Getty Images
انڈیا کی ریاست بہار میں جمعرات کو اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 121 سیٹوں کے انتخاب میں لوگوں نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس مرحلے میں ووٹر ٹرن آؤٹ 64.44 فیصد رہا جو 2020 کے الیکشن کے پہلے مرحلے کے مقابلے میں 9 فیصد زیادہ ہے۔
پہلے مرحلے میں ووٹروں کے جوش و خروش کے مدنظر اپوزیشن کانگریس نے کہا ہے کہ اس کے اتحاد کو مکمل اکثریت حاصل ہو گی۔
دوسری جانب بی جے پی نے دعوی کیا ہے کہ ان کی جماعت کے اتحاد این ڈی اے کے حق میں عوامی لہر چل رہی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے بہار کا انتخاب جیتنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا رکھی ہے۔ وہ اب تک تقریبآ دس سے زیادہ ریلیوں سے خطاب کر چکے ہیں، وزیر داخلہ امت شاہ سمیت مہاراشٹر، یوپی اور آسام کے وزرائے اعلی اور مرکزی کابینہ کے سرکردہ وزرا انتحابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
بہار کا الیکشن مودی کے لیے اتنا اہم کیوں؟
معروف سیاسی تجزیہ کار آرتی جے رتھ کہتی ہیں کہ پورے شمالی انڈیا میں بہار واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی اپنے زور پر انتخاب نہیں جیت سکی۔
’مودی کی ایسی شبیہ بن گئی ہے کہ ریاستی انتخاب بھی ان ہی کے نام پر لڑے اور جیتے جاتے ہیں لیکن بہار میں گزشتہ دس برس میں مودی کا جادو چل نہیں سکا۔ بہار میں حکومت بنانے کے لیے انھیں ہمیشہ مقامی سیاسی جماعت ’جنتا دل یونائٹیڈ‘ (جے ڈی یو) کے رہنما نتیش کمار کی مدد لینی پڑی۔ نتیش کمار نے ریاست میں بی جے پی کے کسی رہنما کو اس حد تک اٹھنے نہیں دیا کہ وہ ان کے لیے چیلنج بن جائے لیکن اب جب نتیش کمار کی صحت کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں تو مودی کو بہار میں جیتے کا موقع نظر آ رہا ہے۔‘
’بی جے پی کو لگ رہا ہے کہ اگر وہ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرتی ہے تو وہ نتیش کمار کی جگہ اپنی پارٹی کاوزیر اعلی بنائے گی۔‘
یہ بات اہم ہے کہ بی جے پی کے زیر قیادت این ڈے اے اتحاد نے ماضی کے برعکس اس بار بہار کے الیکشن میں نتیش کمار کو وزیر اعلی کے لیے نامزد نہیں کیا۔
آرتی مزید کہتی ہیں کہ مودی کے لیے بہار کا الیکشن اس لیے بھی اہم ہے کہ ’امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کا جو مسئلہ چل رہا ہے جس میں ٹرمپ بار بار جنگ بندی کروانے کی باتیں دہراتے رہتے ہیں،کبھی وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے انڈیا سے کاروبار نہ کرنے کی وارننگ دے کر مودی کو جنگ بندی کے لیے آمادہ کیا۔ ان سب باتوں سے ملک کے اندر اپنے مداحوں کے مابین مودی کی جو ساکھ تھی اسے بہت حد تک نقصان پہنچا۔ وہ یہ امید کر رہے ہیں کہ اگروہبہار کا الیکشن جیت جاتے ہیں تو انھیں اپنا امیج بحال کرنے میں مدد ملے گی۔‘
آرتی جے رتھ کہتی ہیں کہ ’یہ ہندی بیلٹ کا آخری فرنٹیئر ہے جس پر بی جے پی قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ اس کے بہت نزدیک آ گئے ہیں لیکن پوری طرح داخل نہیں ہو پا رہے۔‘
Getty Imagesبی جے کے زیر قیادت این ڈے اے اتحاد نے ماضی کے برعکس اس بار بہار الیکشن میں نتیش کمار کو وزیر اعلی کے لیے نامزد نہیں کیا’اپوزیشن یہ الیکشن جیت گئی تو ان کے لیے بہت حوصلہ افزا ہو گا‘
معروف صحافی نیدھی رزداں ان دنوں بہار الیکشن کی کوریج کے لیے ریاست کے مختلف علاقوں کا دورہ کر رہی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں بہار کا الیکشن مودی سے زیادہ اپوزیشن کے لیے اہم ہے۔
