’آپریشن نہ کریں بات چیت کریں، یہ کون کہہ رہا ہے؟ وہ شخص جو کہہ رہا ہے کہ ایسی صوبائی حکومت برداشت نہیں جو آپریشن کے خلاف کھڑی نہ ہو۔ یہ سب کے لیے واضح ہے کہ کون سی سیاسی شخصیت ہے جو دہشتگردوں سے بات چیت کرنے کا کہتی ہے۔‘
یہ الفاظ پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کے ہیں جنھوں نے جمعے کو صوبے میں سکیورٹی کی صورتحال پر کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران نام لیے بغیر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور ان کی صوبائی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔
خیبر پختونخوا پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستانی فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس میں تنقید کا اصل ہدف عمران خان اور ان کی جماعت کی صوبائی حکومت ہی تھی۔
پی ٹی آئی نے لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کے بیان پر شدید ردِ عمل دیا ہے اور کہا ہے کہ ’ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کر دیا ہے کہ وہ دہشتگردی سے لڑنا چاہتے ہیں لیکن ان لوگوں کے ساتھ متحد یا اتفاق نہیں پیدا کرنا چاہتے جو کہ اگلے محاذوں پر مقیم ہیں۔‘
پی ٹی آئی کے رہنما زلفی بخاری کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’امید اور تعاون کا پیغام‘ دینے کے بجائے پاکستانی فوج کے ترجمان نے ’کم نظری پر مبنی بیان بازی‘ پر اکتفا کیا۔
وفاق میں قائم حکومت اور سیاسی و سکیورٹی مبصرین اس صوتحال پر کیا کہتے ہیں اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے بارے میں اور کیا کہا۔
فوج کے ترجمان، وزیرِ دفاع کی پی ٹی آئی حکومت پر تنقید اور عمران خان کا ردِعمل
اپنی پریس کانفرنس میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے صوبائی سیاستدانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’افواج پاکستان یہ امید کرتی ہیں کہ خیبر پختونخوا کے سیاستدان منفی سیاست، الزام تراشی اور خوارجی جرائم پیشہ مافیا کی سہولت کاری کے بجائے اپنی بنیادی ذمہ داری پر توجہ دیں گے۔‘
’امید کرتے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام کی سلامتی کے لیے افغانستان سے سکیورٹی کی بھیک مانگنے کی بجائے اس صوبے کے ذمہ داران ہوتے ہوئے آب خود اس کی حفاظت کریں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’افواجِ پاکستان واضح کرنا چاہتی ہے کہ خوارجی دہشتگردوں اور ان کے سہولت کار چاہے وہ جو بھی ہو، کسی بھی عہدے پر ہو، ان پر زمین تنگ کر دی جائے گی۔‘
BBCپی ٹی آئی نے لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کے بیان پر شدید ردِ عمل دیا ہے
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے اپنی پریس کانفرنس میں کسی بھی سیاسی شخصیت یا جماعت کا نام لینے سے اجتناب کیا مگر پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں خیبر پختونخوا میں دہشتگردی بڑھنے کا ذمہ دار پی ٹی آئی کی حکومت کو قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں چار ہزار بندہ لا کر بٹھایا گیا تھا‘ اور ’انھوں نے نئے سرے سے بھرتیاں کریں، ان کی سہولت کاری کی گئی۔‘
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے شدت پسندوں کی خیبر پختونخوا کی موجودگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح کی پناہ گاہیں انھیں صوبے کے اندر میسر ہیں، دو، تین سالوں میں ان کی پناہ گاہوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ علی امین گنڈاپور ہی تھے جن کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران یہ ہوا ہے۔‘
وزیرِ دفاع کا اشارہ پی ٹی آئی کی سابق وفاقی حکومت کے اس منصوبے کی طرف تھا جس کے تحت ’ہتھیار پھینکنے والے دہشتگردوں‘ کو صوبے میں واپس بسایا جانا تھا۔
