شارجہ میں ہونے والے سہ ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ کا فائنل دراصل پاکستان اور افغانستان کی ٹیموں کے سپنرز کا میچ بن گیا۔
دونوں طرف سے سپن بولنگ کا جادو دکھایا گیا، افغان سپنروں نے بھی کمال کیا، رنز روکے اور وکٹیں لیں مگر انگریزی محاورے کے مطابق ’اینڈ آف دا ڈے‘ پاکستانی سپنرز زیادہ بہتر اور خطرناک ثابت ہوئے۔ انہوں نے افغان ٹیم کو آؤٹ کلاس کر دیا۔ صرف 66 رنز پر تمام افغان بلے بازوں کو پویلین بھیج کر میچ 75 رنز سے جیت لیا۔
یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی بلے بازوں نے افغان سپن اٹیک کی کچھ نہ کچھ مزاحمت کی جبکہ افغان بلے باز پاکستانی سپن اٹیک کو سمجھنے میں ناکام رہے، غیرضروری عجلت کا مظاہرہ کر کے اپنی وکٹیں بھی گنوائیں اور لو سکورنگ میچ میں بڑے مارجن سے شکست کھا گئے۔
ویسے شارجہ کی جس پچ پر یہ میچ کھیلا گیا وہ کسی ٹی20 میچ اور خاص کر ٹورنامنٹ کے فائنل کے لیے نہایت غیرموزوں اور نامناسب تھی۔ ٹی20 چھکے چوکے لگانے والی کرکٹ ہے، لوگ یہی دیکھنے آتے ہیں۔ اس لیے یہ میچز اچھی بیٹنگ پچوں پر ہوتے ہیں، باؤنڈری بھی قدرے چھوٹی رکھی جاتی ہے اور زیادہ ایڈوانٹیج بلے بازوں کو ملتا ہے۔
شارجہ میں ہونے والے فائنل میچ کی پچ بہت مشکل ٹرننگ پچ تھی، جہاں سپنرز کی گیند گز، گز ٹرن ہو رہی تھی، انہیں ناقابل یقین باؤنس مل رہا تھا۔ بہتر ہوتا کہ کیوریٹر فائنل کے لیے وہ پچ بناتے جو بیلنس ہوتی، بلے بازوں کو سٹروکس کھیلنے کا موقعہ ملتا اور یوں اچھا سکورنگ فائنل ہو پاتا۔ ایسا نہیں ہوا۔
ویسے تو شارجہ کے اس سہہ ملکی ٹورنامنٹ میں ٹاس بھی ایک اہم فیکٹر رہا۔ جتنے بھی میچز ہوئے، ان سب میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم ہی میچ جیتی، اسی لیے ہر ٹیم نے ٹاس جیتنے کے بعد خود بیٹنگ کی۔ جب ٹاس اتنا اہم ہوجائے تب کرکٹ کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔
پاکستانی ٹیم نے اس میچ کے لیے اپنے اہم فاسٹ بولر حارث رؤف کو باہر بٹھا کر سپنر سفیان مقیم کو کھلایا، یوں پاکستانی شائقین کا یہ مطالبہ پورا ہوا کہ دونوں مسٹری سپیشلسٹ سپنرز ابرار اور سفیان کو اکھٹا کھلایا جائے۔ سفیان مقیم کو کھلانے کا فیصلہ درست تھا، البتہ ان کی زیادہ ضرورت ہی نہیں پڑی اور تجربہ کار لیفٹ آرم سپنر محمد نواز کی طلسماتی بولنگ نے افغان بیٹرز کو سحرزدہ کر دیا۔ نواز نے اپنے پہلے دو اوورز کی دس گیندوں پر چار وکٹیں لے کر افغان ٹیم کی کمر توڑ دی۔ ان میں ایک شاندار ہیٹرک شامل تھی۔ مجموعی طو رپر نواز نے چار اوورز میں 19 رنز دے کر پانچ وکٹیں لیں۔
ابرار احمد نے بھی عمدہ بولنگ کرائی اور چار اوورز میں سترہ رنز دے کر دو اہم وکٹیں لیں۔ سفیان مقیم کو قدرے تاخیر سے بولنگ ملی ، مگر انہوں نے بھی ٹیل اینڈرز کی دو وکٹیں سمیٹ لیں۔ ویسے اننگ کا آغاز بھی اچھا ہوا اور شاہین شاہ نے ایک کٹر گیند پر پہلے اوورمیں افغان تجربہ کار اوپنر رحمن اللہ گرباز کو سلپ میں کیچ آوٹ کرا دیا۔ صائم ایوب کو وکٹ تو نہیں ملی، مگر صائم نے تین اوورز میں صرف دس رنز دیے۔
