’جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے لیے صرف غیر سفید فام ہونا کافی ہے‘: برطانیہ میں ریپ کے واقعات کے بعد ایشیائی خواتین خوف میں مبتلا

بی بی سی اردو  |  Nov 06, 2025

BBCرویتا پنو والسال میں اپنا بیوٹی سیلون چلا رہی ہیں

میک اپ آرٹسٹ رویتا پنو نے برطانیہ کے علاقے والسال میں اپنا بیوٹی سیلون قائم کرنے کے لیے برسوں محنت کی ہے۔ وولور ہیمپٹن میں پیدا ہونے والی رویتا نہ صرف ایک کامیاب کاروباری خاتون ہیں بلکہ ایک ماں بھی ہیں۔

لیکن وہ ویسٹ مڈلینڈز کی بہت سی ایشیائی خواتین میں سے ایک ہیں جنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اب وہ آنکھیں نیچے کر کے سڑکوں پر گھومتی ہیں۔ ان کا ڈر اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب ان کی بیٹی گھر سے باہر قدم نکالتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف گذشتہ دو مہینے کے عرصے میں ان کے علاقے میں نسلی نفرت کی بنیاد پر ریپ کے دو واقعات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

نو ستمبر کی صبح اولڈبری کے تھامے روڈ پر 20 سال کی ایک نوجوان سکھ خاتون کا ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 25 اکتوبر کو والسال کے علاقے پارک ہالمیں ایک اور 20 سالہ نوجوان سکھ خاتون کا ریپ ہوا تھا۔ پولیس نے اس مقدمے میں ایک 32 سالہ شخص جان ایشلے کو ملزم نامزد کیا ہے۔

ان دونوں واقعات میں ملزمان ان خواتین کے لیے اجنبی تھے۔

27 اکتوبر کو وولور ہیمپٹن میں ایک اور خاتون پر الیکٹرک سٹن گن سے حملہ کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ جنسی تشدد نہیں بلکہ نسل پرستانہ حملہ تھا۔

Sikh Women's Aidسخویندر کور سکھ ویمن ایڈ نامی گروپ کی سربراہ ہیں

سکھ ویمن ایڈ نامی گروپ کی سربراہ سخویندر کور کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم کی ہیلپ لائن پر اب پہلے سے کہیں زیادہ خوفزدہ خواتین کی کالز موصول ہو رہی ہیں۔

ان کے مطابق والسال میں ایک اکیلی ماں اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ رہتی ہے۔

’خاتون کو اپنی بیٹیوں کی فکر تھی، جن کے سکول کا راستہ والسال حملے والی جگہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ چنانچہ خاتون نے تنظیم سے مدد طلب کی۔‘

سکھویندر کور کا کہنا ہے کہ ’خوف کا احساس اب حقیقی ہے، یہ ٹی وی پر پھیلایا جانے والا دائیں بازو کا بیانیہ نہیں ہے۔ یہ کوئی سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی چیز نہیں ہے۔ یہ سب اب ہماری سڑکوں پر ہو رہا ہے۔‘

ویسٹ مڈلینڈز پولیس نے کہا ہے کہ علاقے کو ’ہماری کمیونیٹیز اور خاص طور پر لڑکیوں‘ کے لیے محفوظ بنانا ان کی ترجیح ہے۔

پولیس نے مزید کہا کہ انھوں نے ’خواتین کی رضاکارانہ تنظیموں، کمیونٹی کی ممتاز خواتین، کمیونٹی سیفٹی سٹیک ہولڈرز، آزاد مشاورتی گروپس اور مقامی سیاست دانوں سے خواتین کی حفاظت پر بات کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے۔‘

گذشتہ ہفتے والسال حملے کے بعد چیف سپرنٹنڈنٹ فل ڈولبی نے کہا تھا کہ پولیس فورس کمیونٹیز میں اس حملے کے بعد پائی جانے والی ’تشویش اور خوف‘ کو سمجھتی ہے۔

BBCرویتا پنو کا کہنا ہے کہ یہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک جذباتی وقت ہے

بی بی سی نے اس معاملے پر برمنگھم اور بلیک کنٹری میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی ایشیائی خواتین سے بات کی ہے۔

کچھ کا کہنا تھا کہ وہ پہلے اس علاقے میں خود کو محفوظ محسوس کرتی تھیں لیکن اب وہ اپنے گھر چھوڑنے یا گھر میں اکیلے رہنے سے ڈرتی ہیں۔

ڈبلن کی ایک مسلمان خاتون شبنم انصاری بتاتی ہیں کہ ’میں حجاب پہنتی ہوں، اس لیے میںجانتی تھی کہ میں نسل پرستانہ تشدد کا نشانہ بن سکتی ہوں۔‘

ان کے مطابق ’لیکن اولڈبری اور والسال میں جو کچھ ہوا اس سے میرے خیال میں جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے لیے صرف غیر سفید فام ہونا ہی کافی ہے۔‘

برمنگھم میں ایک 51 برس کی ٹیچر جیسی کلر کا کہنا ہے کہ وہ ریپ کے واقعے کے بعد اجنبیوں کے لیے اپنے گھر کا دروازہ کھولنے سے ڈرتی ہیں۔