’اس کا ایک سبب یہ ہے کہ کانگریس اور لالو یادو کے بیٹے تیجسوی یادو کی پارٹی آر جے ڈی کا جو اتحاد ہے اس میں تیجسوی پہلی بار اپنے والد لالو یادوکے سیاسی سائے سے نکل کر خود اپنے زور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہ ان کے لیے بہت بڑا سیاسی امتحان ہے۔ دوسرے پارلیمانی انتخابات کے بعد کانگریس مہاراشٹر اور ہریانہ کے انتخابات میں بہت بری طرح ہاری تھی۔ اس لیے بہار ان کے لیے بھی بہت بڑا سیاسی ٹیسٹ ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں بہار کا الیکشن جیت گئیں تو یہ ان کے مستقبل کے لیے بہت حوصلہ افزا ثابت ہو گا۔‘
نیدھی کہتی ہیں کہ پارلیمانی انتخاب ہو، ریاستی الیکشن ہو یا میونسپل انتخاب، بی جے پی ہر الیکشن کو پوری شدت سے لڑتی ہے۔ ’بہار اسمبلی کا انتخاب بی جے پی کے لیے وقار کی لڑائی ہے۔ شمالی انڈیا میں جسے ’ہندی ہارٹ لینڈ‘ کہا جاتا ہے، بہار واحد ایسی ریاست ہے جہاں بی جے پی تن تنہا اپنے زور پر الیکشن نہیں جیت سکی۔‘
’وہ موجودہ وزیراعلی نتیش کمار اور ان کی پارٹی جے ڈی یو سے اتحاد کے ساتھ ضرور اقتدار میں رہی لیکن اس بار بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ اپنے زور پر الیکشن جیت سکے۔ اگر مودیبہار نہیں جیت پاتے تو ان کے لیے ہندی ہارٹ لینڈ ریاست میں ہارنا بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ اس سے مودی کی شبیہ کو گہرا نقصان پہنچے گا۔‘
کانگریس رہنما اور سابق ریاستی وزیر شکیل احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بہار الیکشن کے نتائج کا اثر پورے ملک پر پڑے گا۔ سیاست میں عروج اور زوال ہوتے رہتے ہیں ۔ مودی جی اور ان کی پارٹی اب زوال کی طرف جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کی جمہوریت اور سماجی ہم آہنگی جس طرح کی ہے اگر آپ اس کے خلاف جائیں گے تو ایک نہ ایک دن زوال لازمی ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’بی جے پی اور نتیش کی حکومت نے ریاست کی معیشت کو خراب کیا، صحت اور تعلیم کے نظام کو بکھیر دیا، لاکھوں نوجوان روزی روٹی کے لیے بہار سے باہر جانے کے لیے مجبور ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے اتحاد کو کامیابی ملے گی۔ تیجسوی ایک نوجوان چہرہ ہیں۔ انھوں نے ڈپٹی وزیر اعلی کے طور پر اچھی شبیہ بنائی۔‘
کیا انڈیا کے پاس 75 سالہ مودی کا کوئی متبادل موجود نہیں؟مودی کی والدہ جنھیں معلوم تھا کہ ایک دن ان کا بیٹا انڈیا کا وزیر اعظم بنے گا’گھر کے اطراف آباؤ اجداد کی قبریں ہیں، مودی آ کر دیکھ لیں‘: کیا انڈیا کے سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے؟مودی کی تصویر والے دو اشتہاروں پر آٹھ کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت کیسے آئی؟بہار کی سیاست میں نئے کھلاڑی کی انٹری
لالو یادو اور نتیش کمار دونوں کا تعلق پسماندہ طبقات سے ہے۔ سوشلٹ نظریات سے متاثر دونوں رہنما 80 کے عشرے کے اواخر میں سیاست میں ایک مزاحمتی آواز بن کر اٹھے۔
لالو یادو 1990 میں پہلی بار وزیراعلی بنے اور 1995 میں دوبارہ یہ عہدہ سنبھالا۔ لالو کی انتطامیہ کو اگرچہ مثبت طریقے سے یاد نہیں کیا جاتا لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کہ انھوں نے اپنے اقتدار میں سماج کے دبے لوگوں کو آواز دی اور انھيں طاقت بخشی۔
ایسے بھی مرحلے آئے جب لالو اور نتیش دونوں نے مل کر کام کیا۔ لالو پر بدعنوانی کا الزام لگنے اور سزا کے بعد نتیش نے ان سے دوری بنا لی۔
Getty Imagesپرشانت کشور کہتے ہیں کہ بہار کے نوجوان تبدیلی چاہتے ہیں اور بڑی تعداد میں ووٹر ٹرن آؤٹ سیاست میں تبدیلی کا اشارہ ہے
لالو یادو کی صحت خراب ہونے کے بعد ان کے بیٹے تیجسوی یادونے ’راشٹریہ جنتا دل‘ یا آر جے ڈی کی کمان سنبھالی۔ مختصر عرصے کے لیے نتیش اور تیجسوی بھی ساتھ رہے لیکن 15 برس کے اقتدار میں نتیش بیشتر بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں رہے۔ اس بار ایک طرف بی جے پی اور نتیش کا اتحاد این ڈی اے ہے تو دوسری جانب تیجسوی یادو، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد ’مہا گٹھ بندھن‘ ہے۔
