اسلام آباد کچہری کے باہر خودکش دھماکے میں 12 ہلاک: ’حملہ آور نے 15 منٹ انتظار کے بعد پولیس موبائل کے پاس دھماکہ کیا‘

بی بی سی اردو  |  Nov 11, 2025

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منگل کے دن ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ کے باہر ہونے والے ایک خودکش حملے کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک جبکہ 27 زخمی ہوئے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے مطابق خود کش حملہ آور کچہری کے اندر داخل ہونے کے بعد دھماکہ کرنا چاہتا تھا لیکن اسے اندر جانے نہیں دیا گیا۔

وزیر داخلہ کے مطابق یہ خودکش حملہ منگل کی دوپہر 12 بج کر 39 منٹ پر ہوا اور اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہلی ترجیح خودکش حملہ آور کو شناخت کرنا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ سال کے دوران شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے تاہم ملک کے دارالحکومت میں تین سال بعد خود کش حملے کا واقعہ ہوا ہے۔

خیال رہے اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلکس میں 70 سے زیادہ عدالتیں ہیں اور بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جس وقت یہ دھماکے ہوئے اس وقت تمام عدالتوں میں سائلین اور وکلا اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے آئے ہوئے تھے۔

وکلا کے نمائندوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں چند وکلا بھی شامل ہیں جو دھماکے کے وقت کچہری کے باہر سائلین کے ساتھ موجود تھے۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

محسن نقوی کے مطابق خود کش حملہ آور نے پندرہ منٹ تک انتظار کرنے کے بعد کچہری کے باہر کھڑی ایک پولیس موبائل کے پاس دھماکہ کیا۔

Reutersوفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسلام آباد میں ہونے والے خود کش حملے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔

اس موقع پر موجود ایک وکیل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ کچہری کے باہر اپنی گاڑی پارک کر رہے تھے جب انھوں نے ایک زوردار دھماکہ سنا۔

رستم ملک کے مطابق دھماکے کے بعد وکیل اور لوگ کمپلیکس کے اندر بھاگنے لگے۔ انھوں نے متعدد گاڑیوں کو جلتے ہوئے دیکھا۔

ایک نجی ٹی وی چینل کے مقامی صحافی، جو ضلعی عدالتوں میں مقدمات کی کوریج کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلکس جاتے ہیں، نے بی بی سی نامہ نگار شہزاد ملک کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ پارکنگ میں موٹر سائیکل کی جانب بڑھ رہے تھے جب انھوں نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی۔

’سِگنل پر موجود سُرخ ہنڈائی کار‘: دہلی میں لال قلعہ کے قریب ہونے والے کار دھماکے کی ابتدائی تحقیقات میں کیا سامنے آیا؟کوئٹہ دھماکہ: نام نہاد دولت اسلامیہ نے بی این پی جلسے پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کر لی’ایک ساتھی کی جان دو ہزار روپے میں‘: پشاور پولیس لائن مسجد دھماکہ جس کے لیے پولیس کانسٹیبل نے ’دو لاکھ روپے لیے‘’دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ لگا جیسے زلزلہ آیا ہو‘: بنوں چھاؤنی پر حملے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

ان کے مطابق انھوں نے دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل کورٹ کمپلکس کے مرکزی دروازے پر کھڑی ہوئی پولیس وین سے ٹکرائی ہے جس سے دھواں نکل رہا تھا۔

مقامی صحافی کا کہنا تھا کہ چند منٹوں کے بعد ایک اور زور دار دھماکہ پولیس وین کے آگے کھڑی ہوئی ایک سفید رنگ کی کار میں ہوا تاہم ان کے مطابق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس دوسرے دھماکے کی وجہ کیا تھی۔

مقامی صحافی کا کہنا تھا کہ دھماکے اتنے شدید تھے کہ کورٹ کمپلکس میں متعدد عدالتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ انھوں نے متعدد انسانی اعضا بکھرے ہوئے دیکھے جن میں ان کے مطابق مبینہ خودکش حملہ آور کا سر بھی شامل تھا۔

BBCمقامی صحافی کے مطابق انھوں نے دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل کورٹ کمپلکس کے مرکزی دروازے پر کھڑی ہوئی پولیس وین سے ٹکرائی ہے جس سے دھواں نکل رہا تھا۔