جنوبی برمنگھم سے تعلق رکھنے والی 41 برس کی کونسل ورکر کویتا مسوالا نے کہا کہ ’برمنگھم میں پیدا ہونے والی اور پرورش پانے والی ایک ایشیائی خاتون کے طور پر ان واقعات کے بارے میں سن کر ان کا دل دہل جاتا ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہم 2025 میں ہیں اور ہمیں ابھی بھی اس بارے میں محتاط رہنا ہوگا کہ ہم کیسے نظر آتے ہیں اور جلد کا رنگ کیا ہے۔ اب مجھے چہل قدمی پر جانے سے پہلے دو بار سوچنا ہوگا۔‘

ماہومہ بھی برمنگھم میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

وہ والسال میں کھیل کے میدانوں میں جاتی رہی ہیں ’لیکن وہ نہیں جانتیں کہ اب وہ اپنے بچوں کو وہاں اپنے ساتھ لے جا سکیں گی یا نہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں نے پہلے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا تھا۔‘

برطانوی فوج میں خواتین اہلکاروں کو جنسی ہراسانی کا سامنا: ’وہ کمرے کے باہر ہاتھ میں کنڈوم لیے کھڑا تھا‘پاکستان میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ’ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم‘ کے باوجود پراسرار حالات میں مارے کیوں جاتے ہیں؟برطانوی پولیس کے خواتین مخالف اور نسل پرستانہ رویے بی بی سی کی خفیہ فلمنگ میں بے نقابگرومنگ گینگز میں پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے ملوث ہونے کا الزام: حقائق کیا کہتے ہیں؟

رویتا کہتی ہیں کہ یہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک جذباتی وقت ہے، دونوں حملوں نے ’کمیونٹی میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔‘

بیوٹی سیلون کی مالک رویتا کے انسٹاگرام پر دنیا بھر سے 30,000 فالوورز ہیں، جن میں سے زیادہ تر امریکہ، کینیڈا اور دبئی سے تعلق رکھنے والی سکھ خواتین ہیں۔

ان کے مطابق ’میرے مداحوں نے مجھے بیرون ملک سے فون کیا اور کہا کہ وہ یقین نہیں کر سکتے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہ یہاں برطانیہ میں اپنی بہنوں کی پریشانی اور تناؤ کو محسوس کرتی ہیں۔‘

رویتا کہتی ہیں کہ ’ہم نے اپنی بیٹیوں سے کہا ہے کہ وہ بسوں میں سفر نہ کریں، ہم تمھیں کام سے واپس آتے ہوئے گھر لے آئیں گے۔‘

BBCمحسومہ کا کہنا ہے کہ وہ والسال میں اپنے بچوں کی پرورش کرنے سے ڈرتی ہیں

تاہم وہ اپنے بچوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈالنے سے محتاط رہتی ہیں اور توازن برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔

انھیں لگتا ہے کہ ایسے واقعات کے سبب ایشیائی خاندان اپنے بچوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔

’بطور ماں کیا میں ابھی اپنی بیٹی کو باہر جاتا دیکھا چاہتی ہوں؟ بالکل نہیں۔‘

ان کے مطابق ’میں اپنی بیٹی کو روئی میں لپیٹ کر اپنے قریب رکھنا چاہوں گی۔ لیکن ہم ایسا بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس جینے کے لیے زندگی ہے اور انھیں اس کے لائق ہونا چاہیے۔‘

دوسری جانب محسومہ کا کہنا ہے کہ وہ والسال میں اپنے بچوں کی پرورش کرنے سے ڈرتی ہیں۔

جبکہ دوسری خواتین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ سڑکوں یا اپنے گھروں میں محفوظ ہیں یا نہیں؟ کمیونٹی تنظیمیں ایسے الارم بٹن تقسیم کرنے پر بات کر رہی ہیں جو کسی بھی حملے کی صورت میں خطرے کی گھنٹی کے طور پر استعمال ہو سکیں۔

سخویندر کور کہتی ہیں کہ ’خواتین یہ محسوس کرنے لگی ہیں کہ انھیں اپنی زندگیوں اور ذاتی آزادیوں کو نئی شکل دینا ہوگی۔‘

برطانوی پولیس کے خواتین مخالف اور نسل پرستانہ رویے بی بی سی کی خفیہ فلمنگ میں بے نقاببرطانیہ کے علاقے میں ایشیائی نژاد خواتین سیاستداں منتخب کیوں نہیں ہوتیں؟گرومنگ گینگ کے پاکستانی نژاد سرغنہ کو 35 سال قید کی سزا: ’جنسی استحصال کرنے والے اتنے زیادہ تھے کہ اُن کی گنتی مشکل تھی‘گرومنگ گینگز میں پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کے ملوث ہونے کا الزام: حقائق کیا کہتے ہیں؟پاکستان میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ’ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم‘ کے باوجود پراسرار حالات میں مارے کیوں جاتے ہیں؟اندھے قتل کا معمہ: وہ ’لاپتہ‘ لڑکی جس کی لاش قاتل نے قالین میں لپیٹ کر دفنا دی تھی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More