صدر کی گاڑی سے ٹکر کے بعد اے کے 47 سے اندھا دھند فائرنگ: انڈین پارلیمنٹ پر حملے کی کہانی

بی بی سی اردو  |  Dec 13, 2025

Getty Images

13 دسمبر 2001 کو دہلی کی فضا میں خنکی طاری تھی۔

انڈین پارلیمنٹ کا موسمِ سرما کا اجلاس جاری تھا اور خواتین ریزوریشن بل پر گذشتہ کئی دنوں سے اپوزیشن اور حکومت کے مابین ہنگامہ جاری تھا۔

پارلیمنٹ کے احاطے میں، ہال کے اندر اور باہر سیاسی رہنما اور صحافیوں کی آمدورفت تھی۔ سب آپس میں بات چیت کر رہے تھے اور کوئی بھی چیز غیر معمولی نہیں تھی۔

سرکاری گاڑیوں کا ہجوم

انڈیا کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور قائد حزب اختلاف سونیا گاندھی بھی اپنے اراکین کے ساتھ پارلیمنٹ پہنچے۔

لوک سبھا کی کارروائی دن گیارہ بجے ملتوی کر دی گئی اور اس کے بعد وزیر اعظم واجپائی اور قائد حزب اختلاف سونیا گاندھی اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہو کر پارلیمنٹ سے چلے گئے۔

باہر پارلیمنٹ اراکین کو لے جانے والی سرکاری گاڑیوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی اور اسی دوران نائب صدر اور اُن کا عملہ بھی پارلیمنٹ سے نکلنے کے لیے تیار تھا۔

پارلیمنٹ کے اندرونی دروازے کے باہر گاڑی کھڑی کر کے سکیورٹی گارڈ نائب صدر کے باہر آنے کا انتظار کر رہے تھے۔

ہال سے باہر نکلتے ہوئے صحافی مختلف سیاسی رہنماؤں سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔

Getty Imagesحملہ آوروں کی کار میں پارلیمنٹ میں انٹری

سینیئر صحافی سومت اوستھی ایوان کے گیٹ نمبر ایک کے باہر ایک وزیر سے گفتگو کر رہے تھے۔

صحافی سومت اوستھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اور میرے کچھ ساتھی یونین وزیر مدن لال کھورانہ سے خواتین کے ریزرویشن بل کے بارے معلومات حاصل کر رہے تھے۔ ہم اس بارے میں بات کر رہے تھے کہ آیا یہ بل ایوان میں پیش کیا جا سکتا ہے، کیا اس پر بحث ہو گی۔ تب ہی ہمیں ایک گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔‘

صبح ساڑھے گیارہ بجے نائب صدر کی حفاظت پر مامور سکیورٹی گارڈز اُن کی گاڑی کے قریب کھڑے ان کے منتظر تھے۔

اتنے میں ایک ایمبیسڈر کار تیزی سے گیٹ نمبر 12 کے قریب پہنچی۔ اس گاڑی کی رفتار وہاں موجود دیگر سرکاری گاڑیوں سے زیادہ تھی۔

کار کی غیر معمولی رفتار دیکھ کر پارلیمنٹ میں سکیورٹی پر مامور جگدیش پرساد خالی ہاتھ ہی تیزی سے گاڑی کی جانب بھاگے۔

Getty Imagesجب پارلیمنٹ پر پہلی گولی چلی

یہ وہ پہلا موقع تھا جب وہاں موجود سکیورٹی پر مامور افراد کو اندازہ ہوا کہ جمہوریت کا مرکز سمجھی جانے والی اس عمارت کے گارڈز کے پاس ہتھیار ہی نہیں۔

جگدیش یادو کو بھاگتا دیکھ کر دیگر سکیورٹی گارڈ بھی اُس تیز رفتار کار کی جانب بھاگے۔ اس وقت تک وہ کار نائب صدر کی گاڑی سے ٹکرا گئی تھی۔

حملہ آوروں نے نائب صدر کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے بعد اے کے 47 سے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ وہ ہینڈ گرنیڈ جیسے جدید ہتھیاروں سے لیس تھے۔

