چین برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کیسے جاسوسی نیٹ ورکس چلا رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Nov 01, 2025

BBC

چین واقعی برطانیہ کے لیے کس قسم کا خطرہ ہے؟

یہ ایک سوال ہے جس کا سامنا ہر حکومت کو رہا ہے

اس سلسلے میں دو برطانوی شہریوں، کرسٹوفر کیش اور کرسٹوفر بیری کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر چین کے لیے جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا تھا اور ان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی۔

دونوں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ جب گذشتہ ماہ ان کے خلاف الزامات واپس لے لیے گئے تو اس سے سیاسی منظر نامے پر عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔

اس کے بعد پراسیکیوٹرز اور عہدیداروں نے اس بارے میں متضاد موقف اختیار کیا کہ آیا چین کو قومی سلامتی کے لیے فعال خطرہ قرار دینے میں ناکامی یا عدم رضامندی الزامات کو واپس لینے کا باعث بنی۔ اب تو اٹارنی جنرل لارڈ ہرمر نے کیس کے خاتمے کے لیے ’فرسودہ‘ قانون سازی کو مورد الزام ٹھہرا دیا ہے۔

لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدید دنیا میں چین کی جاسوسی کیسی نظر آتی ہے۔

AFP via Getty Images

ایک طرف چین سرد جنگ سے وابستہ انسانی جاسوسی کے پرانے طریقوں کے روایتی فریم ورک کے اندر جاسوسی کرتا ہے اور اس کے جاسوس دنیا یں سفارت کاری کی آڑ میں کام کرتے ہیں اور راز حاصل کرنے کے لیے ملازمتیں دیتے ہیں۔

’کیش اور بیری‘ کے اب ختم ہونے والے کیس کی تحقیقات کرنے والے پراسیکیوٹرز کے نائب قومی سلامتی کے مشیر کے گواہ کا بیان اسی قسم کے کام کی عکاسی کرتا ہے۔

چینی انٹیلیجنس سروسز پالیسی سازوں، سرکاری عملے اور جمہوری اداروں سمیت متعدد ذرائع سے معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور وہ ایسے مواقعے کو خوب استعمال کرتے ہوئے جتنا ممکن ہوتا ہے وہ معلومات حاصل کر سکتی ہے۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تقریباً ہر ملک اسی طرح سے جاسوسی کرتا ہے۔ دوسرے ممالک کے بارے میں اندر کی خبر حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ کام پہاڑوں کی عمر جتنا پرانا ہے۔

برطانیہ چین کے خلاف اس قسم کی جاسوسی کرتا ہے جیسا کہ چین نے خود عوامی سطح پر اس متعلق شکایت کی ہے۔ جب ممالک پکڑے جاتے ہیں تو عام طور پر عوامی تنازع پیدا ہوتا ہے لیکن ہر فریق جانتا ہے کہ یہ ایک معمول کا کام ہے۔ لیکن چین کا طرز عمل اس سے کچھ بڑھ کر ہے جو سکیورٹی حکام کو پریشان کرتا ہے۔

ایم آئی 5 کے سربراہ سر کین میک کالم نے رواں ماہ کے اوائل میں قومی سلامتی کے خطرات کے بارے میں بریفنگ کے دوران کہا کہ ’کوشش کریں کہ جان لی کیری کے ناول کے کردار جیسے سفارت خانے سے باہر موجود ’روایتی کارڈ‘ لے جانے والے جاسوسوں کے بارے میں زیادہ فکرمند نہ ہوں۔‘

ان کے مطابق جو چیز واقعی چین کو ایک نئی جگہ پر لے کر جاتی اور جو اصل مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ چین کو قومی سلامتی کے خطرات جاسوسی کے روایتی تصورات سے بالاتر ہیں۔

کچھ خطرات اس وجہ سے بھی مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب بہت سے لوگ اس رائے سے متفق ہوتے ہیں کہ ہمیں چین کے ساتھ بات چیت اور تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

Getty Images

چین کی معاشی طاقت ترقی برطانیہ کے لیے بھی ممکنہ طور پر بہت اہمیت کی حامل ہے جو معاشی پیداوار کے لیے بہت بے چین ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ لیبر پارٹی چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، اس سے وابستہ خطرات سے آگاہ رہتے ہوئے ان تعلقات کو منافع بخش بنانا ایک مشکل کام ہے جس نے حکومتوں کو پریشان کر رکھا ہے۔

