Getty Imagesحکومتی اتحاد یہ ترمیم سینیٹ سے پہلے ہی منظور کروا چکا ہے
پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیر کی صبح جب 27ویں آئینی ترمیم کا بل پیش گیا تو وہاں موجود حکمراں اتحاد اور حزب اختلاف کے ممبران کے لیے بہت کچھ روایتی سا ہی تھا۔
وفاقی وزیر قانون ترمیم کا بل پیش کریں گے۔ اس پر بحث کے دوران تقاریر ہوں گی، جن کا زیادہ فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ بل پر بحث پہلے ہی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں مکمل ہو چکی ہے۔
حکومتی اتحاد یہ ترمیم سینیٹ سے پہلے ہی منظور کروا چکا ہے۔ اس آئینی ترمیم میں جہاں افواجِ پاکستان میں ایک نئے عہدے چیف آف ڈیفینس سٹاف کی تشکیل کی تجویز دی گئی ہے وہیں اس کے ذریعے حکومت ملک میں ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام بھی چاہتی ہے۔
قومی اسمبلی میں بھی حکومتی اتحاد کے پاس دو تہائی اکثریت با آسانی موجود ہے جس کی مدد سے وہ بل منظور کروا لیں گے۔ تاہم جو چیز مختلف تھی وہ یہ کہ ایوان میں موجود حزب اختلاف کے بہت سے اراکین کے مطابق وہ ترمیم کا مسودہ پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔
حزب اختلاف کے اراکین نے اپنی تقاریر میں اس کا نقطے کی طرف توجہ دلاتے ہوا کہا کہ ان سے توقع کی جا رہی ہے کہ ’ہم آئین میں کی جانے والی اتنی بڑی تبدیلی پر ایک ہی دن میں بحث کریں اور پھر اپنے سامنے اس کو منظور ہوتے ہوئے دیکھیں۔‘
حزب اختلاف کی جماعتوں میں سب سے نمایاں آواز پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممبران قومی اسمبلی کی تھی، جنھوں نے حکومت کی طرف سے ترمیمی بل پر عجلت سے کام لینے پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔
پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر نے اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ترمیم کو 'باکو ترمیم' کا نام دے رہے ہیں کیونکہ ’یہ کیسی ترمیم ہے جس کی منظوری کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کو آذربائیجان کے دارالحکومت باکو سے ویڈیو لنک پر شرکت کرنا پڑی۔‘
Getty Imagesاس آئینی ترمیم میں افواجِ پاکستان میں ایک نئے عہدے چیف آف ڈیفینس سٹاف کی تشکیل کی تجویز دی گئی ہے
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اس ترمیم کو منظور کر کے حکومت ’ایک اور ایلیٹ کلاس‘ بنانے جا رہی ہے۔ حکمراں اتحاد کی جانب اشارہ کر تے ہوئے انھوں نے سوال پوچھا کہ 'دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جہاں صدر یا وزیراعظم کو استثنی حاصل ہوتا ہے۔’آپ کیوں نہیں عدالتوں کا سامنا کر سکتے؟ جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ قانون کا سامنا کریں اور خود کو احتساب کے لیے پیش کریں۔‘
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ان کی جماعت اس ترمیم کے عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔ ان کے خیال میں ایک نئی آئینی عدالت قائم کر کے حکومت ’پاکستان سے چیف جسٹس کو الگ کر رہی ہے۔ اب وہ صرف چیف جسٹس ہو گا، چیف جسٹس آف پاکستان نہیں ہو گا۔‘
پی ٹی آئی کے رہنما عمیر خان نیازی نے اس بل پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عدلیہ کو پہلے ہی چھبیسویں ترمیم کے ذریعے ’جکڑا‘ جا چکا تھا، اس ترمیم کے بعد اس کو ’مکمل طور پر دفن کر دیا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ حکومت اگر سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے مخلص تھی تو وہ اسی سپریم کورٹ کو آئینی معاملات دے کر اس کے نیچے ایک ذیلی عدالت قائم کر کے اس کو دیگر معاملات نمٹانے کی ذمہ داری سونپ سکتی تھی۔