گولی چلنے کی آواز سنتے ہی پارلیمنٹ کے اندر عمارت کے مختلف بلاکس میں موجود افراد نے طرح طرح کے اندازے لگانے شروع کر دیے۔ کچھ کا خیال تھا کہ کسی نے قریبی گردوارے میں گولی چلائی جبکہ بعض کا خیال تھا یہ پٹاخوں کی آواز ہے۔

افضل گورو کی میت کی واپسی کا ایک بار پھر مطالبہ’جناح وندے ماترم کے خلاف تھے‘: مودی کی لوک سبھا میں تقریر اور 150 برس پرانے قومی گیت پر تنازعکیا ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ ایک مسلمان نے لگایا تھا؟’مسلمانوں کی آبادی 18 فیصد مگر کوئی رہنما نہیں۔۔۔‘ انڈیا کو قومی سطح پر کوئی مسلم رہنما کیوں نہ مل سکا؟

وہاں موجود کیمرہ مین اور دیگر سکیورٹی گارڈز فائرنگ کی آواز کی جانب بھاگے، وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہاں کیا ہوا ہے۔

صحافی سومت اوستھی کا کہنا ہے کہ جیسے ہی میں نے گولی چلنے کی پہلی آواز سنی میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ کیا ہوا اور آواز کہاں سے آئی، اس پر انھوں نے جواب دیا کہ یہ بہت عجیب ہے، پارلیمنٹ کے قریب ایسی آواز کیسے سنائی دے سکتی ہے؟

انھوں نے بتایا کہ اس وقت وہاں موجود سکیورٹی ٹیم کے رکن نےکہا کہ چڑیوں کو بھگانے کے لیے ہوا میں گولی چلائی گئی تاہم، اگلے ہی لمحے میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا پینٹ اور کالی ٹی شرٹ پہنے راجیہ سبھا کے گیٹ نمبر ایک کی طرف بھاگ رہا ہے۔ اُس کے ہاتپ میں ایک بندوق ہے اور وہ ہوائی فائرنگ کر رہا ہے۔

Getty Images

پارلیمنٹ پر حملے کے وقت کئی صحافی بھی بیرونی احاطے میں موجود تھے اور اپنی براہِ راست نشریات کے لیے موجود او بی وین کے ذریعے سیاسی رہنماؤں کے انٹرویو نشر کر رہے تھے۔

2001 میں سٹار نیوز چینل کے لیے پارلیمنٹ سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی منورنجن بھارتی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں پارلیمنٹ پر حملے سے چند لمحے پہلے ایک او بی وین سے لائیو رپورٹنگ کر رہا تھا۔ اس وقت میرے ساتھ بی جے پی کے رہنما کے شیوراج سنگھ چوہان اور کانگریس کے ایک رہنما کھڑے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ میں ان دونوں لیڈروں کو اپنی ماروتی وین میں اتارنے گیا تھا۔ میں انھیں چھوڑ کر جانے ہی والا تھا جب میں نے گولی چلنے کی آواز سنی۔

منورنجن بھارتی نے کہا کہ ’جیسے ہی میں نے گولی چلنے کی آواز سنی میں بھاگا اور لائیو چلا گیا۔ ملائم سنگھ یادو کا بلیک کیٹ کمانڈو میرے پیچھے کھڑا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ جناب پارلیمنٹ کے باہر سے لائیو رپورٹنگ کر رہا ہوں۔ میرے پیچھے حملہ آور پر نظر رکھنا۔‘

دھماکوں اور گولیوں کی زور دار آوازیں آ رہی تھیں۔

حملہ آوروں کے پاس خود کار اسلحہ موجود تھا اور مسلسل گولیاں چلنے کی آواز سے پارلیمنٹ میں موجود افراد کے چہروں پر خوف چھایا ہوا تھا۔

Getty Images

پارلیمنٹ کے اندر سے باہر تک افراتفری تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ دارصل ہوا کیا۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں واقعے کی تفصیلات بیان کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

