بلن شاہ جب مئی 2022 میں پہلی بار نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے میئر بنے تو یہ سب کے لیے حیران کُن تھا۔
بلن شاہ نے نیپال کی کانگریس پارٹی کی معروف رہنما سرجنا سنگھ کو شکست دی تھی۔ اس مقابلے میں بلن شاہ کو 61,767 ووٹ ملے تھے جبکہ ان کی حریف سریجن سنگھ 38,341 ووٹ حاصل کر پائی تھیں۔
بلن شاہ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اُترے تھے اور انھوں نے میئر کے مقابلے میں حصہ لینے والی نیپال کی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو شکست دے کر خود کو منوایا تھا۔
بلن شاہ ماضی میں ایک مقبول ریپر تھے اور جب انھوں نے کھٹمنڈو کے میئر کے انتخابات میں حصہ لیا تو ان پر کافی بات چیت ہوئی تھی۔
بلین شاہ کا تذکرہ نہ صرف نوجوانوں میں ہو رہا تھا بلکہ نیپال سے باہر رہنے والے بھی ان سے متعلق بات کر رہے تھے۔
اس وقت بلن شاہ کی عمر صرف 32 سال تھی۔
سنہ 2017 میں نیپال کے بلدیاتی انتخابات کے بارے میں بلن شاہ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا تھا کہ ’میں آج ووٹ نہیں دوں گا، میں امیدوار نہیں ہوں، میں سول انجینیئرنگ میں گریجویٹ ہوں اور سٹرکچرل انجینیئرنگ میں ماسٹرز کر رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ملک کیسے بنانا ہے، میں اگلے الیکشن میں اپنے لیے ووٹ ڈالوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا ملک ترقی کرے اور اس کے لیے میں کسی اور پر انحصار نہیں کر سکتا۔‘
اور پھر اس کے بعد ایسے ہی ہوا۔
بلن شاہ کون ہیں؟
بلن شاہ کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے اور نہ ہی اُن کی کوئی تنظیم نہیں۔ اُن کا کوئی خاص سیاسی تجربہ بھی نہیں ہے۔ میئر کے مقابلے میں ان کی جیت سے قبل یہ سوال پوچھا جا رہا تھا کہ ایسے میں کیا وہ کھٹمنڈو جیسے دارالحکومت کو سنبھال سکیں گے؟
بلن شاہ کے بارے میں ایسے سوالات اٹھتے رہے ہیں لیکن اب نیپال میں حکومت گرانے والے نوجوان بلن کو ایک نئے کردار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
نیپال میں جب ’جین زی‘ تحریک شروع ہوئی تھی تو سوشل میڈیا پر نوجوان بلن شاہ سے اپیل کر رہے تھے کہ وہ کھٹمنڈو کے میئر کے عہدے سے استعفیٰ دیں اور احتجاج کی قیادت سنبھالیں۔ بلن شاہ نیپال میں ’جین زی‘ تحریک کی حمایت کر رہے تھے لیکن وہ سڑکوں پر نہیں آئے۔
جب منگل کے روز نیپال کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دیا تو بلن شاہ نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’میں پہلے ہی واضح کر چکا تھا کہ یہ ’جین زی‘ کی تحریک ہے، پیاری ’جین زی‘ آپ کے قاتل نے استعفیٰ دے دیا، اب صبر کرنے کی ضرورت ہے، ملکی املاک کا نقصان ہمارا نقصان ہے۔ اب آپ کی نسل ملک کی قیادت کرے گی لیکن آرمی چیف کے ساتھ ضروری بات چیت کے لیے تیار رہیں۔‘
نیپال میں مظاہرے: وزیر اعظم کے استعفے کے بعد پارلیمنٹ کی عمارت نذرِ آتش، فوج کی مظاہرین کو بات چیت کی دعوتبنگلہ دیش کے طلبہ جو عمران خان اور اردوغان کی طرح مقبول سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیںبنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے: ان والدین کا دکھ جنھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کھو دی’یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا‘: بنگلہ دیش میں عوام کو حسینہ واجد کی حکومت پر اتنا غصہ کیوں ہے؟