بڑھتے سیاسی اثر و رسوخ سے متعلق تحفظات

سکیورٹی امور پر کام کرنے والے چینی انٹیلیجنس اہلکاروں کی تعداد کچھ اندازوں کے مطابق پانچ لاکھ تک بنتی ہے جو ملک اور بیرون ملک فعال ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کا صاف مطلب تو یہی ہے کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں چین بڑے پیمانے پر بیرون ملک اپنے ان اہلکاروں کو تعینات کر سکتا ہے۔

ہر ملک اپنی انٹیلیجنس سروسز کو مختلف طریقے سے استعمال کرتا ہے، جس سے اس ریاست کی ترجیحات کا علم ہوتا ہے۔ چین میں اولین ترجیح کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔

عملی طور پر اس کا مطلب بیرون ملک سیاسی بحث پر اثر انداز ہونا، مخالفین کا تعاقب کرنا، بڑے پیمانے پر ڈیٹا اکٹھا کرنا اور اندرون ملک معاشی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔

Getty Images

برطانیہ میں، چینی سیاسی اثر و رسوخ کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔

ایم آئی 5 نے جنوری 2022 میں ایک مبینہ چینی ایجنٹ کرسٹین لی کی سرگرمیوں کے بارے میں ’انٹرفیرنس الرٹ‘ (کسی بھی مقام پر داخلے کا انتباہ) جاری کیا تھا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں گھس گئی تھیں۔

کرسٹین لی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ بعد ازاں انھوں نے ایم آئی 5 کے خلاف ناکام قانونی چارہ جوئی کی اور ایک ٹریبونل کو بتایا کہ ان کے بارے میں خفیہ ایجنسی کا الرٹ ایک ’سیاسی مقصد‘ ہے۔

ایم آئی 5 نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ بیجنگ اپنے کریئر کے ابتدائی مراحل میں مقامی سیاستدانوں کو مزید سینیئر عہدوں تک پہنچانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ایجنسی کے مطابق اس صبر آزما طویل دورانیے کی حکمت عملی کا مقصد برطانیہ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔

PA

یہاں، مقصد راز چوری کرنا یا معلومات حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ سیاسی بحث کو پراگندا کرنا تھا۔ اگر بااثر عہدوں پر چین کے منظور نظر لوگ ہوں گے پھر وہ مسائل اور عالمی منظر نامے سے متعلق چین کی حمایت والا نقطہ نظر اختیار کریں گے۔

ایک اور چیز جو برطانیہ کے سکیورٹی حکام کو پریشان کرتا ہے وہ ہے چین کا اپنے ناقدین کی جاسوسی کا رجحان، جسے بین الاقوامی جبر کے نام سے جانا جاتا ہے، جو برسوں سے چینی انٹیلیجنس کا بنیادی ہدف رہا ہے۔ اس میں تبتی مہم چلانے والوں جیسے گروہوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

لیکن بیجنگ کی پابندی کے بعد ہانگ کانگ سے بہت سے نوجوان جمہوریت نواز کارکنوں کی برطانیہ آمد نے ایسے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔

ایم آئی 5 کے مطابق ہانگ کانگ پولیس نے یہاں برطانیہ میں ایک درجن سے زیادہ جمہوریت نواز کارکنوں کے سر کی قیمت مقرر کر دی ہے جس سے انھیں ہراساں کرنے اور نگرانی کی اطلاعات میں اضافہ ہوا ہے۔

بیجنگ نے ہمیشہ جاسوسی کے الزامات کو چین کو ’بدنام‘ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔

اس سے قبل لندن میں چینی سفارت خانے نے کہا تھا کہ چین کبھی بھی دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور ہمیشہ سر عام اور شفاف انداز میں کام کرتا ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں جاری ہونے والے ایک بیان میں اس نے مزید کہا کہ ’برطانیہ کی طرف سے نام نہاد ’چائنہ جاسوسی کیس‘ مکمل طور پر من گھڑت اور خود ساختہ ہے۔ چین اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ چین کی ترقی دنیا کے لیے ایک موقع ہے اور یہ کسی ملک کے لیے خطرہ نہیں۔ ہم ’جاسوسی کی سرگرمیوں‘ کے بے بنیاد الزامات لگا کر یا نام نہاد ’چین کی دھمکی‘ گھڑ کر چین کو بدنام کرنے کی کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔

جدید ترین سائبر جاسوسی

اس کے باوجود کچھ بڑے پیمانے پر سائبر آپریشنز سے چین کا تعلق جوڑا گیا ہے۔ اس میں سے کچھ جاسوسی کے جدید تصورات سے متعلق ہے جس کا مقصد راز چوری کرنا ہوتا ہے۔