حملے کے وقت ہال کے اندر وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی اور پرمود مہاجن سمیت کئی بڑے لیڈر موجود تھے تاہم کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

صحافی سومت اوستھی کا کہنا ہے کہ میں گیٹ نمبر ایک پر کھڑا تھا، میں نے یونین وزیر مدن لال کھورانہ سے کہا کہ اس سیکورٹی گارڈ کو دیکھو، اسے کیا ہوا؟

میں نے کہا کہ ’وہ کیوں گولی چلا رہا ہے؟ مجھے لگا کہ وہ کسی کا باڈی گارڈ ہو گا۔ اتنے میں پارلیمنٹ کے سکیورٹی گارڈ نے ہمیں کہا کہ نیچے ہو جائیں ورنہ گولی لگ جائے گی۔‘

پہلا حملہ آور کیسے ہلاک ہوا؟

گولی چلنے کے بعد سے پارلیمنٹ میں افراتفری تھی۔ پارلیمانی امور کے وزیر پرمود مہاجن، نجمہ ہپت اللہ اور مدن لال کھورانہ جیسے سینیئر لیڈر اس وقت پارلیمنٹ میں موجود تھے۔

منورنجن بھارتی کہتے ہیں کہ ’اس وقت پارلیمنٹ میں سیکورٹی گارڈز کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔ پارلیمنٹ میں سی آر پی ایف بٹالین موجود تھی تاہم انھیں جائے وقوعہ تک پہنچنے کے لیے آدھا کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑا۔ گولیوں کی آواز سنتے ہی وہ دوڑتے آئے۔‘

اُس وقت نائب صدر کے سکیورٹی گارڈز اور حملہ آوروں کے درمیان جاری جھڑپ کے دوران سکیورٹی گارڈ متبر سنگھ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر گیٹ نمبر 11 کو بند کیا۔

Getty Imagesگیٹ نمبر ایک کا سنسنی خیز منظر

ہوا کچھ یوں کے حملہ آوروں نے اُن پر گولی چلا دی تاہم گولی لگنے کے باوجود متبر سنگھ نے اپنی واکی ٹاکی پر الرٹ بھیج دیا اور پارلیمنٹ کے تمام دروازے فوراً بند کر دیے گئے۔

اس کے بعد حملہ آوروں نے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لیے گیٹ نمبر ایک کا رخ کیا۔ گولیاں چلنے کی آواز سنتے ہی گیٹ نمبر ایک پر موجود سکیورٹی گارڈز نے وہاں موجود لوگوں کو قریبی کمروں میں چھپا لیا اور حملہ آوروں سے مقابلہ کرنے لگے۔

سب سے بڑی تشویش

سومیت اوستھی بھی کمروں میں چھپے اُن لوگوں میں شامل تھے۔ اوستھی کہتے ہیں کہ ’مدن لال کھورانہ کے ساتھ مجھے بھی اندر کر کےگیٹ بند کر دیا گیا۔ ہال میں، میں نے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کو کہیں جاتے ہوئے دیکھا۔ ان کے چہرے پر پریشانی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا لیکن وہ میرے سوال کا جواب دیئے بغیر وہاں سے چلے گئے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کے بعد اراکین پارلیمنٹ کو سینٹرل ہال اور دیگر جگہوں پر منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت میری سب سے بڑی تشویش یہ تھی کہ آیا وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اورسونیا گاندھی محفوظ ہیں یا نہیں۔ میں نے دیکھا تھا کہ وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی محفوظ ہیں۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ حملے کے بعد جوابی کارروائی کی نگرانی اڈوانی کر رہے تھے۔‘

اُسی وقت پورے ملک کے ٹی چینلز پر یہ خبر چلنے لگی کہ پارلیمنٹ پر حملہ ہو گیا۔

تاہم اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی کہ اس حملے میں کون محفوظ رہا کیونکہ ہال کے اندر موجود صحافیوں کواراکین پارلیمنٹ اور مرکزی وزرا کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی جا رہی تھیں۔

