پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف، حالیہ وزیراعظم شہباز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے قومی اسمبلی میں داخل ہونے سے پہلے تک ایوان میں مقابلہ محض تقاریر میں چل رہا تھا۔
ان کے داخل ہوتے ہی ماحول یکسر بدل گیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی تصاویر باہر نکل آئیں۔ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ممبران نے وہ تصاویر نکال کر اپنے سامنے ڈیسک پر سجا دیں اور وہ خود سپیکر کے ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے۔
پھر نعرے بازی شروع ہوئی۔۔۔ ’عمران خان کو رہا کرو‘ کا نعرہ سب سے نمایاں تھا۔ پی ٹی آئی کے ایک ممبر اپنے ساتھ ایک پوسٹر بھی لائے تھے۔ اس پر عمران خان کی تصاویر کے ساتھ ساتھ عمران خان کی رہائی کے مطالبے کے علاوہ ستائیسویں ترمیم کو مسترد کرنے جیسے نعرے درج تھے۔
اس نعرے بازی میں شدت اس وقت آئی جب سپیکر ایاز صادق نے پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بولنے کا موقع دیا۔ بلاول کو اس شور کی آواز کو دبانے کے لیے ہیڈ فونز یا ساؤنڈ مفلرز کا استعمال کرنا پڑا۔
اس دوران پی ٹی آئی کے ممبران نے ترمیم کے مسودے کی کاپیوں کو پھاڑ کر ہوا میں اڑانا شروع کر دیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے چند ممبران ڈھال بنا کر وزیراعظم شہباز شریف اور نواز شریف کے سامنے کھٹرے ہو گئے۔
شہباز شریف نے بھی ساؤنڈ مفلرز لگا لیے لیکن نواز شریف ان کے بغیر ہی بیٹھے سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہے۔ بلاول نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ وہ بتا رہے تھے ان کی جماعت نے کیسے اور کیوں ان ترامیم پر حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
’آج ہم چارٹر آف ڈیموکریسی کی وہ شق پوری کرنے جا رہے ہیں جس میں ایک الگ آئینی عدالت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔۔۔ اب کوئی جج سوو موٹو شوٹو نہیں لے سکے گا۔۔۔ اس ترمیم نے حکومتوں پر لٹکتی عدالتی تلوار ختم کر دی۔‘
ویل چیئر سے ووٹنگ
پی ٹی آئی کے ممبران اس دوران اپنی آواز کو مزید اونچا کرنے کے مختلف طریقے تلاش کر رہے تھے۔ ایک موقع پر انھوں نے تالیاں بجا کر بلاول کی تقریر میں مزید خلل ڈالنے کی کوشش کی اور دوسرے موقع پر ان کے ممبر لطیف کھوسہ نے انھیں ڈیسک بجا کر شور مچانے کا مشورہ دیا۔
حزب اختلاف کی جماعت پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی بھی ان کے ساتھ اس احتجاج میں شامل رہے۔
بلاول بھٹو اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد جب اپنی نشست پر بیٹھ گئے تو بھی حزب اختلاف کی جانب سے شور مچانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی شور شرابے کے دوران اسمبلی کے ہال میں ایک ویل چیئر داخل ہوئی۔