تاہم پی ٹی آئی ان الزامات کی تردید کرتی نظر آتی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور جمعے کی رات کو ان کے ایکس اکاؤنٹ پر ان سے منسوب ایک بیان جاری کیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ ’2021 میں اس وقت کی فوجی قیادت نے ہتھیار پھینکنے والے دہشتگردوں کو واپس بسانے کا منصوبہ پیش کیا تھا، مگر اس منصوبے کو خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے ہمارے منتخب نمائندوں نے مسترد کر دیا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس منصوبے پر ہمارے دور میں عمل نہیں ہوا۔ لیکن اب حقائق کے برعکس تحریکِ انصاف کی حکومت پر سراسر جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے کہ ملک میں دہشتگردی اس دور میں بسائے گئے دہشتگردوں کی وجہ سے پیدا ہوئی۔‘
فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے: ڈی جی آئی ایس پی آر ’فیلڈ مارشل سے ملاقات‘ کے بارے میں آئی ایس پی آر کی تردید پر سہیل وڑائچ کی وضاحت: ’جن نکات کی اتنے بڑے پیمانے پر تردید کی گئی ہے ان کا ذکر تو کہیں تھا ہی نہیں‘افغانستان کا پاکستان پر فضائی حملوں کا الزام، پاکستانی فوج کے ترجمان کی تردید نہ تصدیق: ’نتائج کی ذمہ داری پاکستانی فوج پر ہو گی‘’اپنی سیاست اپنے تک رکھیں اور فوج کو اس سے دور رکھیں‘
وفاقی حکومت، پاکستانی فوج اور پی ٹی آئی درمیان تناؤ اس وقت مزید کیوں بڑھ رہا ہے اور اس کے پیچھے وجوہات کیا ہیں یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے سیاسی و سکیورٹی تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔
سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سے منسلک ریسرچ فیلو اور سکیورٹی تجزیہ کار عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ ’عسکریت پسندوں کو واپس (خیبر پختونخوا میں) بسانے کے لیے صرف پی ٹی آئی کو ذمہ دار نہیں ہے بلکہ قمر جاوید باجوہ (فوج کے سابق سربراہ) اور فیض حمید (آئی ایس آئی کے سابق سربراہ) عمران خان کے اس فیصلے کے ساتھ تھے۔‘
خیبر پختونخوا میں فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان تناؤ کیوں بڑھ رہا ہے؟
اپنی پریس کانفرنس کے دوران لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا تھا کہ گذشتہ تین ماہ میں شدت پسندی کے زیادہ تر واقعات خیبر پختونخوا میں ہوئے ہیں۔
سیاسی و سکیورٹی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی اور پاکستانی فوج کے درمیان تناؤ کا صوبے کی سکیورٹی پر مزید بُرا اثر پڑے گا۔
یہ تناؤ ایک ایسے وقت میں پیدا ہو رہا ہے جب عمران خان کی ہدایت پر علی امین گنڈاپور نے بطور وزیرِ اعلیٰ استعفیٰ دے دیا ہے اور ان کی جگہ ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سہیل آفریدی کو وزارت اعلیٰ کے لیے نیا امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔
مبصرین کے مطابق وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں تبدیلی بھی فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری رسہ کشی کے سلسلے کے ہی ایک کڑی ہے۔
سکیورٹی تجزیہ کار عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ ’علی امین گنڈاپور کو ہٹایا جانا پی ٹی آئی کے اضطراب کو ظاہر کرتا ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے خیبر پختونخوا میں تناؤ بڑھانا چاہتی ہے جو کہ پہلے سے ہی دہشتگردی کا شکار ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مزید تناؤ کا مزید بڑھنا ناگزیر ہے۔‘
دیگر تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی اور فریقین کا اپنے اپنے مقاصد کا حصول اس بڑھتی ہوئی رسہ کشی کا بنیادی سبب ہے۔
صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں بھی موجود تھے۔ انھوں نے نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’تاثر یہ ہے کہ فریقین اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
