Getty Images(فائل فوٹو)
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان سرحد سے متصل شمالی اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ’ایکس‘ پر جاری بیان میں کہا ہے کہ سرحدی اضلاح میں عسکریت پسند گروہ گل بہادر کے تصدیق شدہ کیمپوں کو نشانہ بنایا گا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ 48 گھنٹوں کی جنگ بندی کے دوران ’خارجیوں‘ نے پاکستان کے اندر متعدد دہشت گرد حملے کرنے کی کوشش کی، جس کا سکیورٹی فورسز نے مؤثر جواب دیا اور 100 سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔
وزیرِ اطلاعات نے بتایا کہ گذشتہ رات ’مصدقہ‘ انٹیلیجنس رپورٹس کی بنیاد پر گل بہادر گروپ کے خلاف کارروائی کی گئی جس میں کم سے کم 60 سے 70 دہشتگرد ہلاک ہوئے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے سرکاری سطح پر پہلی مرتبہ گذشتہ رات ہونے والے ان حملوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
اس سے قبل پاکستان میں سکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ جمعے کی شب جنوبی اور شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغان علاقوں میں گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں کو درستگی کے ساتھ نشانہ بنایا گیا۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ’ایکس‘ پر جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جمعے کی شب پاکستان کی فوج نے پکتیکا میں شہری علاقوں پر فضائی حملے کیے جس کے نتیجے میں متعدد شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغان حکومت افغانستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور ان کارروائیوں کا جواب دینے کا حق محفوط رکھتی ہے۔
افغان طالبان نے اسے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کی جانے والی تمام قیاس آرائیاں اور دعوے غلط ہیں اور ان کا مقصد افغانستان کے اندر سے کام کرنے والے دہشت گرد گروپوں کی حمایت پیدا کرنا ہے۔
افغان طالبان کے ایک صوبائی عہدیدار نے بی بی سی افغان سروس کو بتایا تھا کہ جمعے کو ’پاکستان نے پکتیکا صوبے کے ارغون ضلع میں ایک قصاب کے گھر پر بمباری کی، جس میں عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔‘
https://twitter.com/TararAttaullah/status/1979480479738028164
پاکستان کی وزارت داخلہ نے گذشتہ برس عسکریت پسند گروہ ’گل بہادر گروپ‘ کا نام کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بی بی سی کو دستیاب نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کی کالعدم جماعتوں کی فہرست کے مطابق گل بہادر گروپ کا نام گذشتہ برس 25 جولائی کو اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
اس فیصلے سے دس دن قبل ہی بنوں کینٹ میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے ایک حملے کی ذمہ داری گل بہادر گروپ سے منسلک جیش فرسان محمد گروہ نے قبول کی تھی جس میں آئی ایس پی آر کے مطابق کار سوار خود کش حملہ آور سمیت دس خود کش بمبار ہلاک ہوئے تھے۔
لیکن گل بہادر کی عسکریت پسندی کی تاریخ اس سے بہت پرانی ہے جس کا آغاز سنہ 2001 میں افغانستان پر امریکہ اور نیٹو افواج کے حملے سے ہوتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب گل بہادر گروپ کا نام ’گڈ طالبان‘ سے مشہور ہوا کیونکہ شمالی وزیرستان میں فعال اس گروہ کے سربراہ نے پاکستان کی فوج پر حملوں سے اجتناب کیا۔
وہی عسکریت پسند کمانڈر اب موجودہ وقت میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑے چیلنج کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔
برطانیہ کے انفارمیشن فار رزیلینس مرکز کے افغان ویٹنس ادارہ کے اعداد و شمار کے مطابق حافظ گل بہادر گروپ نے مئی 2023 سے جولائی 2024 تک 10 خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں مجموعی طور پر 22 خودکش حملہ آوروں نے بھی حصہ لیا۔
