پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ٹی ٹی پی کے خلاف فتوے پر تنازع: ’فتویٰ رہنما نہیں، دارالافتا جاری کرتا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Nov 13, 2025

Getty Imagesپاکستانی وزیر نے دعویٰ کیا ہے کہ 'ٹی ٹی پی نے طالبان کے رہبرِ اعلیٰ ہیبت اللہ کے ہاتھوں بیعت کی ہوئی ہے'

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ افغانستان کے عبوری حکمران کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو استعمال کرتے ہیں۔

منگل کو افغانستان کے نائب وزیرِ داخلہ رحمت اللہ نجیب کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مذاکرات کے دوران پاکستانی وفد نے طالبان قیادت سے پاکستان پر حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم رحمت اللہ نجیب کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پاکستانی وفد کو بتایا کہ فتویٰ رہنما نہیں بلکہ دارالافتا جاری کرتا ہے۔‘

’پاکستانی حکومت کو (رسمی طور پر) طالبان حکومت کے دارالافتا سے باضابطہ درخواست کرنی چاہیے۔‘

پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے طالبان کے نائب وزیرِ داخلہ کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ’افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف صرف اس لیے فتویٰ دینے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ وہ انھیں استعمال کرتے ہیں۔‘

پاکستانی نیوز چینل جیو نیوز کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ’نظریاتی اور آپریشنل معاملات میں ٹی ٹی پی اور افغان حکومت، افغان طالبان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ٹی ٹی پی نے طالبان کے رہبرِ اعلیٰ ہیبت اللہ کے ہاتھوں بیعت کی ہوئی ہے۔‘

اس سوال پر کہ آیا پاکستان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے ثبوت ہیں کہ شدت پسند افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جب 23-2022 میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہوئے تھے، تب بھی عبوری افغان حکومت نے اس میں سہولت کار تھی۔

وزیرِ مملکت کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ لوگ آپ کے پاس موجود نہیں، اگر انھوں نے آپ پر بیعت نہیں کی اور اگر وہ آپ کا حصہ نہیں تو پھر آپ ان کے خلاف فتویٰ دینے سے کیوں کترا رہے ہیں؟‘

’جب طالبان دولتِ اسلامیہ اور شمالی اتحاد کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے تو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں؟‘

ایک سوال کے جواب میں طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی افغان طالبان اس نوعیت کے فتویٰ جاری کر چکے ہیں۔

انھوں نے الزم لگایا کہ ’طالبان کبھی ٹی ٹی پی کے خلاف فتویٰ دے دیتے ہیں اور کبھی اس لیے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ وہ پالیسی کے مطابق انھیں استعمال کر رہے ہیں۔‘

استنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟طالبان کا پاکستان پر تجارتی انحصار کم کرنے کا اعلان: ’تعلقات خرابی کی اس نہج تک پہنچ گئے جہاں مفاہمت مشکل ہے‘افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟سرحدی کشیدگی کے بعد کریک ڈاؤن اور تجارتی بندش جیسے اقدامات کیا افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر سکتے ہیں؟

تاہم افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے نائب وزیرِ داخلہ رحمت اللہ نجیب یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستانی حکومت اپنی مرضیکے مطابق فتویٰ لینے کی توقع نہ رکھے۔

’فتویٰ آپ کی مرضی کے مطابق آنے کی توقع نہ رکھیں‘

رحمت اللہ نجیب کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پاکستانی وفد کو بتایا ہے کہ فتویٰ رہنما نہیں بلکہ دارالافتا جاری کرتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی حکومت کو (رسمی طور پر) طالبان حکومت کے دارالافتا سے باضابطہ درخواست کرنی چاہیے۔‘

تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فتویٰ آپ کی مرضی کے مطابق آنے کی توقع نہ رکھیں، کیونکہ فتوے شرعی حکم کے مطابق جاری ہوتے ہیں اور ہم دارالافتا کو اس بارے میں حکم جاری نہیں کرسکتے۔‘

رحمت اللہ نجیب نے کہا تھا کہ ’ہم (پاکستان) میں جنگ کی منظوری دینے کا حق نہیں دیتے اور ساتھ ساتھ ہمارے پاس اسے غیرقانونی قرار دینے کا بھی حق نہیں ہے، ہمارا اس سے کوئی لینا دینا ہیں ہے۔‘

Getty Imagesطالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے استنبول مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایافتوے کی اہمیت کیا ہے؟

پاکستانی جانب سے تاحال سرکاری طور پر استنبول مذاکرات میں فتوے کا مطالبہ کرنے کی تصدیق نہیں کی گئی ہے، تاہم پاکستانی میڈیا کے حلقوں میں ہمیشہ یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان قیادت پاکستان میں شدت پسندوں کے حملوں کے خلاف فتویٰ کیوں جاری نہیں کرتی۔

بی بی سی دری سروس پر شائع ہونے والے فرہاد محمدی کے ایک تجزیے کے مطابق فتوٰی حاصل کرنے کا مقصد پاکستان کے اندر حملوں کو مذہبی اور نظریاتی بنیاد پر چیلنج کرنا ہو سکتا ہے۔

