’یہ کیلے لے لو، مجھے مت مارو‘: ایمیزون جنگل میں تنہائی میں رہنے والا قبیلہ جسے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے

بی بی سی اردو  |  Oct 27, 2025

Fenamadایمیزون کے جنگل میں دو بھائی

توماس اینیز دوس سانتوس پیرو کے ایمیزون کے جنگل میں ایک چھوٹی سی کھلی جگہ پر کام کر رہے تھے کہ جب انھیں جنگل میں قدموں کی آہٹ سنائی دی۔

انھیں احساس ہوا کہ وہ گِھر چکے ہیں اور بس وہ وہیں ساکت کھڑے ہو گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھ سے کُچھ ہی فاصلے پر ایک شخص تیر سے نشانہ لگائے کھڑا تھا اور کسی طرح اسے یہ محسوس ہوا کہ میں یہاں ہوں بس ایسے میں، میں بھاگنے لگا۔‘

اُن کا سامنا ماشکو پیرو قبیلے کے افراد سے ہو گیا تھا۔

دہائیوں سے توماس جس نیووا اوسینیا نامی چھوٹے سے گاؤں میں رہتے ہیں وہ ان خانہ بدوش لوگوں کا بس یوں کہہ لیں کہ ہمسایہ ہے۔ یہ وہ قبیلہ ہے جو بیرونی دنیا سے رابطہ رکھنے سے گریز کرتا ہے اور کافی عرصے تک اُنھیں دنیا نے دیکھا تک نہیں تھا۔

ماشکو پیرو کمیونٹی کے لوگ تقریباً ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے باقی دُنیا سے الگ تھلگ ہیں۔وہ لمبی کمانوں اور تیروں سے شکار کرتے ہیں اور ایمیزون کے جنگلات ہی اُن کی گزر بسر کا ذریعہ ہیں۔

توماس یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب اس قبیلے کے لوگوں نے مُجھے اپنے درمیان پایا تو انھوں نے میرے گرد گھومنا شروع کر دیا کیا اور سیٹیاں بجانے لگے، جانوروں کی طرح آوازیں نکالنے لگے اور اُن کی نقل اتار رہے تھے، میں تو حیران تھا کے جانوروں کے علاوہ وہ کئی طرح کے پرندوں کی آوازیں بھی نکال رہے تھے۔‘

’میں بار بار کہتا رہا ’نومولے‘ (یعنی بھائی)۔ پھر وہ اکٹھے ہوئے جیسے وہ قریب آ رہے ہوں، میں دریا کی طرف بڑھا اور بھاگ نکلا۔‘

BBCتوماس کہتے ہیں کہ انھیں ان کی طرح جینے دیں

انسانی حقوق کی تنظیم سروائیول انٹرنیشنل کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق دنیا میں کم از کم 196 ایسے قبائل یا گروہ باقی ہیں کہ جن کا بیرونی دُنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور اُنھیں ’ان کانٹیکٹڈ گروپس‘ کہا جاتا ہے۔ ماشکو پیرو ان میں سب سے بڑا قبیلہ مانا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر حکومتوں اور ذمہ داران نے ان کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات نہ کیے تو اگلی دہائی میں ان میں سے نصف گروہ صفحۂ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے بڑا خطرہ ان علاقوں میں بڑھتی ہوئی صنعتی مداخلت سے بے۔یعنی لکڑی، کان کنی اور تیل کی کمپنیوں کی نظریں ان علاقوں پر جمی ہوئی ہیں اور بہت سے علاقوں میں تو انھوں نے کام شروع کر رکھا ہے۔

سوشل میڈیا انفلوائنسرز بھی ان کے لیے ایک ثقافتی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

مقامی لوگوں کے مطابق حال ہی میں ماشکو پیرو کے افراد نیووا اوسینیا میں زیادہ کثرت سے آنے لگے ہیں۔

یہ گاؤں تقریباً سات یا آٹھ خاندانوں پر مشتمل ایک ماہی گیر برادری ہے جو پیرو کے ایمیزون کے وسط یعنی دل میں تاؤہامانو دریا کے کنارے اونچائی پر واقع ہے، سب سے قریبی آبادی سے کشتی کے ذریعے تقریباً دس گھنٹے کے فاصلے پر۔

یہ علاقہ ایسے قبیلوں یا گروہوں کے لیے محفوظ مقامہے کہ جن کا بیرونی دُنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے تاہم یہاں لکڑی کاٹنے والی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔

توماس کے مطابق بعض اوقات لکڑی کاٹنے والی مشینوں کی آواز دن رات سنائی دیتی ہے اور ماشکو پیرو کے لوگ اپنے جنگل کو برباد اور بے سکون ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