گل بہادر کون ہیں اور ان کا نام ’گڈ طالبان‘ کیوں پڑا جبکہ وہ باضابطہ طور پر کبھی کالعدم تحریک طالبان میں شامل ہی نہیں ہوئے اور افغان طالبان کے حقانی گروپ سے ان کا کیا تعلق تھا؟
گذشتہ برس صحافی عبدالسید نے بی بی سی کے لیے اپنی تحقیق میں ان ہی سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی، جنھیں آج قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔
مدرسے کا طالبعلم عسکریت پسند کیسے بنا؟Getty Images(فائل فوٹو)
صحافی رسول داوڑ کے مطابق شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے گل بہادر نے مدرسے میں دور طالبعلمی کے فوراً بعد عسکریت پسندی اختیار کر لی تھی۔
رسول داوڑ کے مطابق گل بہادر ماضی میں دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی اہم مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان دھڑے کے فعال رکن تھے اور اس جماعت کی طلبا کی شمالی وزیرستان شاخ کے سربراہ بھی رہے۔
گل بہادر کی نجی زندگی کے بارے میں بہت زیادہ تفصیلات موجود نہیں یہاں تک کہ ان کی کوئی تصویر بھی عوامی سطح پر دستیاب نہیں۔
مقامی صحافیوں کے مطابق گل بہادر کی دو بیویاں ہیں لیکن ان کے بچوں کی درست تعداد بھی معلوم نہیں۔
گل بہادر کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق انھوں نے عسکریت پسندی کے میدان میں باضابطہ قدم 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد رکھا تھا۔
صحافی رسول داوڑ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گل بہادر نے سنہ 2001 میں افغانستان پر امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف لڑنےکے لیے جانیوالے مقامی قبائلی جنگجووں کو ’شوری مجاہدین‘ کے نام سے اکھٹا کیا۔
2001 کے بعد جب افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افغان طالبان کے حامی مقامی عسکریت پسند گروہ یکے بعد دیگرے سامنے آئے تو ان میں شوری مجاہدین ایک اہم گروہ بن گیا جس نے شمالی وزیرستان میں افغان طالبان اور القاعدہ سمیت مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کو پناہ گاہیں فراہم کیں۔
’پہلے جھڑپیں ہوتی تھیں، اب باقاعدہ جنگ جیسی صورتحال ہے‘: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کیا رُخ اختیار کر سکتا ہے؟’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟وہ جنگجو گروہ جو اس وقت افغانستان میں فعال ہیںافغان طالبان کی موجودہ حکمت عملی ماضی سے کتنی مختلف ہے؟شمالی وزیرستان اور حقانی گروپ
افغانستان میں نیٹو افواج کے خلاف طالبان کی جوابی کارروائیاں شروع ہوئیں تو ایسے میں شمالی وزیرستان ایک اہم مقام بن گیا۔
ڈاکٹر اسفند یار میر کے مطابق گل بہادر کا افغان طالبان کے نائب سربراہ سراج الدین حقانی سے قریبی تعلق تھا جو خود بھی شمالی وزیرستان میں ہی مقیم تھے۔
ڈاکٹر اسنفند یار میر کے مطابق اسی تعلق کی وجہ سے گل بہادر القاعدہ کی مرکزی قیادت کے بھی قریب ہوئے اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانیوالے اکثر اہم القاعدہ رہنما شمالی وزیرستان میں گل بہادر کے زیرکنٹرول علاقوں خصوصاً ان کے گڑھ دتہ خیل میں نشانہ بنے۔
ان کے مطابق القاعدہ کے زیادہ تر رہنما گل بہادر کی میزبانی میں رہتے تھے۔
بعض ماہرین کے مطابق شمالی وزیرستان کی اہمیت کی تین بڑی وجوہات میں علاقے کا نسبتاً آسان جغرافیہ، شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان سنہ 2008 کا امن معاہدہ اور سب سے اہم گل بہادر کی شخصیت رہی۔
پاکستان حکومت سے معاہدےGetty Images(فائل فوٹو)
ایک جانب گل بہادر القاعدہ رہنماوں کو پناہ گاہیں فراہم کر رہا تھا اور افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں کر رہا تھا تو دوسری جانب اسی گروپ نے پاکستان حکومت سے معاہدہ بھی کیا۔
یاد رہے کہ شمالی وزیرستان میں حکومت پاکستان اور مقامی طالبان کے درمیان ستمبر 2006 میں امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت تمام غیر ملکی شدت پسندوں کو علاقے سے نکالنے جبکہ طالبان اور القاعدہ عناصر کے افغانستان آنے جانے پر پابندی پر اتفاق ہوا تھا۔