اسی دوران حملہ آوروں نے گیٹ نمبر ایک کے ذریعے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی تاہم سکیورٹی گارڈز نے وہاں موجود ایک حملہ آور کو مار گرایا۔

اُس کے جسم پر بندھی بارودی بیلٹ پھٹ گئی۔

Getty Imagesکیا اس حملے میں صحافی بھی زخمی ہوئے؟

اوستھی کہتے ہیں کہ ’ہم سب ایک کمرے میں تھے۔ وہاں میرے ساتھ 30-40 لوگ تھے۔ جیمر آن ہونے کی وجہ سے سب کے موبائل فون بند ہو گئے تھے۔ ہم دنیا سے بالکل کٹ گئے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ڈھائی گھنٹے کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ آواز اتنی زیادہ تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ پارلیمنٹ کا کوئی حصہ دھماکے سے اڑ گیا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ گیٹ نمبر ایک کے باہر ایک حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔‘

کیمرہ پرسن انامیترا چکلدار نے اس حملے کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ ’گیٹ نمبر ایک پر ایک حملہ آوروں کو مارنے کے بعد دوسرے نے ہم صحافیوں پر فائرنگ شروع کردی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک گولی نیوز ایجنسی اے این آئی کے کیمرہ پرسن وکرم بشت کی گردن میں لگی۔ دوسری گولی میرے کیمرے پر لگی اور ایک گرینیڈ بھی ہمارے قریب گرا تاہم وہ پھٹا نہیں۔ شام کو سکیورٹی فورسز نے پہنچ کر اسے ہمارے سامنے ناکارہ بنا دیا۔‘

Getty Imagesبڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کو طلب کیا گیا

شدید زخمی اے این آئی کے کیمرہ پرسن کو ہسپتال بھجوایا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی وفات ہو گئی۔

اس کے بعد چاروں حملہ آوروں نے گیٹ نمبر چار کی طرف رخ کیا۔ اس دوران تین مارے گئے اور چوتھے نے گیٹ نمبر پانچ سے ہال میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن فوجیوں نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔

اس طرح پارلیمنٹ پر ہونے والا یہ حملہ جو صبح ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوا تھا وہ انکاؤنٹر شام چار بجے تک جاری رہا۔

شام 4 سے 5 بجے کے درمیان سکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد پارلیمنٹ کے احاطے میں پہنچی اور پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔

اس حملے میں دہلی پولیس کے پانچ اہلکار، سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی ایک خاتون سیکورٹی گارڈ، راجیہ سبھا سکریٹریٹ کے دو ملازمین اور ایک مالی ہلاک ہوئے۔

Getty Imagesافضل گرو کوپھانسی

انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں چار دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔

16 دسمبر 2002 کو دہلی کی پوٹا عدالت نے چار افراد محمد افضل، شوکت حسین، افشاں اور پروفیسر سید عبدالرحمان گیلانی کو مجرم قرار دیا۔

سپریم کورٹ نے پروفیسر سید عبدالرحمان گیلانی اور نوجوت سندھو عرف افشاں گرو کو بری کر دیا تاہم محمد افضل کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔

شوکت حسین کی سزائے موت کو دس سال قید میں تبدیل کر دیا گیا۔

افضل گرو کو 9 فروری 2013 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔

افضل گورو کی میت کی واپسی کا ایک بار پھر مطالبہ’جناح وندے ماترم کے خلاف تھے‘: مودی کی لوک سبھا میں تقریر اور 150 برس پرانے قومی گیت پر تنازعحضرت بل درگاہ کے کتبے پر ’اشوک‘ کی تین شیروں والی شبیہ لگانے پر تنازع، سوشل میڈیا پر مسلمانوں کی وفاداری پر سوالات’مسلمانوں کی آبادی 18 فیصد مگر کوئی رہنما نہیں۔۔۔‘ انڈیا کو قومی سطح پر کوئی مسلم رہنما کیوں نہ مل سکا؟کیا ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ ایک مسلمان نے لگایا تھا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More