مقامی صحافی کے بقول کورٹ کمپلکس کے باہر سکیورٹی پر موجود ایک پولیس اہلکار، جو خود بھی اس حملے میں زخمی ہوئے، نے اس سر کو شناخت کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص نے کورٹ کمپلکس میں جانے کی کوشش کی لیکن جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی عدالت میں جانا چاہتا ہے تو اس نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جس کے بعد اسے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

پمز ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں موجود ڈاکٹر عدنان نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا ہے کہ دھماکے کے بعد 12 ڈیڈ باڈیز ہسپتال لائی گئی ہیں جنھیں اب ایمرجنسی وارڈ سے مردہ خانے منتقل کر دیا گیا ہے۔

اسلام آباد دھماکے میں ’انڈیا کی پشت پناہی میں سرگرم‘ گروہ ملوث ہیں: وزیرِاعظم شہباز شریف کا الزام

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں ہونے والے خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ’انڈیا کی پشت پناہی میں سرگرم‘ شدت پسند گروہ ان حملوں میں ملوث ہیں۔

منگل کو ایک بیان میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کی دہشتگرد پراکسیوں کی جانب سے پاکستان کے نہتے شہریوں پر دہشتگردانہ حملے قابلِ مذمت ہیں۔‘

وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ: ’انڈیا کو خطے میں پراکسیوں کے ذریعے دہشتگردی پھیلانے کے مکروہ فعل سے باز رہنا چاہیے۔‘

پاکستانی حکام کی جانب سے الزامات پر انڈیا کی طرف سے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شرف کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسلام آباد میں ہونے والے واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کر دی ہے اور اس میں ملوث ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔

’ہم حالت جنگ میں ہیں‘ خواجہ آصف

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسلام آباد میں ہونے والے خود کش حملے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔

سوشل میڈیا ایکس پر اپنے پیغام میں خواجہ آصف نے مزید لکھا کہ ’کوئی یہ سمجھے کہ پاکستانی فوج یہ جنگ افغان پاکستان سرحدی علاقے میں اور بلوچستان کے دور دراز علاقے میں لڑ رہی ہے، آج اسلام آباد کچہری میں خود کش حملہ ویک اپ کال (جاگ اٹھنے کا وقت) ہے کہ یہ سارے پاکستان کی جنگ ہے۔ جس میں پاکستانی فوج روز قربانیاں دے رہی ہے اور عوام کو تحفظ کا احساس دلا رہی ہے۔‘

خواجہ آصف نے مزید لکھا ہے کہ ’اس ماحول میں کابل حکمرانوں سے کامیاب مذاکرات سے زیادہ امید رکھنا عبث ہو گا۔ کابل حکمران پاکستان میں دہشت گردی کو روک سکتے ہیں لیکن اسلام آباد تک اس جنگ کو لانا کابل سے ایک پیغام ہے جس کا پاکستان بھر پور جواب دینے کی قوت رکھتا ہے۔‘

وزیر داخلہ محسن نقوی نے کچہری کے باہر صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’آج اسلام آباد میں ہونے والے حملے کے ساتھ بہت سی چیزیں لنک ہیں اور اس ضمن میں جلد شواہد سامنے لائے جائیں گے۔ جو، جو ملوث ہو گا، چاہے وہ دوسرے ملک سے بھی ہو، کسی کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ دو ہفتے بعد کوئی بھی گاڑی ای ٹیگ کے بغیر اسلام آباد میں داخل نہیں ہو سکے گی۔

’سِگنل پر موجود سُرخ ہنڈائی کار‘: دہلی میں لال قلعہ کے قریب ہونے والے کار دھماکے کی ابتدائی تحقیقات میں کیا سامنے آیا؟’خالصتان، آئی ایس آئی اور پاکستانی دستی بم‘: انڈین پنجاب میں ہونے والے 14 ’بے ضرر‘ بم دھماکوں کے پیچھے کون ہے؟کوئٹہ دھماکہ: نام نہاد دولت اسلامیہ نے بی این پی جلسے پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کر لی’دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ لگا جیسے زلزلہ آیا ہو‘: بنوں چھاؤنی پر حملے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟’ایک ساتھی کی جان دو ہزار روپے میں‘: پشاور پولیس لائن مسجد دھماکہ جس کے لیے پولیس کانسٹیبل نے ’دو لاکھ روپے لیے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More