گذشتہ برس بیجنگ پر ارکان پارلیمنٹ کی ای میلز کو ہیک کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم رشی سونک نے بیجنگ کو باضابطہ طور پر ’خطرہ‘ قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’چین ہماری سلامتی کے لیے ایک معاشی خطرہ اور ایک عہد کا تعین کرنے والا چیلنج ہے‘۔

اس کے بعد اگست میں برطانیہ نے آخر کار انکشاف کیا کہ اسے سالٹ ٹائفون نامی ایک انتہائی جدید جاسوسی مہم کے دوران ہدف بنایا گیا تھا، جس نے دنیا بھر کی ٹیلی کام کمپنیوں کو ہدف بنایا تھا۔

برطانیہ اس بارے میں خاموش رہا کہ کس ہدف کو یا چیز کو نشانہ بنایا گیا۔ برطانیہ نے صرف ایک درجن دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اور رازداری میں مشاورت کے بعد یہ بات کی کہ اسے کیا کہنا چاہیے۔

PA

برطانیہ کے نیشنل سائبر سکیورٹی سنٹر نے ایک بیان میں متنبہ کیا ہے کہ اس سرگرمی کے ذریعے چوری ہونے والا ڈیٹا بالآخر چینی انٹیلیجنس سروسز کو دنیا بھر میں اہداف کے مواصلات اور نقل و حرکت کی شناخت اور ٹریک کرنے کی صلاحیت فراہم کر سکتا ہے۔

امریکہ نے اس معاملے پر کئی ماہ پہلے بات کی تھی، اور وہاں یہ اطلاع ملی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس سمیت سینیئر سیاستدانوں کو 2024 کے انتخابات کے دوران ان کے مواصلات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اعداد و شمار کی ایک ’تشویشناک‘ مسابقت

اب برطانیہ میں لندن میں سابق رائل ٹکسال کی عمارت میں نئے چینی سفارت خانے کے منصوبوں نے ان خدشات کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے کہ یہ زیر زمین ڈیٹا کیبلز کو ٹیپ کر کے جاسوسی کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔

لیکن کچھ سکیورٹی حکام ان خطرات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ ان کیبلز کو جسمانی طور پر محفوظ اور نگرانی کی جاسکتی ہے بلکہ بیجنگ کی بڑے سائبر جاسوسی کی صلاحیت پر وہ سوال اٹھاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ چین نے خود کو ریموٹ سائبر رسائی کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی مکمل صلاحیت ظاہر کی ہے۔

تاہم ، اس طرح کا ہدف بنانا اب بھی روایتی ریاست پر جاسوسی اور مغربی حکومتیں جس طرح کی انجام دیتی ہیں اس کے اندر وسیع پیمانے پر بیٹھتی ہے۔

BBC

در حقیقت یہ سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے برطانیہ اور امریکہ کی ڈیجیٹل جاسوسی کے پیمانے کے بارے میں انکشافات تھے جس میں کہا گیا تھا کہ چین کو سائبر سپیس میں زیادہ آگے بڑھنے کی شدید خواہش ہے۔

لیکن سائبر سپیس میں اصل تشویش اس سے کہیں زیادہ ہے۔

آن لائن چینی انٹیلیجنس کی سرگرمی کے بارے میں جو بات قابل ذکر ہے وہ بڑے پیمانے پر اعداد و شمار کی بھوک ہے۔ بیجنگ کی جانب سے بڑے پیمانے پر ڈیٹا سیٹ جس میں مالی، ذاتی، صحت یا دیگر قسم کی معلومات شامل ہو سکتی ہیں، اس کا تعاقب مغربی سکیورٹی حکام کو خوفزدہ کرتا ہے۔

برطانیہ کے نیشنل سائبر سکیورٹی سینٹر کے سابق سربراہ سیارن مارٹن کا کہنا ہے کہ ’چین برطانوی عوام کے بارے میں آبادی کی سطح کے اعداد و شمار جمع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

Getty

یہ مصنوعی ذہانت کو تربیت دینے یا ملک کو بہتر طور پر سمجھنے یا رائے پر اثر انداز ہونے یا ممکنہ طور پر انفرادی اور اجتماعی طور پر ہماری کمزوریوں پر کام کرنے کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔

’یہ ہمیشہ مؤثر طریقے سے انجام نہیں دیا جاتا ہے لیکن یہ حکومت اور سیاست کی ’معمول‘ کی جاسوسی سے بہت مختلف ہے جو تقریباً تمام ممالک کرتے ہیں۔

