واہگہ بارڈر کے اُس پار گھمسان کا رن پڑ چکا ہے۔ قوم پرستی اور حب الوطنی کے جذبات ٹھاٹھیں مار رہے ہیں گویا کوئی بے سمت سیلاب راہ ڈھونڈنے کو سر پٹخ رہا ہو۔ انڈین میڈیا پہ امڈتی ہاہاکار اس بار پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کے انعقاد کو ہی اپنی قومی حمیت کے لیے زوال کُن قرار دے رہی ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ نریندر مودی کی جماعت بی جے پی پر بھی پاکستان بارے ’نرم‘ موقف اپنانے کا الزام لگ رہا ہے۔ کچھ پُرجوش حضرات نے تو سپریم کورٹ میں مفادِ عامہ کا کیس دائر کر کے پہلگام اور آپریشن سندور کے تناظر میں اس میچ کی منسوخی کا مطالبہ بھی کیا مگر انڈین عدالتِ عظمیٰ نے یہ پیٹیشن ہی خارج کر دی۔
ایسے میں مہاراشٹرا سے شیو سینا کے لیڈر آدتیہ ٹھاکرے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ’کیا کرکٹ اور خون ایک ساتھ بہہ سکتے ہیں؟‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ’اصل بی جے پی اقتدار میں ہوتی تو اس بار پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کی اجازت ہی نہ دیتی۔‘
گو کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچز شائقین کرکٹ کے لیے ایک نایاب شے ہیں مگر یہ ایسے کمیاب بھی نہیں کہ اپنی ندرت کے سبب کوئی ’انہونی‘ کہلا پائیں۔ بھلے دونوں ممالک کے بِیچ دوطرفہ کرکٹ معطل ہے مگر پھر بھی شائقین کو سال بھر میں ایک آدھ اتفاق یہ مقابلے دیکھنے کا ہو ہی جاتا ہے۔
اس بار مگر تناظر الگ ہے کہ مقابلے کو کرکٹنگ رقابت کی بجائے پہلگام حملوں اور آپریشن سندور کی عینک سےدیکھا جا رہا ہے اور کچھ انڈین کرکٹ مبصرین تو اپنے کرکٹ بورڈ کو ’لالچی‘ اور ’پیسوں کے لیے عزتِ نفس قربان کرنے والا‘ قرار دے رہے ہیں۔
دوسری جانب، پاکستان میں اپنے تئیں ایک لاتعلقی سی ہے جس نے بابر اعظم کی ٹی ٹونٹی سے بے دخلی کے بعد شائقین میں جنم لیا ہے۔ بھلے پچھلے چند ماہ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں پاکستان کے لیے بہت امید افزا رہے ہوں مگر شائقین کا ایک طبقہ بابر اعظم سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہے۔
Getty Imagesبھلے پچھلے چند ماہ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں پاکستان کے لیے بہت امید افزا رہے ہوں مگر شائقین کا ایک طبقہ بابر اعظم سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہے۔
اس ماحول میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ عروج پہ ہے جبکہ کرکٹ کے تزویراتی معاملات بحث سے کوسوں دور جا چکے ہیں۔ شہ سرخیاں ٹکٹوں کی فروخت میں کمی کی وجوہات ڈھونڈنے پہ مرکوز ہیں اور کوئی یہ نہیں جاننا چاہتا کہ کل کا پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ گذشتہ ایک دہائی کے باہمی مقابلوں سے مختلف کیسے ہو گا۔
پاکستانی شائقین کی ایک جنریشن وراٹ کوہلی کو اپنی ٹیم پہ بھاری پڑتا دیکھ کر جوان ہوئی ہے۔ ان آنکھوں کو پہلی بار وراٹ کوہلی کے بغیر انڈین ٹیم دیکھنا نصیب ہو گی۔ انڈین شائقین کی جانب سے ٹکٹوں کی خرید میں عدم دلچسپی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وراٹ کوہلی و روہت شرما جیسے سپر سٹارز اب کھیل کا حصہ نہیں رہے۔
دوسری جانب پاکستان کا بولنگ اٹیک ہمیشہ سے ’پیس‘ کو اپنی قوت کے طور پہ برتتا رہا ہے۔ مگر ماضی میں جس طرح کے پیس اٹیک کو راہول ڈریوڈ نے ’سیکسی‘ قرار دیا تھا، اس بار ویسا بولنگ اٹیک بھی دیکھنے کو نہ ملے گا۔
