیٰ عدلیہ کو کیسے متاثر کرے گا؟ 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان کے عدالتی نظام میں کیا تبدیلیاں آئیں گی؟’ہنسیں، مسکرائیں یا روئیں‘: 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور: ’ڈوگر صاحب، جو کھڑے ہوں گے وہ گن لیے جائیں گے‘ کے بعد پی ٹی آئی ممبر کا تنہا احتجاج

سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تبدیلیاں دفاع کے شعبے کو جدید جنگی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اصلاحاتی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

مگر دیگر ناقدین کے نزدیک یہ فوج کو مزید اختیارات دینے کے مترادف ہیں۔

پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کی شریک چیئرپرسن اور صحافی منیزے جہانگیر کہتی ہیں: ’فوج اور سویلین کے درمیان کوئی توازن نہیں رہا۔ ایک ایسے وقت میں جب فوج کو محدود کرنے کی ضرورت تھی انھوں نے طاقت کا پلڑا ایک بار پھر فوج کے حق میں جھکا دیا ہے۔‘

Getty Imagesجمعرات کو قانون بننے والی 27ویں آئینی ترمیم سے ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے طریقہ کار میں بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔آزادانہ فیصلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی

متنازعہ تبدیلی کا دوسرا پہلو عدالتوں اور عدلیہ سے متعلق ہے۔

ترمیم کے تحت ایک نئی وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی جو آئینی سوالات کا فیصلہ کرے گی۔ اس عدالت کے پہلے چیف جسٹس اور دیگر جج صدر نامزد کریں گے۔

منیزے جہانگیر کہتی ہیں: ’یہ منصفانہ ٹرائل کے حق کی نوعیت اور شکل ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دے گا۔‘

ان کے مطابق، ’ججوں اور آئینی بنچوں کی تقرری میں انتظامیہ کا اثر بڑھ گیا ہے۔ جب ریاست یہ طے کرے کہ کس بنچ میں کون بیٹھے گا تو بطور ایک سائل مجھے منصفانہ ٹرائل کی کیا کوئی امید رہے گی؟‘

صحافی اور مبصر عارفہ نور کہتی ہیں: ’عدلیہ اس وقت واضح طور پر انتظامیہ کے تابع ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ عدلیہ کو اب آزادانہ طور پر کام کرنے کی کوئی حقیقی گنجائش نہیں ملے گی۔'

اس ترمیم سے پہلے آئینی مقدمات کا فیصلہ سپریم کورٹ کرتی تھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے فوجداری اور دیوانی مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے۔ ان کے مطابق دونوں معاملات کو الگ الگ کرنے سے عدالتی عمل میں بہتری آئے گی۔

کچھ وکلا اس مؤقف کو مانتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ کے وکیل صلاح الدین احمد اسے غیر سنجیدہ دلیل قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں زیر التوا مقدمات کی اکثریت سپریم کورٹ میں نہیں ہے۔

’اگر واقعی مقدمات جلد نمٹانے کی فکر ہوتی تو توجہ ان عدالتوں کی اصلاح پر ہوتی جہاں اصل بوجھ ہے۔‘

ترمیم کے قانون بننے کے چند گھنٹوں کے اندر سپریم کورٹ کے دو ججوں نے استعفی دے دیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے میں لکھا: ’جس آئین کا دفاع کرنے کی میں نے قسم کھائی تھی، وہ اب باقی نہیں رہا۔‘

جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ کو حکومت کے زیرِ اثر کر دیا گیا ہے اور 27ویں ترمیم نے ’سپریم کورٹ کو چکنا چور کر دیا ہے۔‘

ان استعفوں پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا: ’ان کا ضمیر اس لیے جاگ اٹھا ہے کہ سپریم کورٹ پر ان کی اجارہ داری کم ہوئی اور پارلیمنٹ نے آئین کی بالادستی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔‘

ججوں کو اب ان کی مرضی کے بغیر دوسری عدالتوں میں منتقل بھی کیا جا سکے گا۔ اگر وہ اس پر رضامند نہ ہوں تو عدالتی کمیشن سے رجوع کر سکتے ہیں، اور اگر ان کے دلائل کو درست نہ پایا گیا تو انھیں ریٹائر ہونا پڑے گا۔

حامیوں کے مطابق اس سے ملک کے ہر حصے کی عدالتوں میں ججوں کی فراہمی ممکن ہو گی، مگر بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ اسے دباؤ کے حربے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

صلاح الدین احمد کہتے ہیں: ’کسی جج کو اس کے صوبے سے اٹھا کر دوسری ہائی کورٹ میں بھیج دینا اسے مزید حکومتی لائن پر چلنے کے دباؤ میں لائے گا۔‘

انھیں خدشہ ہے کہ اس سے ملک میں توازن بگڑے گا۔

انھوں نے مزید کہا: ’ہماری عدلیہ نے ماضی میں آمروں کے ساتھ تعاون بھی کیا اور بعض اوقات انتظامیہ کو متنبہ بھی کیا۔ اگر آپ لوگوں سے یہ امید بھی چھین لیں تو وہ زیادہ خطرناک راستوں کی طرف جا سکتے ہیں۔‘

کوگل مین بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دبی ہوئی شکایات معاشرتی استحکام کے لیے اچھا شگون نہیں ہوتیں۔‘

عارفہ نور کہتی ہیں: ’یہ صورتحال آمریت کی طرف سرکنے کا اشارہ دیتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ ترمیم پچھلے سال کی 26ویں ترمیم پر استوار ہے جس کے ذریعے قانون سازوں کو پاکستان کے اعلیٰ ترین جج کے انتخاب کا اختیار دیا گیا تھا۔ اب 28ویں ترمیم کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں۔

’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت کا توازن بری طرح سے اسٹیبلشمنٹ کے حق میں جھک چکا ہے۔‘

27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور: ’ڈوگر صاحب، جو کھڑے ہوں گے وہ گن لیے جائیں گے‘ کے بعد پی ٹی آئی ممبر کا تنہا احتجاجسپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں کے استعفوں کے بعد عدلیہ کی آزادی پر بحث: 27 ویں آئینی ترمیم اور وفاقی آئینی عدالت کا قیام اعلیٰ عدلیہ کو کیسے متاثر کرے گا؟ وزیراعظم شہباز شریف کا آئینی استثنیٰ لینے سے انکار: ’تاحیات استثنیٰ صرف بادشاہوں کو حاصل ہوتا ہے‘چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ، آئینی عدالت اور ججز کے تبادلے: سینیٹ کے بعد 27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے بھی منظورچیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ کیوں تخلیق کیا گیا اور برّی فوج کے سربراہ کو ہی یہ اضافی عہدہ دینے کی تجویز کیوں ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More