’اس لحاظ سے، چین صرف اس لیے قابل ذکر ہے کہ اس کی جاسوسی کبھی کبھی بہت ہی عجیب نوعیت کی ہوتی ہے۔‘

اس میں سے کچھ ڈیٹا چوری ہو جاتا ہے لیکن بعض اوقات یہ مغربی مارکیٹ تک رسائی رکھنے والی چینی کمپنیوں کے ذریعے کیے جانے کا شبہ ہوتا ہے۔

’ماہرین تعلیم کو راغب کرنے‘ کی کوششوں کا سلسلہ

جب چین کی بات آتی ہے تو قومی سلامتی کے عہدیداروں کے لیے ایک عنصر سب سے مشکل ہے: چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے خطرات اور فوائد کو کس طرح متوازن کیا جائے۔

چینی ریاست اور اس کے جاسوسوں کی ترجیح معاشی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔

مبصرین اکثر ایک قسم کی غیر واضح ’بارگین‘ کی طرف اشارہ کرتے ہیں: چینی عوام اس وقت تک سیاسی آزادی کی کمی کو برداشت کریں گے جب تک ریاست انھیں نسبتاً معاشی فوائد فراہم کرتی رہے گی۔

یہی وجہ ہے کہ چین کئی دہائیوں سے معاشی اور سیاسی اور سفارتی رازوں کو اس طرح تلاش کرنے میں سرگرم ہے جس طرح مغربی ممالک ابھی تک نہیں کر سکے۔

بعض اوقات یہ کمپنیوں کے کاروباری راز ہوتے ہیں، چاہے وہ نئی مصنوعات کے ڈیزائن ہوں یا کچھ اور بات چیت ہو۔

حساس معلومات کی اقسام ہیں اور کچھ ایسی ہوتی ہیں جنھیں ریاستی راز نہیں کہا جا سکتا جیسے کسی یونیورسٹی میں ایک نئے جدید مواد میں ہائی ٹیک تحقیق، جس میں فوجی اور سویلین ایپلیکیشنز ہوتی ہیں۔

ایم آئی 5 کا کہنا ہے کہ وہ ’برطانیہ کے تعلیمی ماہرین کو لالچ دینے کی کوششوں کے ایک مستقل سلسلے‘ سے نبرد آزما ہیں جس کا مقصد اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنا ہے جس پر کام ہو رہا ہے، جیسے ’لنکڈ ان‘ جیسی نیٹ ورکنگ سائٹس ہیں۔‘

Getty

امریکہ کے سابقہ انٹیلیجینس اہلکار اینڈریو بیجر کا کہنا ہے کہ ’ایک ایسی دنیا میں جہاں فوجی اور معاشی طاقت کا ’ڈی این اے‘ ڈیجیٹل معلومات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے جب بنیادی دانشورانہ املاک اور اس سے متعلق علم دوسروں تک پہنچتا ہے تو پھر ایسے میں پوری صنعتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اور ان کے ساتھ ملازمتوں، سرمائے کے اور جغرافیائی سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘

ان کی کتاب بھی جلد شائع ہونے جا رہی ہے جس کا عنوان ’دی گریٹ ہیسٹ: چائناز اِپک کمیمپین ٹو سٹیل امریکاز سیکرٹس‘ ہے۔

جاسوسوں کے خلاف مقدمہ چلانے، قوانین کو مضبوط بنانے اور تجارت کو سکیورٹی کے ساتھ متوازن کرنے کے بارے میں برطانیہ کی موجودہ بحث اس تاریخی سچائی سے شروع ہونی چاہیے: معاشی طاقت صرف رازوں کو محفوظ بنا کر ہی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔‘

ہیکرز، خفیہ کیبلز اور جاسوسی کے خدشات: برطانیہ میں چین کا نیا مجوزہ سفارتخانہ متنازع کیوں بن رہا ہے؟چین کی مدد سے خلا میں بھیجا جانے والا پہلا پاکستانی ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ جسے وژن 2047 کا حصہ قرار دیا جا رہا ہےعالمی طاقتوں کے بیچ دنیا کے پراسرار خطے پر غلبے کی جنگ اور بڑھتی ہوئی جاسوسی کی کارروائیاں جو اب خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہیںکیا ٹرمپ کا غیر متوقع فیصلہ مودی کو چین کے قریب لا سکتا ہے؟سب سے مشکل خطرہ

جیسے جیسے چین کی معاشی طاقت بڑھ رہی ہے، خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی میں، سب سے مشکل خطرات میں سے ایک برطانیہ اور دیگر مغربی ریاستوں کا اہم شعبوں میں چین پر انحصار ہے، جس میں الیکٹرک گاڑیاں اور مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والی اہم معدنیات شامل ہیں۔