انھوں نے حکومتی بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’لیکن آپ کی نیت ایسی ہے ہی نہیں۔ آپ کا اصل مقصد یہ تھا کہ آئینی عدالت کے ججز ایک شخص اپنی مرضی سے لگائے اور اس کے لیے آپ نے راستہ ہموار کیا۔‘
چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ کیوں تخلیق کیا گیا اور برّی فوج کے سربراہ کو ہی یہ اضافی عہدہ دینے کی تجویز کیوں ہے؟27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان کے عدالتی نظام میں کیا تبدیلیاں آئیں گی؟وزیراعظم شہباز شریف کا آئینی استثنیٰ لینے سے انکار: ’تاحیات استثنیٰ صرف بادشاہوں کو حاصل ہوتا ہے‘’ہنسیں، مسکرائیں یا روئیں‘: 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے
انھوں نے اعتراض اٹھایا کہ ججوں کے تبادلے کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے کہ ’جو جج آپ کی مرضی کا فیٍصلہ نہیں دے گا آپ کے پاس اختیار ہے کہ آپ اس کا تبادلہ کہیں دور کر دیں اور اس کے پاس انکار کا اختیار بھی نہیں ہے۔‘
آئینی ترمیم میں فیلڈ مارشل کے لیے تجویز کیے گئے استثنیٰ پر بات کرتے ہوئے عمیر نیازی نے کہا کہ آرٹیکل 248 اور آرٹیکل 243 کو جوڑ کر پڑھیں تو ’آپ بنیادی طور پر وردی میں صدر کے انتخاب کا راستہ کھول رہے ہیں۔‘
انھوں نے حکومتی پینچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کے ذمہ دار ہم نہیں ہوں گے، اس کے یہ ذمہ دار ہوں گے۔ یہ راستہ یہ کھول رہے ہیں۔‘
پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں آئینی ترمیم پر بحث کے دوران لگ بھگ تمام نقطوں پر اعتراضات اٹھائے اور کہا کہ وہ اور ان کی جماعت اس کا حصہ نہیں بنے گی۔
بل پر بحث تاحال جاری ہے اور اس کے بعد اس کے منظور ہونے کی توقع کی جا رہی۔ تاہم اس بحث کے دوران پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے دو سے تین مزید نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا کہ اس کے بعد مزید ترامیم بھی آ سکتی ہیں۔
ان کے خیال میں ’اختیارات کی بلدیاتی سطح تک منتقلی ایک ایسا ضروری امر ہے جس کے بغیر پاکستان کی مشینری زیادہ عرصے تک نہیں چل پائے گی۔‘
Getty Imagesخواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے
ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ خواجہ آصف کے خیال میں ’یہ نصاب صرف افغان جہاد لڑنے کے لیے لوگوں کو تیار کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا اور اب یہ ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے کم از کم کچھ مسائل اسی ستائیسویں ترمیم ہی میں حل ہو جاتے، تاہم تمام اتحادی جماعتوں کا اتفاق اس پر تھا کہ موجودہ ترمیم میں توجہ صرف ان ہی معملات پر رکھی جائے جو کمیٹی نے منظور کی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان تمام ضروری معاملات پر جتنی جلدی ترامیم لائی جائیں اتنا پاکستان کے حق میں بہتر ہو گا۔
27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ: آرمی چیف اب چیف آف ڈیفینس فورسز بھی ہوں گےکیا واقعی پاکستان میں نقد لین دین کے بجائے ڈیجیٹل ادائیگیوں کا رجحان فروغ پا رہا ہے؟اسلام آباد کچہری کے باہر خودکش دھماکے میں 12 ہلاک: ’حملہ آور نے 15 منٹ انتظار کے بعد پولیس موبائل کے پاس دھماکہ کیا‘بلوچستان میں لیویز کا پولیس میں انضمام: پولیسنگ کا 140 سال پرانا قبائلی نظام کیوں ختم کیا جا رہا ہے؟الزامات، بداعتمادی اور آن لائن پروپیگنڈا: استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات سے کیا توقعات ہیں؟