فرہاد سمجھتے ہیں کہ چونکہ پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کے ارکان افغان طالبان کے رہنما مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کی بات سنتے ہیں اور ان کی بیعت کر چکے ہیں، اس لیے وہ فتویٰ جاری کروا کے ان پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تجزیہ کار کے مطابق پاکستانی حکومت کو امید ہے کہ اس طرح کا فتویٰ نہ صرف ٹی ٹی پی کے نظریاتی بنیاد کو منظور کرے گا بلکہ ان کی لڑائی کو مجرمانہ شورش کا درجہ دے دے گا۔

اس سے قبل فریقین نے ایک دوسرے پر دوحہ اور استنبول میں مذاکرات کے تین ادوار کی ناکامی کا الزام لگایا تھا۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے استنبول مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا اور کہا کہ استنبول مذاکرات میں پاکستانی وفد نے پاکستان کی سلامتی کی ذمہ داری افغانستان پر منتقل کرنے کی کوشش کی تھی۔

جبکہ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ افغان فریق تحریری معاہدے پر دستخط نہیں کرنا چاہتے، جس کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے۔ ان کے مطابق افغان طالبان چاہتے ہیں کہ ’پاکستان زبانی ضمانتیں قبول کرنے کے لیے تیار ہو، لیکن بین الاقوامی مذاکرات میں ایسا ممکن نہیں ہے۔‘

Getty Imagesافغانستان کی جانب سے وانا اور اسلام آباد میں ہونے والے حملوں کی مذمت پر ردِ عمل میں خواجہ آصف نے کہا کہ ’مذمت یا اظہار افسوس سے اخلاص ثابت نہیں ہوسکتا۔‘ ’مذمت یا اظہار افسوس سے اخلاص ثابت نہیں ہوسکتا‘

پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ وانا کیڈٹ کالج اور اسلام آباد کی عدالت کے قریب ہونے والے حملوں میں افغان باشندے ملوث تھے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے وانا کیڈٹ کالج پر حملے کرنے والوں کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ ’دہشت گردوں کی شناخت ہوگئی ہے اور وہ رات بھر افغانستان میں اپنے ساتھیوں سے رابطے میں رہے۔‘

دریں اثناء، پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی منگل کو کہا تھا کہ اسلام آباد اور وانا ملٹری کالج کے واقعات کے بعد افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حالیہ حملوں کے تناظر میں پاکستان افغانستان میں فوجی آپریشن کر سکتا ہے تو انھوں نے جواب دیا ’ہاں بالکل کر سکتا ہے، اس امکان کو رد نہیں کیا جانا چاہیے۔‘

افغان طالبان کی جانب سے وانا اور اسلام آباد میں ہونے والے حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا تھا کہ: ’مذمت یا اظہار افسوس سے اخلاص ثابت نہیں ہوسکتا۔‘

خیال رہے پاکستان نے گذشتہ چند سالوں میں بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ عسکریت پسند ملک پر حملے کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں، اس دعوے کی طالبان حکومت مسلسل تردید کرتی رہی ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ طالبان حکومت کسی کو افغان سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

سوشل میڈیا پر بحث

افغان صارفین کے نظر میں پاکستان کی جانب سے فتوے کا مطالبہ ٹھیک نہیں ہے۔

امر اللہ نامی ایک صارف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’پاکستانی حکومت افغان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ ایسے مطالبات قبول کرے جن کا امارت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امارت اسلامیہ کے رہنما کو افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے ارکان کو واپس لانا چاہیے اور پاکستان میں جنگ کو حرام قرار دینا چاہیے۔‘

ایک اور صارف سنگر پیکار نے لکھا ’پاکستانی حکومت نے افغانستان سے پاکستان میں عسکریت پسندی کے خلاف مذہبی فرمان جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھیں اپنے مذہبی معاملات چلانے کے لیے افغانوں کی ضرورت ہے۔‘

تاہم پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی افغان طالبان کے لیے ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ایک پاکستانی صارف نے لکھا کہ ’طالبان پاکستان اور افغانستان کی بین الاقوامی سرحد کا احترام نہیں کرتے، انھوں نےفتویٰ جاری کرنے سے انکار کر دیا، ان کے مطابق یہ حلال ہے کیونکہ وہ ہمیں غیر اسلامی ریاست سمجھتے ہیں۔‘

ایک اور پاکستانی صارف کہتے ہیں کہ ’ہیبت اللہ سے فتویٰ مانگنے کی وجہ افغان عسکریت پسندوں کو پاکستان کے اندر لڑنے سے روکنا ہے کیونکہ پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے سینکڑوں افغان عسکریت پسند مارے گئے تھے۔‘

سرحدی کشیدگی کے بعد کریک ڈاؤن اور تجارتی بندش جیسے اقدامات کیا افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر سکتے ہیں؟ استنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟طالبان کا پاکستان پر تجارتی انحصار کم کرنے کا اعلان: ’تعلقات خرابی کی اس نہج تک پہنچ گئے جہاں مفاہمت مشکل ہے‘افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟قاری امجد: کشمیری گروہوں سے عسکریت پسندی کا آغاز کرنے والے ٹی ٹی پی کمانڈر کون تھے؟پاکستان میں شدت پسندوں کے حالیہ حملوں سے ٹی ٹی پی نے لاتعلقی کیوں ظاہر کی؟پاکستانی طالبان کی نمائندگی کرنے والا ’عمر میڈیا‘ کیسے کام کرتا ہے اور اسے کون چلاتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More