27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان کے عدالتی نظام میں کیا تبدیلیاں آئیں گی؟چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ کیوں تخلیق کیا گیا اور برّی فوج کے سربراہ کو ہی یہ اضافی عہدہ دینے کی تجویز کیوں ہے؟وزیراعظم شہباز شریف کا آئینی استثنیٰ لینے سے انکار: ’تاحیات استثنیٰ صرف بادشاہوں کو حاصل ہوتا ہے‘’ہنسیں، مسکرائیں یا روئیں‘: 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے
اس پر پی پی پی کے ممبر خورشید شاہ کو اسمبلی لایا گیا اور ان کی ویل چیئر کو بلاول بھٹو زرداری کی نشست کے برابر لا کر کھڑا کیا گیا۔ خورشید شاہ گذشتہ کچھ عرصے سے شدید علیل ہیں۔ وہ ترامیمی بل پر ووٹنگ میں حصہ لینے کے لیے قومی اسمبلی آئے۔
نواز شریف اور شہباز شریف ان کا حال پوچھنے اپنی نشست سے اٹھ کر ان کے پاس آئے۔ اسمبلی میں موجود باقی ممبران بھی باری باری ان کی طرف آتے رہے۔
اس دوران پی ٹی آئی نے اپنا احتجاج جاری رکھا اور نعرے بازی کرتے رہے۔ ایک موقع پر قومی اسمبلی کی سیکورٹی کے اہلکاروٍں کو اندر آ کر حزب اختلاف اور حکومتی بینچوں کے درمیان دیوار بنا کر کھڑا ہونا پڑا۔
Getty Imagesوزیر قانون کو بولنے سے روکنے کے لیے رکن نے اذان دینا شروع کر دی
پی پی پی کے چیئرمین کی تقریر کے فوری بعد سپیکر نے وفاقی وزیر قانون کو بل کی ترامیمی شقوں کو متعارف کروانے کا کہا۔ جب وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بولنا شروع کیا تو پی ٹی آئی ممبران کے شور میں مزید اضافہ ہو گیا۔
ان میں سے ایک ممبر نے وزیر قانون کو بولنے سے روکنے کی کوشش میں اذان دینا بھی شروع کر دی۔ اس وقت کسی بھی نماز کا وقت نہیں تھا۔
تاہم ان کے احتجاج کا زور اس وقت ٹوٹا جب سپیکر ایاز صادق نے پہلی مرتبہ انھیں مخاطب کیا۔ اس سے چند لمحے پہلے سپیکر نے وزیر قانون کی طرف سے ایک نئی ترمیم پیش کیے جانے پر ممبران کو اس پر ووٹ دینے کا کہا۔
انھوں نے کہا ’جو اس شق کے حق میں ووٹ دینا چاہتے ہیں وہ اپنی نشست پر کھڑے ہو جائیں۔‘
اس پر حکومتی اتحاد کے تمام اراکین کھڑے ہو گئے۔ لیکن ساتھ ہی پی ٹی آئی کے احتجاجی ممبران بھی کھڑے ہو کر نعرے لگا رہے تھے۔
سپیکر نے کچھ لمحے انتظار کیا۔ پھر انھوں نے پی ٹی آئی کے ممبر عامر ڈوگر کو مخاطب کیا: ’ڈوگر صاحب، جو کھڑے ہوں گے، وہ گن لیے جائیں گے۔‘
اس پر حکومتی بینچوں سے ہلکا سا قہقہ آیا۔ پی ٹی آئی کے احتجاجی ممبران جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے۔ کچھ لوگ وہاں بیٹھ کر بھی نعرے بازی کرتے رہے۔ پی ٹی آئی کے ممبر قومی اسمبلی اقبال آفریدی بینر اٹھا کر کھڑے رہے۔
نہ حمایت، نہ مخالفت
اس کے کچھ ہی دیر بعد پی ٹی آئی ممبران نے ایوان سے واک آوٹ کیا اور گیلری میں جانا شروع کر دیا۔ ان کے تمام ممبران کے چلے جانے کے بعد صرف شیر افضل مروت اپنی نشست پر بیٹھے رہے۔ گیلری کی طرف سے بیرسٹر گوہر انھیں اٹھ کر گیلری کی طرف آنے کے اشارے کرتے نظر آئے۔
ان کے کہنے پر وہ اٹھ کر چلے گئے۔ اس دوران ترمیمی بل کی شقوں پر ووٹنگ چل رہی تھی۔ جزب اختلاف کے بینچوں پر تین خواتین سمیت صرف چار ممبران بیٹھے تھے۔ ان کا تعلق جمیعت علمائے اسلام سے تھا۔ وہ ترمیم کے خلاف ووٹ دے رہے تھے۔