حکومت نے اس یقین دہانی کے جواب میں زمینی اور فضائی فوجی آپریشن بند کرنے، قبائلیوں کی مراعات بحال کرنے اور آپریشن کے دوران قبضے میں لیا گیا سامان واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس معاہدے کی ایک اہم شق ٹارگٹ کلنگ پر پابندی بھی تھی جس کا اس معاہدے میں خصوصی طور پر ذکر کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے فریقین میں گل بہادر سمیت ملا نذیر گروپ بھی شامل تھا۔
یوں گل بہادر ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور ہونا شروع ہوا تاہم ان معاہدوں کی وجہ ایک حکمت عملی تھی۔
صحافی فیض اللہ خان کے مطابق گل بہادر پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کا مخالف نہیں تھا بلکہ اس نے ایک حکمت عملی کے تحت افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف کارروائیوں کو فوقیت دیتے ہوئے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف لڑائی سے اجتناب کیا۔
گل بہادر کی احتیاط اور حکومت سے معاہدے کی اہم وجہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کو محفوظ رکھنا بھی تھا جو افغانستان میں لڑنے والے افغان طالبان کے لیے اہم تھیں۔
دوسری جانب گل بہادر نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں رہنے والے القاعدہ اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کی جانب سے پاکستان میں حملوں کی مخالفت نہیں کی لیکن حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے گل بہادر نے عسکریت پسندوں کو شمالی وزیرستان میں حملوں سے سختی سے روکے رکھا۔
اس کی ایک مثال 2011 میں شمالی وزیرستان کے مرکز میران شاہ کے قریب تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی گرفتاری کے لیے ایک ٹھکانے پر سکیورٹی فورسز کے چھاپے کے بعد سامنے آئی جس کا ذکر پاکستانی طالبان کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسود نے 2017 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب 'انقلاب محسود' جلد اول میں کیا۔
تحریک طالبان سمیت دیگر غیر مقامی عسکریت پسندوں نے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف جوابی کارروائی کا منصوبہ بنایا تھا لیکن گل بہادر نے اسے مکمل نہیں ہونے دیا۔
اس کی تصدیق تحریک طالبان کے ایک کمانڈر نے راقم الحروف کو 2023 کے اوائل میں ہونے والے ایک انٹرویو میں بھی کی جن کے مطابق سکیورٹی فورسز پر جوابی حملے کے دوران گل بہادر نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کا سختی سے اعلان کیا اور خلاف ورزی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی۔
اس دھمکی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سکیورٹی فورسز کے خلاف طالبان کی جوابی کارروائی روک دی گئی۔ گل بہادر شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر کسی بھی حملے کو عسکریت پسندوں کے خلاف سازش قرار دیتے تھے۔
تاہم اسی دوران یہ معاہدے ٹوٹتے بھی رہے اور کئی بار گل بہادر گروپ نے حکومت پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کارروائیاں بھی کی گئیں۔
پاکستانی طالبان سے تعلق
پاکستانی طالبان نے اپنے قیام سے ہی گل بہادر گروپ کو ساتھ ملانے کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا مگر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
مفتی نور ولی محسود کی کتاب کے مطابق پاکستانی طالبان کے بانی سربراہ بیت اللہ محسود نے دسمبر 2007 میں تنظیم کے رسمی قیام سے قبل ہی حافظ گل بہادر کو ساتھ ملانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں 2008 میں پاکستان کے اہم مذہبی رہنما شیر علی شاہ اور 2009 میں القاعدہ کے مقامی سربراہ مصطفی ابویزید عرف حافظ سلطان نے بھی گل بہادر کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ضم ہونے کی کوششیں کیں جو ناکام رہیں۔