نیووا اوسینیا میں لوگ کہتے ہیں کہ وہ ایک مُشکل وقت کا سامنا کر رہے ہیں، وہ ماشکو پیرو کے تیروں سے ڈرتے بھی ہیں، مگر اپنے ان ’بھائیوں‘ کے لیے فکر مند بھی ہیں کہ جو جنگل میں رہتے ہیں اور جنھیں وہ محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔

توماس کا کہنا ہے کہ انھیں ویسے ہی جینے دیا جائے جیسے وہ جی رہے ہیں ہم ان کی ثقافت نہیں بدل سکتے۔ اسی لیے ہم ان سے فاصلہ رکھتے ہیں۔

Survival Internationalگذشتہ سال 2024 میں جون میں ماشکوپیرو کے لوگوں کی تصویر لی گئی تھی

نیووا اوسینیا کے لوگ ماشکو پیرو کے طرزِ زندگی کو پہنچنے والے نقصان، بڑھتی ہوئی پرتشدد جھڑپوں کے خطرے اور اس امکان سے پریشان ہیں کہ لکڑی کاٹنے والے مزدور ماشکو پیرو کو ایسی بیماریوں سے دوچار کر سکتے ہیں جن کے خلاف ان کے جسم میں قدرتی طور پر لڑنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔

جب ہم گاؤں میں موجود تھے تواُس وقت ماشکو پیرو نے ایک بار پھر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔

لیتیسیا روڈریگز لوپیز ایک نوجوان ماں جس کی دو سالہ بیٹی ہے جنگل میں پھل چن رہی تھیں جب انھوں نے ان کی آوازیں سنیں۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’ہم نے چیخ و پکار سنی، بہت سے لوگوں کی آوازیں سُنیں۔ جیسے پورا ایک گروہ چلا رہا ہو۔‘

یہ پہلا موقع تھا جب ان کا ماشکو پیرو قبیلے سے تعلق رکھنے والوں سے سامنا ہوا اور وہ فوراً وہاں سے بھاگ نکلیں۔

ایک گھنٹے بعد بھی اُن پر اُس قبیلے کے لوگوں کی چیخ و پکار کا خوف طاری تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ لکڑی کاٹنے والے جنگل تباہ کر رہے ہیں، وہ (ماشکو پیرو) شاید خوف کے باعث بھاگتے ہیں اور ہمارے قریب آ جاتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے، بس یہی وہ بات ہے کہ جس سے ہم ڈرتے ہیں۔‘

سنہ 2022 میں دو لکڑی کاٹنے والے مزدوروں پر ماشکو پیرو نے ماہی گیری کے دوران حملہ کیا۔

ان میں سے ایک کے پیٹ میں تیر لگا لیکن وہ زندہ بچ گیا جبکہ دوسرا چند دن بعد مردہ حالت میں ملا اس کے جسم پر نو تیروں کے لگنے کے نشانات اور زخم تھے۔

Google/BBCنیوا اوشینیا پیرو کے برساتی جنگل میں ماہی گیروں کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے

پیرو کی حکومت کی ایک نان کانٹیکٹ پالیسی ہے جس کے تحت الگ تھلگ یا تنہا رہنے والے لوگوں یا قبائلسے کسی بھی قسم کا رابطہ قائم کرنا غیر قانونی ہے۔

اس پالیسی کا آغاز سب سے پہلے برازیل سے تب ہوا تھا کہ جب مقامی لوگوں کے حقوق کی تنظیموں نے دہائیوں تک مہم چلائی کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ ایسا ہونے سے یہ بیرونی دُنیا سے دور رہنے والے قبائل بیماریوں، غربت اور غذائی قلت کا شکار ہو کر ختم ہو گئے۔

سنہ 1980 کی دہائی میں جب نہاؤ قبیلے نے پہلی بار بیرونی دنیا سے رابطہ کیا تو چند سالوں میں ان کی آبادی کا 50 فیصد حصہ ہلاک ہو گیا۔

سنہ 1990 کی دہائی میں مورُہانُوا قبائل کے لوگوں کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔

فیماناد نامی پیرو کی ایک مقامی حقوق کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے اسرائیل آکِسے کہتے ہیں کہ ’الگ تھلگ رہنے والے لوگ انتہائی کمزور ہوتے ہیں۔ طبّی لحاظ سے دیکھا جائے تو بیرونی دُنیا سے کسی بھی رابطے کی صورت میں وہ بیمار ہونے لگتے ہیں اور ایک سادہ معلوم ہونے والی بیماری بھی اُن کی پوری آبادی کو ختم کر سکتی ہے۔ ثقافتی طور پر بھی کوئی بھی مداخلت یا رابطہ ان کی معاشرتی زندگی اور صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘

البتہ غیر رابطہ پالیسی یا نان کانٹیکٹ پالیسی اُن لوگوں کے لیے مشکل ثابت ہو سکتی ہے جو بیرونی دُنیا سے دور رہنے والے قبائل کے قریب کی آبادیوں میں رہتے ہیں۔

ایمازون جنگل میں کیڑے مکوڑے کھا کر زندہ رہنے والا لاپتہ شخص 31 دن بعد مل گیافرانس پر ایمیزون کے جنگلات کے بیچوں بیچ ’خطرناک قیدیوں کی کالونی‘ قائم کرنے کا الزام کیوں لگایا جا رہا ہے؟جنگوں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے ارب پتیوں کے لیے پرتعیش بنکرانڈیا کا ممنوعہ جزیرہ سینٹینیل جہاں کے باسی دنیا سے میل جول نہیں چاہتے

جب توماس ہمیں اس جنگل کی اُس کھلی جگہ پر لے جاتے ہیں کہ جہاں ان کی ماشکو پیرو قبیلے سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ ایک لمحے کے لیے رُکتے ہیں اپنے ہاتھوں سے سیٹی بجاتے ہیں اور خاموشی سے اپنی سیٹی کے جواب کا انتظار کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر وہ جواب دیں، تو ہم واپس چلے جاتے ہیں۔‘

ایسے میں ہمیں صرف پرندوں اور کیڑوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ’وہ یہاں نہیں ہیں۔‘

توماس کو محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے نوئوا اوسیانیا کے رہائشیوں کو ایک مُشکل صورتِ حال میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔

وہ اپنے باغ میں ماشکو پیرو کے لیے کھانے کے پودے اگاتے ہیں، اُن کے نزدیک یہ ایک حفاظتی قدم ہے جو وہ اور دوسرے گاؤں والے اپنے پڑوسیوں کی مدد اور اپنی حفاظت کے لیے اُٹھا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کاش مجھے وہ الفاظ آتے جن سے میں ان قبائل کے لوگوں کو مخاطب کروں انھیں آواز دوں یہ کہہ سکوں کہ ’یہ کیلے لے لو، یہ تحفہ ہے۔ انھیں اپنی مرضی سے لے جاؤ، مجھے مت مارو۔‘

BBCنقشے میں جنوب مشرق پیرو کا حصہ برازیل اور بولیویا کے ساتھ نظر آتا ہےکنٹرول پوسٹ پر

گھنے جنگل کے اُس پار تقریباً 200 کلومیٹر جنوب مشرق میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ وہاں مانو دریا کے کنارے ماشکو پیرو قبیلہ ایک ایسے علاقے میں رہتا ہے جسے سرکاری طور پر فارسٹ ریزرو قرار دیا گیا ہے۔

پیرو کی وزارتِ ثقافت اور فیماناد یہاں ایک ’نومولے‘ کنٹرول پوسٹ چلاتے ہیں جہاں آٹھ اہلکار تعینات ہیں۔

یہ پوسٹ سنہ 2013 میں اُس وقت قائم کی گئی جب ماشکو پیرو اور مقامی دیہات کے درمیان جھڑپوں میں کئی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

کنٹرول پوسٹ کے سربراہ انتونیو تریگوسو اِیڈالگو کی ذمہ داری ہے کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو اور وہ حالات کی کڑی نگرانی کرتے وہیں۔

ماشکو پیرو کے افراد یہاں اکثر نظر آتے ہیں کبھی کبھار ہفتے میں کئی بار وہ سامنے آتے ہیں۔

یہ لوگ نوئوا اوسیانیا کے قریب رہنے والے ماشکو پیرو سے الگ ایک گروہ ہیں اور اہلکاروں کا ماننا ہے کہ یہ ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔

Fenamadماشکوپیرو کے لوگ

اینٹونیو کہتے ہیں کہ 'وہ ہمیشہ ایک ہی جگہ پر آتے ہیں۔ وہیں سے آوازیں لگاتے ہیں۔' وہ چوڑی مانو دریا کے پار ایک چھوٹے پتھریلے کنارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کیلے، یوکا یا گنے مانگتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 'اگر ہم جواب نہ دیں، تو وہ سارا دن وہیں بیٹھے رہتے ہیں۔'

چوکی کے پاس ایک چھوٹا سا باغ ہے جہاں وہ اپنا کھانا اگاتے ہیں۔ جب کھانا ختم ہو جاتا ہے تو وہ قریبی گاؤں سے رسد منگواتے ہیں۔