اس لیے ہر شق پر منظوری کی ووٹنگ کے لیے انھیں ’نہیں‘ میں ووٹ دینے کے لیے اٹھنا پڑتا تھا۔ یہ اچھی خاصی مشق تھی۔ شقیں ساٹھ سے زیادہ تھیں اور ہر چند سیکنڈ بعد انھیں اٹھنا اور بیٹھنا پڑتا تھا۔ ایک موقع پر ان کی ایک خاتون ممبر بیٹھی رہ گئیں تو سپیکر کو یاد کروانا پڑا کہ ’نہیں میں تین ووٹ آئے ہیں، چار نہیں ہیں‘ تو خاتون ممبر کو کھڑا ہونا پڑا۔
کچھ منٹوں تک یہ مشق جاری رہی تو سپیکر نے حزب اختلاف کے ممبران کو چھوٹ دے دی کہ وہ ہاتھ بلند کر کے اپنا ووٹ درج کروا سکتے ہیں۔ یہی چھوٹ بزرگ اور علیل ممبران کو بھی دی گئی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف لگ بھگ تمام شقوں کے حق میں ووٹ دینے کے لیے کھڑے ہوتے رہے۔ ووٹنگ کے تمام تر عمل کے دوران پی ٹی آئی کے تمام ممبران ایوان میں موجود نہیں تھے۔
یوں تکنیکی طور پر انھوں نے ترمیم کے حق میں تو ووٹ نہیں دیا لیکن انھوں نے ترمیم کے خلاف بھی ووٹ نہیں دیا۔
تنہا احتجاج
جب شق وار ترامیم منظور ہو گئیں تو بل پر ووٹنگ ہوئی اور سپیکر نے اعلان کیا کہ دو تہائی اکثریت سے 27ویں آئینی ترمیم کو منظور کر لیا گیا ہے، اس کے بعد قائد ایوان یعنی وزیراعظم شہباز شریف نے تقریر شروع کی۔
ان کی آواز سننے پر حزب اختلاف والی جانب گیلری کا دروازہ کھلا اور پی ٹی آئی کے ایک ممبر اقبال آفریدی باہر آئے۔ انھوں نے وہیں کھڑے ہو کر فضا میں دونوں ہاتھ بلند کیے اور نعرہ لگایا ’عمران خان زندہ باد۔‘
اس پر حکومتی اتحاد کے بینچوں سے قہقہہ بلند ہوا۔ اقبال آفریدی نے پیچھے مڑ کر اپنے دیگر ساتھیوں سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ کوئی نہیں آیا۔ وہ غالباً دوسروں کو باہر آ کر شہباز شریف کی تقریر کے دوران احتجاج کرنے کا کہہ رہے تھے۔
جب کوئی نہیں آیا تو وہ خود بھی اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر باہر آئے۔ اس مرتبہ بھی ان کے ساتھ کوئی نہیں آیا۔ تھوڑی دیر بعد تیسریوہ باہر آئے تو ان کے ہاتھ میں وہی بینر تھا جس پر دیگر نعروں کے ساتھ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ بھی درج تھا۔
ساتھ ہی ان کے پاس عمران خان کی تصویر بھی تھی۔ وہ بینر اور تصویر اٹھا کر سپیکر کے ڈائس کے عین نیچے وزیراعظم شہباز شریف کے بالکل سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ شہباز شریف نے لگ بھگ آدھا گھنٹہ تقریر کی۔
اس دوران پی ٹی آئی کے اقبال آفریدی تنہا بینر اور عمران خان کی رہائی کے مطالبے والا بینر اٹھا کر خاموشی سے ان کے سامنے کھڑے رہے۔
27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ: آرمی چیف اب چیف آف ڈیفینس فورسز بھی ہوں گےالزامات، بداعتمادی اور آن لائن پروپیگنڈا: استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات سے کیا توقعات ہیں؟کیا واقعی پاکستان میں نقد لین دین کے بجائے ڈیجیٹل ادائیگیوں کا رجحان فروغ پا رہا ہے؟اسلام آباد کچہری کے باہر خودکش دھماکے میں 12 ہلاک: ’حملہ آور نے 15 منٹ انتظار کے بعد پولیس موبائل کے پاس دھماکہ کیا‘بلوچستان میں لیویز کا پولیس میں انضمام: پولیسنگ کا 140 سال پرانا قبائلی نظام کیوں ختم کیا جا رہا ہے؟