سال 2023 میں پاکستانی طالبان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے دیگر عسکریت پسندوں کی طرح گل بہادر کو بھی تحریک طالبان پاکستان میں ضم کروانے کی بھرپور کوششیں کیں جس کے لیے دونوں گروہوں کے درمیان کئی مذاکرات ہوئے۔
گل بہادر نے تحریک طالبان پاکستان کا نائب سربراہ بننے کی پیشکش بھی ٹھکراتے ہوئے شمولیت کو ایک بار پھر مسترد کر دیا۔
گل بہادر نے تمام تر قریبی تعلقات کے باوجود تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہونے سے انکار کر رکھا ہے۔ صحافی ضیا الرحمان کا ماننا ہے کہ اس کی ایک وجہ محسود اور وزیر قبائل کی روایتی رقابت ہے اور اسی وجہ سے گل بہادر تحریک طالبان کا حصہ نہیں بنتے کیونکہ شدت پسند تنظیم کی قیادت ابتدا سے ہی محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے کسی نہ کسی شدت پسند کے ہاتھ میں رہی۔
افغانستان منتقل ہو جانے اور گل بہادر گروپ کی جانب سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں کے آغاز کے بعد بھی یہ کوششیں جاری رہیں تاہم گل بہادر نے الگ تنظیم قائم رکھنے کو ہی ترجیح دی۔
محسود کے مطابق نومبر 2016 میں پاکستانی طالبان کے محسود دھڑے نے شمالی و جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کو ایک پلیٹ فارم کے تحت اکھٹا کرنے کے لیے گل بہادر کو قیادت کی پیشکش بھی کی جو اس نے ایک بار پھر مسترد کر دی۔
Getty Images(فائل فوٹو)شمالی وزیرستان سے بے دخلی
معاہدوں اور گڈ طالبان کی شہرت کے باوجود گل بہادر کے لیے شمالی وزیرستان کا ٹھکانہ محفوظ رکھنا طویل عرصے کے لیے ممکن نہ تھا۔ جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد جب زیادہ تر شدت پسند شمالی وزیرستان منتقل ہو گئے تو اس علاقے میں بھی کارروائی کے لیے دباؤ بڑھتا گیا اور پھر آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا۔
پاکستانی سکیورٹی فورسز نے 2014 میں ضرب عضب ملٹری آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کیا جس کے نتیجے میں گل بہادر سمیت تمام شدت گروہ سرحد پار افغانستان منتقل ہو گئے۔
پاکستان میں عسکریت پسندی پر گہری تحقیق رکھنے والے امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کے سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر اسفند یار میر کے مطابق افغانستان منتقل ہونے کے بعد گل بہادر گروپ کافی کمزور ہوا تھا۔
طالبان کے ساتھ گل بہادر کی واپسی
اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد گل بہادر کی افرادی اور عسکری قوت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور پھر انھوں نے پاکستان میں سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی رسول داوڑ کے مطابق اس وقت گل بہادر کے زیرقیادت دو سے ڈھائی ہزار تک شدت پسند ہیں جو سکیورٹی فورسز کے خلاف شمالی وزیرستان، بنوں، لکی مروت وغیرہ میں حملوں میں ملوث ہیں۔
سال 2023 کے اوائل میں گل بہادر گروپ نے شمالی وزیرستان اور بنوں میں ایک درجن کے قریب ذیلی گروہوں کے نام سے حملوں کی ذمہ داریاں قبول کیں۔
ان میں جیش فرسان محمد، جیش عمری، غازیانو کاروان، سفیان کاروان، اسود الخرسان، شیخ سعدی کاروان، اسود الحرب، جیش انصار المہدی خراسان وغیرہ شامل ہیں۔
یہ مختلف ذیلی گروہ بھی شاید گل بہادر نے ایک حکمت عملی کے تحت ہی قائم کیے ہیں۔
’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟وہ جنگجو گروہ جو اس وقت افغانستان میں فعال ہیںافغان طالبان کی موجودہ حکمت عملی ماضی سے کتنی مختلف ہے؟افغان طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی کہانیافغانستان میں طالبان متعدد مذہبی سکالرز کو 'گرفتار اور اغوا' کیوں کر رہے ہیں؟’پہلے جھڑپیں ہوتی تھیں، اب باقاعدہ جنگ جیسی صورتحال ہے‘: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کیا رُخ اختیار کر سکتا ہے؟