اگر وہاں سے بھی کچھ نہ ملے، تو اہلکار ماشکو پیرو لوگوں سے کہتے ہیں کہ چند دن بعد واپس آئیں۔ یہ طریقہ ابھی تک کارگر رہا ہے، اور حالیہ دنوں میں زیادہ تنازع نہیں ہوا ہے۔

اینٹونیو کے مطابق تقریباً 40 لوگ ایسے ہیں جنھیں وہ باقاعدگی سے وہاں آتے دیکھتے ہیں۔ ان میں مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیں اور وہ مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

وہ اپنے نام جانوروں کے نام پر رکھتے ہیں۔ سردار کا نام کاموتولو (شہد کی مکھی) ہے۔ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ سخت مزاج آدمی ہے اور کبھی مسکراتا بھی نہیں۔

ایک اور رہنما ٹکوٹکو (گدھ) ہے جو زیادہ مذاق کرنے والا ہے، وہ اکثر ہنستا ہے اور اہلکاروں سے ہنسی مذاق کرتا ہے۔ ایک نوجوان عورت یومکو (اژدہا) ہے، جس کے بارے میں اہلکار کہتے ہیں کہ وہ بھی خوش مزاج ہے۔

ماشکو پیرو لوگوں کو بیرونی دنیا میں زیادہ دلچسپی نہیں، مگر وہ ان اہلکاروں کی ذاتی زندگی کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں جن سے وہ ملتے ہیں۔

وہ ان سے ان کے خاندان اور رہائش کے بارے میں پوچھتے ہیں۔

جب ایک خاتون اہلکار حاملہ ہو کر چھٹی پر اپنے گھر گئی، تو انھوں نے بچے کے لیے ایک جھنجھنا تحفے میں دیا، جو شور مچانے والے بندر کے گلے کی ہڈی سے بنایا گیا تھا۔

انھیں اہلکاروں کے کپڑوں میں دلچسپی نظر آتی ہے، خاص طور پر سرخ یا سبز رنگ کے کھلے لباس میں۔

ایٹونیو کہتے ہیں کہ 'جب ہم ان کے قریب جاتے ہیں، تو ہم پرانے، پھٹے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں جن کے بٹن ٹوٹے ہوتے ہیں، تاکہ وہ ان کپڑوں کو نہ لیں۔'

پہلے وہ اپنے روایتی کپڑے پہنتے تھے جو وہ خود کیڑوں کے ریشے سے بناتے تھے اور وہ بہت خوبصورت ہوتے تھے۔ ان میں سکرٹس ہوتی تھیں۔

چوکی کے ایک اہلکار ایڈوارڈو پانچو پیسارلو بتاتے ہیں کہ 'اب ان میں سے کچھ وہ کپڑے پہنتے ہیں جو انھیں وہاں سے گزرنے والی سیاحتی کشتیوں کے لوگ دیتے ہیں۔ ان میں کپڑے اور جوتے ہوتے ہیں۔'

Fenamadماشکو پیرو کے لوگوں کے بارے میں ابھی بھی کچھ معلوم نہیں ہے

لیکن جب بھی ٹیم جنگل کی زندگی کے بارے میں کچھ پوچھتی ہے، تو ماشکو پیرو فوراً بات بدل دیتے ہیں۔

اینٹونیو بتاتے ہیں کہ 'ایک بار میں نے ان سے پوچھا کہ وہ آگ کیسے جلاتے ہیں، تو اانھوں نے کہا، 'تمہارے پاس لکڑیاں ہیں، تم خود جانتے ہو۔' میں نے اصرار کیا تو وہ بولے، 'تمہارے پاس تو یہ سب چیزیں ہیں، پھر کیوں جاننا چاہتے ہو؟'

اگر کوئی فرد کچھ عرصے کے لیے نظر نہ آئے تو اہلکار اس کے بارے میں پوچھتے ہیں۔

اگر ماشکو پیرو کہیں کہ 'نہ پوچھو'، تو اہلکار سمجھ جاتے ہیں کہ وہ شخص مر چکا ہے۔

کئی سالوں کے رابطے کے باوجود، اہلکار ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ ماشکو پیرو کیسے زندگی گزارتے ہیں یا وہ جنگل میں ہی کیوں رہنا چاہتے ہیں۔

یہ مانا جاتا ہے کہ وہ اُن مقامی لوگوں کی اولاد ہیں جو انیسویں صدی کے آخر میں 'ربڑ پلانٹیشن کے سرداروں' کے ظلم و قتلِ عام سے بچنے کے لیے جنگل کے اندرونی حصوں میں پناہ گزین ہوئے تھے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ماشکو پیرو قوم کا تعلق جنوب مشرقی پیرو کی مقامی قوم 'یینے' سے ہے۔

