دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور ایمان مزاری کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

ہماری ویب  |  Sep 11, 2025

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ماہرنگ بلوچ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے کیس کی سماعت کے دوران غیر معمولی صورتحال پیدا ہو گئی۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں ہوئی جہاں ایڈووکیٹ ایمان مزاری عدالت میں پیش ہوئیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس اور ایمان مزاری کے درمیان تلخ مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "اب اس کیس میں اگر کوئی آرڈر پاس کروں گا تو مس مزاری نیچے جا کر پروگرام کر دیں گی کہ یہاں ڈکٹیٹر بیٹھا ہے۔"

ایمان مزاری نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی جو قانون کے دائرے سے باہر ہو۔ ان کا مؤقف تھا کہ"میں نے جو بات کی وہ ذاتی حیثیت میں کی تھی، اس کا اثر میرے کلائنٹ کے کیس پر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو مجھ سے کوئی تعصب ہے تو اسے کیس پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔ میں یہاں بریف لے کر آئی ہوں، ذاتی حیثیت میں نہیں۔"

چیف جسٹس نے کہا کہ "آپ نے کمنٹ کردیا کہ میں جج نہیں، ڈکٹیٹر بیٹھا ہوا ہوں۔ کیوں نا آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے؟"

اس پر ایمان مزاری نے مؤقف اختیار کیا کہ"میں نے کوئی بات آئین و قانون کے خلاف نہیں کی۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ توہین عدالت کی کارروائی کرنی ہے تو ضرور کریں۔ مجھے آئین نے آزادی اظہار رائے دی ہے اور میں نے وہی استعمال کیا ہے۔"

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ"ہادی صاحب! سمجھائیں اسے، کسی دن میں نے پکڑ لیا نا۔"

ایمان مزاری نے اس پر جواب دیا کہ"اگر یہ اسٹیج آگئی ہے کہ عدالتیں وکلا کو دھمکیاں دیں گی تو پھر توہین عدالت کی کارروائی کرلیں۔"

دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ ماہرنگ بلوچ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے پہلے کابینہ کی سب کمیٹی میں جانا ضروری ہے۔

عدالت نے اس سلسلے میں رپورٹ وکلا کو فراہم کرنے کی ہدایت کی اور مزید سماعت ملتوی کردی۔

بی وائی سی قیادت کا مزید 15 روزہ ریمانڈ منظور

دوسری جانب کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی عدالت میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بی وائی سی کی گرفتار قیادت کو پیش کیا گیا۔ پیش ہونے والوں میں بیبو بلوچ، گلزادی، ماما غفار بلوچ،صبغت اللہ شاہ جی اور بیبرگ بلوچ بھی شامل تھے۔

پولیس کی استدعا پر بی وائی سی کی قیادت کو مزید 15 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More