’مجھے تاثر یہی ملا ہے کہ عمران خان کا مقصد ہے کہ ان کی رہائی عمل میں لائی جائے اور اس کے لیے وہ وفاقی حکومت کو مجبور کرنا چاہ رہے ہیں اور فوج کا ہدف خیبر پختونخوا میں آپریشن کرنا اور افغانستان سے آئے ہوئے لوگوں کو ہینڈل کرنا لگ رہا ہے۔‘
محمود جان بابر کہتے ہیں کہ ’سہیل آفریدی انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر رہے ہیں اور نوجوانوں سے رابطے بڑھا سکتے ہیں۔ ان کو لانے کا مقصد وفاقی حکومت کو پریشان کرنا ہی لگ رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’صوبائی فورسز علی امین گنڈاپور کے وزارتِ اعلیٰ کے دور میں فوج کا ساتھ دے رہی تھیں۔ اب پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ جب ان کے جانے کے بعد مشکل پیدا ہو گی تو اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت یہی سوچے گی کہ اب عمران خان کے لیے تھوڑی آسانی پیدا کی جانی چاہیے۔‘
خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والی صحافی و تجزیہ کار فرزانہ علی بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ شاید اسٹیبلشمنٹ کو سہیل آفریدی بطور وزیرِ اعلیٰ پسند نہیں ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں شرکت کرنے والی فرزانہ علی کے مطابق جب سہیل آفریدی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو فوراً جواب دیا گیا کہ ’ایسے بندے کو کیسے لایا جائے گا جو ریاست کے خلاف بیان دیتا ہو۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’حکومت کو صاف کہنا کہ آگے ایسا نہیں چلے گا یا سیاسی و دہشتگردی کے گٹھ جوڑ کی بات کرنا، یہ سب باتیں صوبائی حکومت کے لیے ہی کہی گئی ہیں۔‘
Getty Imagesعبدالباسط کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مزید تناؤ کا مزید بڑھنا ناگزیر ہے‘
فرزانہ علی کہتی ہیں کہ ’واضح پیغام دیا گیا ہے کہ گورننس نہیں ہو رہی، وفاق اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون نہیں کیا جا رہا۔‘
محمود جان بابر اور فرزانہ علی دونوں ہی یہ سمجھتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ نہ قبول کیا جانا اس بات کا اشارہ ہے کہ سہیل آفریدی بطور وزیرِ اعلیٰ قابلِ قبول نہیں ہیں۔
دوسری جانب یہ تاثر بھی زور پکڑ رہا ہے کہ شدت پسندی کی لہر میں گھرا ہوا صوبہ صوبائی حکومت اور فوج کے درمیان رسہ کشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سے منسلک ریسرچ فیلو عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ ’اس صورتحال سے پہلے سے ہی خراب حالات پر مزید منفی اثر پڑے گا اور فوج کے لیے سکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہوگا۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ’دہشتگردی کا خاتمہ ضروری ہے لیکن جو سامنے آئے اسے مار کر جنگیں نہیں جیتی جاتیں، بلکہ کولیٹرل ڈیمج سے رنجشیں بڑھتی ہیں اور طویل المیعاد استحکام کے لیے سیاسی دور اندیشی ضروری ہے۔‘
وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ: ’سہیل آفریدی کا بڑا امتحان شروع، خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ پھولوں کی سیج نہیں‘علیمہ خان، اسٹیبلشمنٹ یا امن و امان: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا؟عمران خان کی رہائی کے لیے ناکام احتجاجی تحریکیں، عوامی منصوبے اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلق کا الزام: علی امین گنڈاپور کا 20 ماہ کا اقتدار کیسا رہا؟’پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے میں علیمہ خان کا بنیادی کردار ہے‘: علی امین گنڈاپور اور عمران خان کی بہن آمنے سامنے کیوں؟’یہ ویڈیو لنک ٹرائل نہیں، واٹس ایپ ٹرائل ہے‘: جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان کی پیشی کے دوران کیا ہوا؟اور اگر خان سوری بول دے تو؟