وہ اسی زبان کے ایک قدیم لہجے میں بولتے ہیں، جسے ایسے اہلکار جو خود بھی یینے ہیں، سمجھنے لگے ہیں۔

تاہم یینے لوگ ہمیشہ سے دریا کے ملاح، کسان اور ماہی گیر رہے ہیں، جبکہ ماشکو پیرو کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ ہنر بھول چکے ہیں۔

ممکن ہے وہ اپنی حفاظت کے لیے خانہ بدوش اور شکار و جنگلی پھل جمع کرنے والے بن گئے ہوں۔

اینٹونیو نے کہا: 'اب میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کسی جگہ ٹھہرتے ہیں، وہاں ایک کیمپ لگاتے ہیں جہاں ان کا پورا خاندان اکٹھا ہوتا ہے۔

'اور جب وہ اردگرد کے علاقے میں سب کچھ شکار کر لیتے ہیں، تو کسی اور جگہ چلے جاتے ہیں۔'

Fenamadماشکوپیرو سے تعلق رکھنے والے افراد ایمیزون کے جنگلوں مین اس طرح کے بھالے اور نیزے سے شکار کرتے ہیں

فینامیڈ کے اسرائیل آکیسے کا کہنا ہے کہ مختلف اوقات میں 100 سے زیادہ لوگ اس کنٹرول چوکی پر آ چکے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'وہ اپنی خوراک میں تنوع لانے کے لیے کیلے اور کیساوا (ایک قسم کی جڑ والی فصل) مانگتے ہیں، مگر کچھ خاندان اس کے بعد کئی مہینوں یا حتیٰ کہ سالوں تک غائب رہتے ہیں۔

'وہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ 'میں چند دنوں کے لیے جا رہا ہوں، پھر واپس آؤں گا' اور الوداع کہہ کر چلے جاتے ہیں۔'

اس علاقے کے ماشکو پیرو کے لوگ کافی حد تک محفوظ ہیں، لیکن حکومت ایک سڑک بنا رہی ہے جو اس علاقے کو ایک ایسے خطے سے جوڑے گی جہاں غیر قانونی کان کنی عام ہے۔

تاہم اہلکاروں پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ ماشکو پیرو لوگ بیرونی دنیا کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔

اینٹونیو نے بتایا: 'میرے چوکی پر کام کے تجربے سے میں نے یہ جانا ہے کہ وہ 'مہذب' بننا نہیں چاہتے' یعنی مہذب دنیا کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔

BBCاینٹونیو کہتے ہیں کہ وہ اکثر 40 افراد کو پول کے قریب دیکھتے ہیں

تاہم وہ کہتے ہیں کہ 'شاید ان کے بچے چاہیں، جب وہ بڑے ہوں اور ہمیں کپڑے پہنے دیکھیں، شاید آج نہیں دس یا بیس سال بعد۔ لیکن بڑے نہیں چاہتے۔ وہ تو ہمیں یہاں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔'

2016 میں حکومت نے ایک بل منظور کیا تھا جس کے تحت ماشکو پیرو کے محفوظ علاقے کو وسیع کر کے اس میں نیووا اوشیانیا کو بھی شامل کیا جانا تھا۔ تاہم یہ بل آج تک قانون کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔

توماس کہتے ہیں: 'ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہماری طرح آزاد رہیں۔

'ہم جانتے ہیں کہ وہ برسوں سے بہت پرسکون زندگی گزار رہے تھے، اور اب ان کے جنگل ختم کیے جا رہے ہیں، یعنی برباد ہو چکے ہیں۔'

انڈیا کا ممنوعہ جزیرہ سینٹینیل جہاں کے باسی دنیا سے میل جول نہیں چاہتے’برسوں تک ہم صرف انسانوں سے خوفزدہ تھے‘: روسی خاتون اپنے بچوں کے ساتھ انڈیا کی غار میں کیوں رہتی تھیں گھریلو لڑکی سے انڈیا کی پہلی خاتون ’باغی‘ کمانڈر بننے والی شمبھالا دیوی نے 25 برس جنگل میں گزارنے کے بعد ہتھیار کیوں ڈالے؟انڈین جزیرے پر ’ہانگ کانگ طرز‘ کا منصوبہ جسے مقامی قبیلوں کے لیے ’سزائے موت‘ کہا جا رہا ہےانڈیا میں ماؤ نواز ’باغیوں‘ کے خلاف جنگ جس میں دہائیوں سے خونریزی جاری ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More