لیکن اس بار ایک تیسری پارٹی بھی انتخابی میدان میں اتری ہے۔ ’جن سوراج‘ نام کی اس پارٹی کے رہنما ملک کے سرکردہ انتخابی حکمت ساز پرشانت کشور ہیں۔
مودی کی وزارت عظمی کے پہلے دور میں انھوں نے ہی مودی کے لیے انتخابی عملی تیار کی تھی۔ وہ بہت مختصر مدت میں بہار کے دونوں پرانے سیاسی اتحادوں کے لیے بڑا انتخابی چیلنج بن کر ابھرے ہیں۔
نیدھی رزداں کا کہنا ہے کہ پرشانت کشور بہار کی سیاست میں نئے کھلاڑی کے طور پر اترے ہیں۔ ’وہ نوجوان ووٹرز کو ذات پات سے ہٹ کر نوکری اور بہتر گوررننس کے نام پر اپنی طرف راغب کر رہے ہیں لیکن بہار میں ذات پات بہت بڑی حقیقت ہے۔ تو کیا پرشانت کشور اس سے اوپر جا سکیں گے یہ بہت اہم سوال ہے۔‘
پرشانت کشور کی ’جن سوراج پارٹی‘ واحد جماعت ہے جس نے تقریباً سبھی سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ پرشانت کہتے ہیں کہ بہار کے نوجوان تبدیلی چاہتے ہیں اور پہلے مرحلے میں بڑی تعداد میں ووٹر ٹرن آؤٹ یہاں کی سیاست میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔
پرشانت کا کہنا ہے کہ ’ان کی پارٹییا تو عرش پر ہو گی یا فرش پر۔‘ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس انتخاب میں بی جے پی کا اتحاد کسی بھی صورت اقتدار میں نہیں آئے گا۔
انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی مہم میں سخت تنقید کا ہدف بنایا اور کہا کہ ’وہ بہار میں دانستہ طور پر صنعتیں اورفیکٹریاں وغیرہ نہیں لگاتے تاکہ بہار کے عوام غربت سے نہ نکل سکیں اور گجرات کی فیکٹریوں میں جا کر معمولی تنخواہوں پر مزدوری کریں۔‘
اگر اس الیکشن میں کسی کو واضح اکثر یت نہ مل سکی تو بہت ممکن ہے کہ پرشانت کشور کی پارٹی ’جن سوراج‘ کنگز میکر بن کر ابھرے۔
Getty Imagesتیجسوی پہلی بار اپنے والد لالو یادو کے سیاسی سائے سے نکل کر خود اپنے زور پر الیکشن لڑ رہے ہیںانڈیا کی تیسری بڑی ریاست میں ذات پات کی سیاست
بہار کو انڈیا کی غریب ترین ریاستوں میں شمار کیا جاتا ہے اور 13 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ انڈیا کی تیسری سب سے بڑی ریاست ہے۔
یہ ایک ایسی ریاست ہے جو ابھی تک ذات پات کی سیاست میں بہت حد تک الجھی ہوئی ہے۔ ریاست میں اگرچہ اعلی ذات کے ہندو صرف11 فیصد ہیں لیکن ان کا ریاست کی بیشتر زمینوں، اثاثوں، ملازمتوں اور تعلیمی اداروں پر قبضہ رہا ہے۔
ریاست میں پسماندہ طبقوں اور دلتوں پر سماجی، اقتصادی اور سیاسی جبر و ظلم کی ایک لمبی تاریخ ہے۔
بہار میںخاتون ووٹرز کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ یہاں 2005 سے سبھی انتخابات میں خاتون ووٹروں کی تعداد مردوں سے زیادہ رہی۔
وزیر اعلی نتیش کمار کو ان خواتین کی بہت زیادہ سپورٹ ملتی رہی ہے۔بی جے پی اتحاد نے لڑکیوں اور خواتین کے کے لیے کئی سکیمیں لانچ کی ہیں۔
بہار میں ماضی کی طرح اس الیکشن میں بھی خواتین طے کریں گی کہ نتیجہ کس طرف جاتا ہے۔
الیکشن کا دوسرا اور آخری مرحلہ 11 نومبر کو ہے جبکہ ووٹوں کی گنتی 14 نومبر کو ہو گی۔
کیا انڈیا کے پاس 75 سالہ مودی کا کوئی متبادل موجود نہیں؟مودی کی والدہ جنھیں معلوم تھا کہ ایک دن ان کا بیٹا انڈیا کا وزیر اعظم بنے گا’گھر کے اطراف آباؤ اجداد کی قبریں ہیں، مودی آ کر دیکھ لیں‘: کیا انڈیا کے سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے؟مودی کی تصویر والے دو اشتہاروں پر آٹھ کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت کیسے آئی؟عالمی درجہ بندی میں انڈیا کے پاسپورٹ کی مسلسل گرواٹ، وجوہات کیا ہیں؟ ’گریٹر افغانستان‘ کا متنازع نقشہ: ’اس قسم کی اشتعال انگیز ویڈیوز کشیدگی مزید بڑھائیں گی‘