حریفوں کے لیے ’ناقابلِ پیش گوئی‘ بنتا پاکستان’پاکستان اب صرف 11 کھلاڑی نہیں، ایک ٹیم ہے‘پاکستان سے میچ نہ کھیلا تو ٹورنامنٹ سے باہر ہو جائیں گے: بی جے پی رُکن پارلیمنٹ انوراگ ٹھاکرجب افغانستان کو ایشیا کی ’دوسری بہترین ٹیم‘ قرار دیے جانے پر پاکستانی کپتان مسکرا دیے
مائیک ہیسن کی سٹریٹیجی پہ چلتی پاکستانی ٹیم کا پیس پہ انحصار اب فقط اتنا ہی ہے کہ اگر کہیں پچ سے کچھ تائید حاصل ہو تو نئی گیند پھینکنے کے لیے ایک آدھ فاسٹ بولر بھی ٹیم کا حصہ ہونا چاہیے جو ڈیتھ اوورز میں بھی بلے بازی کے لیے کچھ مشکل پیدا کر سکے۔
ماضی میں ہمیشہ سپیشلسٹ بلے بازوں اور ماہر بولرز پہ انحصار رکھنے والی پاکستانی حکمتِ عملی اب یکسر بدل چکی ہے اور تزویراتی پلڑا آل راؤنڈ صلاحیتوں کی جانب جھک چکا ہے۔
حالیہ پاکستانی الیون کے توازن کا خاصہ ہے کہ یہ محض دو ریگولر سپنرز شامل کرنے کے بعد بھی سپن کے پورے بیس اوورز پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جو نو آموز انڈین بلے بازوں کی جارحیت کو بخوبی پرکھ سکتا ہے۔
Getty Imagesپاکستانی شائقین کی ایک جنریشن وراٹ کوہلی کو اپنی ٹیم پہ بھاری پڑتا دیکھ کر جوان ہوئی ہے۔ ان آنکھوں کو پہلی بار وراٹ کوہلی کے بغیر انڈین ٹیم دیکھنا نصیب ہو گی
عرب امارات کے میدان کبھی بھی بلے بازی کی ویسی ’جنت‘ نہیں رہے جو دنیا کے دیگر خطوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس اعتبار سے یہاں کے مسابقتی مجموعے بھی ویسے خطیر نہیں ہوتے جن کے شائقین عموماً عادی ہوتے ہیں۔
سو، یہاں پاکستان کا بہترین داؤ ٹاس پہ ہو گا کہ اگر ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستانی بلے باز ایک قابلِ قدر مجموعہ جوڑنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر پاکستانی سپن کا جال انڈین بیٹنگ کو سکور بورڈ کے دباؤ میں لا سکتا ہے۔
دوسری جانب سوریا کمار یادیو بھی اسی امکان سے احتراز کے خواہاں ہوں گے کہ وہ پاکستان کے سپن اٹیک کے خلاف پہلے بیٹنگ کو ترجیح دے کر اس خدشے کو مٹانا چاہیں گے جو پریشر میچ میں تعاقب کے دوران ان کے بلے بازوں کو دامن گیر ہو سکتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان مقابلوں کی جو تاریخ ہے، اس کے تناظر میں دونوں اطراف کھلاڑیوں پہ نفسیاتی دباؤ یکساں ہی رہتا ہے مگر اس بار اپنے شائقین کی بے اعتنائی کے طفیل پاکستان اس دباؤ سے تقریباً آزاد ہو چکا ہے جبکہ انڈین الیون کو یہاں صرف میچ ہی نہیں جیتنا بلکہ آدتیہ ٹھاکرے کے اس سوال کا جواب بھی دینا ہے کہ کیا کرکٹ اور خون اکٹھے بہہ سکتے ہیں۔
انڈین ٹیم جانتی ہے کہ اس بار شکست کا مطلب محض میدان پہ ہار نہیں، بلکہ اپنے شائقین کی نظریاتی یلغار کے سامنے بھی ایسی ہار ہو گی جو انڈین کرکٹ کلچر میں عموماً پُتلے نذرِ آتش کرنے اور کھلاڑیوں کے گھروں پہ پتھراؤ تک پہنچ جایا کرتی ہے۔
پاکستان سے میچ نہ کھیلا تو ٹورنامنٹ سے باہر ہو جائیں گے: بی جے پی رُکن پارلیمنٹ انوراگ ٹھاکر’پاکستان اب صرف 11 کھلاڑی نہیں، ایک ٹیم ہے‘حریفوں کے لیے ’ناقابلِ پیش گوئی‘ بنتا پاکستانسہ فریقی کرکٹ سیریز کے فائنل میں پاکستان کی جیت اور محمد نواز کے چرچے: ’کوئی پوچھے تو کہنا نواز آیا تھا‘’پاکستان اب نتائج کے جواز میں کم از کم ناتجربہ کاری کا لفظ نہیں لا پائے گا‘فیصل آباد میں 17 سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا اعلان: وہ گراؤنڈ جہاں انگلش کپتان نے پاکستانی امپائر سے معافی مانگی تھی