بلن شاہ سنہ 1990 میں کھٹمنڈو میں پیدا ہوئے۔ بلن کے والد رام نارائن شاہ حکیم (دیسی دوائیوں سے علاج کے ماہر) ہیں اور ان کی والدہ کا نام دھرو دیوی شاہ ہے۔
نیپال کے اخبار مائی رپبلک نے لکھا ہے کہ بلن بچپن سے ہی موسیقی کے شوقین تھے اور انھیں ٹوپیاں پہننے کا شوق تھا۔
وہ ایک سٹرکچرل انجینیئر، ریپر، اداکار، میوزک پروڈیوسر، نغمہ نگار اور شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
بلن شاہ نے وائٹ ہاؤس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کھٹمنڈو) سے سول انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور وسوسورایا نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کرناٹک سے سٹرکچرل انجینیئرنگ میں ماسٹرز کیا۔
بلن کالج میں دوران تعلیم بھی طلبہ سیاست میں سرگرم رہے لیکن انھوں نے انتخابی سیاست کا آغاز 2022 میں نیپال کے بلدیاتی انتخابات سے کیا تھا۔
بلن کی مدھیسی شناختGetty Imagesبلن شاہ نیپال کی جین زی میں کافی مقبول ہیں
جنک پور کے سینیئر صحافی روشن جنکپوری کا کہنا ہے کہ بلن کو کوئی کسی سیاسی پس منظر نہیں۔ بلن کے والد دیسی دوائیوں سے لوگوں کا علاج کرتے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ سبینا کفلے پبلک ہیلتھ ورکر ہیں۔ بلن کے بھائی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، بہنوئی بینکر اور بہن پینٹر ہیں۔
روشن جنکپوری کا کہنا ہے کہ 2015 میں انڈیا کی جانب سے غیر اعلانیہ سرحد کی بندش کے دوران بلن کافی سرگرم تھے۔ نیپال میں زلزلے کے دوران بھی بلن لوگوں کو امدادی سامان پہنچاتے رہے۔
بلن کا ماننا ہے کہ کسی بھی شہر کا میئر کسی کمپنی کے سی ای او کی طرح ہوتا ہے اور اس کا موازنہ کسی سیاسی عہدے سے نہیں کیا جا سکتا۔
بلن کی تقاریر بھی نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں کیونکہ وہ حکومت کے خلاف کھل کر بولتے رہے ہیں۔
بلن اکثر سیاہ چشمہ پہنے رہتے ہیں اور ان کے کئی گانے بھی کافی مقبول ہوئے ہیں جن میں عام نیپالی بوبا، پولیس پتریکار، نیپال ہسیکو شامل ہیں۔ ان گانوں میں انھوں نے نیپال کی سماجی اور سیاسی صورتحال پر تبصرہ کیا ہے۔
نیپال کے علاقے سرلاہی سے تعلق رکھنے والے ایم پی امریش سنگھ کا کہنا ہے کہ بلن کو انٹرنیٹ سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
امریش سنگھ کا کہنا ہے کہ اُن کی نظر میں بلن نے بطور میئر اپنے دور میں زیادہ کام نہیں کیا ہے، ’لیکن یہ سچ ہے کہ بلن حکومت کے خلاف بولتے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ اولی کو لیپولیکھ میں لڑنے جانا چاہیے۔ کوئی نہیں جانتا کہ بلن شاہ کا نظریہ کیا ہے۔‘
نیپال کی سیاست میں، مدھیسی شناخت والے کسی رہنما کا کھٹمنڈو میں مقبول ہونا بڑی بات ہے۔
تاہم وجے کانت کرنا بلن شاہ کی مدھیسی شناخت کو مسترد کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بلن کھٹمنڈو کے نیواری علاقے میں پیدا ہوئے ہیں اور وہ کبھی بھی مدھیسیوں کے مسائل کے لیے نہیں کھڑے ہوئے ’ظاہر سی بات ہے آپ مدھیسی سیاست کر کے پہاڑیوں کے رہنما نہیں بن سکتے۔ بلن نے کبھی مدھیسیوں کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔ جب 2015 میں مدھیسیوں کی تحریک کو دبایا گیا تو بلن نے اس بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا۔‘