اس نے چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کے بارے میں بحث کو جنم دیا کہ وہ ملک کے نئے 5 جی فون انفراسٹرکچر کا ایک بڑا حصہ بنا رہی ہے۔

چینی سامان سستا تھا اور اکثر حریفوں کے مقابلے میں بہتر سمجھا جاتا تھا لیکن کیا اس میں خطرات تھے؟

AFP via Getty Images

یہ جاسوسی کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں کم تھا اور اس سے زیادہ حقیقت یہ تھی کہ ٹیکنالوجی کے لیے کسی دوسرے ملک پر انحصار کا تعلق جس پر روزمرہ کی زندگی کا انحصار ہے پھر آپ پر اثر انداز ہونے کا باعث بنتا ہے اور حتیٰ کہ یہ جبر کا رستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اگر آپ کچھ کرتے ہیں یا کچھ کہتے ہیں جو بیجنگ کو پسند نہیں ہے تو کیا یہ آپ سے قطع تعلقی کر سکتا ہے۔

آخر میں ہواوے کی ٹیکنالوجی، جس نے ہمیشہ اس سے انکار کیا کہ یہ سکیورٹی رسک ہے کو فائیو جی کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ لیکن یہ صرف پہلی چینی کمپنی تھی جو عالمی سطح پر گئی اور اب دیگر بہت سی کمپنیاں بھی ہیں۔

تو کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ چین نئے جوہری ری ایکٹر بناتا ہے؟ یا گرین ٹیکنالوجی کا اہم سپلائر بن جاتا ہے؟ اور اگر لوگ اپنی خبروں اور معلومات کے لئے چینی نژاد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر انحصار کرتے ہیں تو کیا ہوگا؟

یہاں معاشی ترقی کے ایجنڈے کے ساتھ کشیدگی سب سے زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، ایک اہم برآمدی منڈی اور سرمایہ کاری کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم اس تعلقات کے فوائد کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو پھر چینی کمپنیوں کو برطانیہ کی مارکیٹ سے نکالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

چینی ٹیکنالوجی یا کمپنیوں پر کسی بھی قسم کی مکمل پابندی مضحکہ خیز ہوگی۔ لیکن ہمیں کتنی وسعت دینی چاہیے؟

Getty

برطانیہ کے لیے دوسرا چیلنج یہ ہے کہ ایسے بہت سے پہلو جہاں معاشی اور قومی سلامتی آپس میں مل جاتے ہیں تو پھر کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے امریکہ سخت موقف اختیار کر رہا ہے اور واشنگٹن لندن پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے۔

اس سے لندن بیجنگ اور واشنگٹن کے دباؤ کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے اور اس بات پر کام کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ان خطرات سے کیسے نمٹا جائے جبکہ پیداواری تعلقات کو بھی برقرار رکھا جائے۔

اس میں سے کوئی بھی آسان نہیں ہے اور اس کا زیادہ تر تعلق روایتی جاسوسی سے نہیں ہے۔ اس نئی دنیا میں خطرات بہت وسیع اور زیادہ پیچیدہ ہیں۔

لیکن چین کی ایک واضح اور مستقل حکمت عملی کے بغیر جس کا اعتماد کے ساتھ اظہار کیا جاتا ہے، پچھلی حکومتوں کی طرح اس حکومت کو بھی یہ جاننا مشکل ہو جائے گا کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے۔

کیا ٹرمپ کا چین کو نظر انداز کر کے معدنیات کی عالمی صنعت پر قابض ہونے کا خواب پورا ہو پائے گا؟مختلف ممالک اپنے ذخائر میں ہزاروں ٹن سونا کیوں رکھتے ہیں اور کیا اس قیمتی دھات کی قیمت میں حالیہ اضافے کی وجہ چین ہے؟ٹرمپ کا دورۂ ایشیا: شی جن پنگ کے ساتھ چھ سال بعد ملاقات جو تجارتی جنگ کی سمت طے کر سکتی ہے’بچوں جیسا چہرہ مگر پراسرار شخصیت‘: 14 ارب ڈالر کا کرپٹو فراڈ، جس کا مرکزی ملزم کم عمری میں ہی بہت امیر ہو گیاپٹاخے کہاں سے آئے؟ بانس کے دھماکے سے آتش بازی کا ’پرفیکٹ بلیو‘ رنگ بننے تک کا سفرچین کی مدد سے خلا میں بھیجا جانے والا پہلا پاکستانی ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ جسے وژن 2047 کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More