بلن کی بڑھتی مقبولیتGetty Imagesنیپال میں پرتشدد احتجاج کے بعد وزیر اعظم مستعفی ہو گئے تھے
نیپال کے معروف مفکر اور مصنف سی کے لال بلن شاہ کے عروج کا موازنہ یوکرین کے ولادیمیر زیلنسکی سے کرتے ہیں۔ زیلنسکی صدر بننے سے پہلے ایک مزاحیہ اداکار تھے۔
سی کے لال کہتے ہیں کہ ’اگر ہم یوکرین میں زیلنسکی کے عروج کو دیکھیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ایسی تحریکوں سے ایک پاپولسٹ لیڈر سامنے آتا ہے۔ لیکن بلن کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ان کی کوئی تنظیم ہے اور نہ ہی کوئی نظریہ۔ بعض اوقات کسی ہجوم سے نکل کر آنے والی قیادت سے بہت زیادہ تبدیلی کی توقع رکھنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔‘
حالیہ برسوں میں جب بھی نیپال میں متبادل سیاست کی بات ہوئی ہے تو اکثر بلن شاہ کا نام آتا ہے۔ لوگ آخر بلن شاہ پر اتنا بھروسہ کیوں کرتے ہیں؟
سی کے لال کا کہنا ہے کہ لوگ بلن شاہ کو ایک پُرکشش شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں ’وہ ایک گلوکار رہے ہیں لیکن ان کے کاموں سے کبھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے صرف ایک چیز یہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف بولتے ہیں۔‘
’بلن شاہ نے کہا تھا کہ وہ سنگھ دربار کو آگ لگا دیں گے۔ کوئی ذمہ دار لیڈر کبھی اس طرح کا بیان نہیں دے گا۔ لیکن ہجوم کو ایسا شخص اور ایسی زبان بہت لبھاتی ہے۔‘
بلن نے اپنے منشور میں ڈیجیٹل حکومت سے لے کر آئیڈیا بینک تک ہر چیز کے بارے میں بات کی ہے۔ انھوں نے تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے لیے بڑے بڑے منصوبے پیش کیے ہیں۔
بلن شاہ نے میئر کا انتخاب جیتنے کے بعد کہا تھا کہ ’آگے کا راستہ آسان نہیں ہے، ہماری مہم کا اصل امتحان اب شروع ہو گا، ہم جو راستہ چنیں گے اور جتنی کوششیں کریں گے وہ اس شہر کی ترقی کا تعین کرے گی۔‘
’ہمیں آپ کے تعاون اور مشوروں کی ضرورت ہو گی۔ جب بھی ہم گمراہ ہوتے نظر آئیں تو ہمیں بتائیں۔ اس طرح ہم آپ کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔ جب بھی ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہو گی ہم آپ کو یاد کریں گے۔‘
’ابھی ہمیں اس مہم کو پورے ملک میں پھیلانے کی کوشش کرنی ہے۔ ہمیں ملک کے ہر علاقے میں ایسے بلن تلاش کرنے ہوں گے جو تبدیلی لا سکیں۔ اب کھٹمنڈو کو تبدیل کرنے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ آئیں مل کر آگے بڑھیں۔‘
نیپال میں مظاہرے: وزیر اعظم کے استعفے کے بعد پارلیمنٹ کی عمارت نذرِ آتش، فوج کی مظاہرین کو بات چیت کی دعوتبنگلہ دیش کے طلبہ جو عمران خان اور اردوغان کی طرح مقبول سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیںبنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے: ان والدین کا دکھ جنھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کھو دی’یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا‘: بنگلہ دیش میں عوام کو حسینہ واجد کی حکومت پر اتنا غصہ کیوں ہے؟’میری موسیقی جغرافیائی سیاست سے آزاد ہے‘: گلوکار بادشاہ پر پاکستانی سپانسرڈ شو میں پرفارم کرنے کا الزام عامر خان کی ’حب الوطنی‘ اور اردوغان کے ساتھ تصویر پر سوالات: ’میں ہمیشہ ہندوستان اور مسلح افواج کا ساتھ دوں گا‘