افغانستان کے خلاف جیت بھی اب انڈیا کے خلاف جیت جیسی بنتی جا رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستانی بیٹنگ کا آغآز بھی برا ہوا تھا اور صاحبزادہ فرحان مسلسل تیسری بار اندر آتی گیند پر آوٹ ہوئی۔ اس بار انہیں فضل اللہ فاروقی نے پہلے اوور میں بولڈ کیا۔ فخرزمان اور صائم ایوب نے پارٹنر شپ بنانے کی کوشش کی، مگر افغان سپنرز نے انہیں پریشان کیے رکھا۔ صائم جلد ہمت ہار گئے، فخر نے چند اچھے سٹروکس کھیلے مگر پھر راشد خان کی ایک اچھے ٹاپ سپن گیند پر وہ ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔
کپتان سلمان آغا نے افغان سپن بولنگ کے سامنے مزاحمت کی، وہ رنز تو نہیں کر پا رہے تھے، مگر سنگلز لیتے رہے۔ آخر میں سلمان آغا نے جارحانہ انداز اپنایا اور دنیا کے بہترین ٹی20 سپنر راشد خان کو دو شاندار چھکے رسید کر دیے، اگرچہ اسی اوور میں وہ آؤٹ بھی ہوگئے۔
حسن نواز نے غیرذمہ دارانہ انداز میں وکٹ گنوائی۔ امید ہے ٹیم مینجمنٹ ان کی سرزنش کرے گی کہ یوں وکٹ تھرو کیوں کی؟ حسن نواز نے راشد خان کو ایک چھکا لگایا مگر باونڈری پر وہ کیچ آوٹ ہوتے ہوتے بچے۔ اس کے بعد اگلی گیند پر غیر ضروری اونچا شاٹ کھیلا، مگر کیچ نہ ہوسکا۔ جب راشد خان جیسے باولر کو چھکا لگا چکے، سنگلز بھی بن گئے تو پھر اسی اوور میں خواہ مخواہ ایک اور غیر ضروری اونچا شاٹ کھیلنے کی کیا ضرورت تھی، یہ کیچ پکڑا گیا۔ وہ میچ کا گیارھواں اوور تھا اور ابھی خاصا وقت حسن نواز کے پاس تھا۔ یہ بھی پتہ تھا کہ تین وکٹیں گر چکی ہیں اور محمد حارث آوٹ آف فارم ہے یعنی اس کے بعد آل راونڈرز پر دباو بڑھ جائے گا۔
محمد حارث نے دو گیندیں مس کیں اور پھر ایک اندھا دھند شاٹ کھیلنے کی کوشش میں بولڈ ہوگئے۔ اس کے بعد نواز کی باری آئی اور پاکستان نے جو سکور کیا اس میں نواز کا بڑا ہاتھ ہے۔ نواز نے اچھی بیٹنگ کی ،سنگلز بنائے اور پھر وقت پڑنے پر چھکے بھی رسید کئے۔ سلمان آغا اور محمد نواز نے اچھی مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ افغان ٹیم کی بیٹنگ میں اسی مزاحمت کی کمی نظر آئی ۔ ویسے ٹیم مینجمنٹ کو تھوڑا آؤٹ آف باکس سوچنا چاہیے تھا، نواز اچھی فارم میں ہے، پچھلے میچ میں بھی اس نے فخر کے ساتھ مل کر اچھی بیٹنگ کی ، آج نواز کو حارث سے پہلے آنا چاہیے تھا، بلکہ اگر حسن نواز سے پہلے بھیج دیتے تب بھی کوئی حرج نہیں تھا۔
محمد نواز نے بیٹنگ اور بولنگ دونوں شعبوں میں کارکردگی دکھائی۔ فوٹو: اے ایف پی
محمد نواز خاصا عرصہ ٹیم سے باہر رہے، مگر واپسی کے بعد سے وہ مسلسل بولنگ اور بیٹنگ میں پرفارم کر رہے ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ کس طرح محنت اور تسلسل سے کارکردگی دکھا کر واپس آیا جا سکتا ہے۔ فائنل کے وہ مین آف دا میچ قرار پائے۔
فہیم اشرف کو بولنگ کا موقع نہیں ملا، مگر فہیم نے چند گیندیں کھیل کر دو تین اچھے شاٹس لگائے، اے ایم غضنفر کو کور میں لگایا گیا چھکا شاندار تھا۔
پاکستان جیت گیا، یہ کامیابی مبارک ہو۔ افغانستان کے خلاف جیت بھی اب انڈیا کے خلاف جیت جیسی بنتی جا رہی ہے، پاکستانی شائقین مسرور ہوتے ہیں۔ تاہم ٹیم میں بعض کمزوریاں نظر آ رہی ہیں، اوپنر صاحبزادہ فرحان مسلسل ایک ہی انداز میں وکٹیں گنوا رہا ہے۔ وکٹ کیپر بیٹر محمد حارث بہت بری فارم میں ہے۔ فخر کے بلے پرالبتہ گیند آ رہی ہے۔ سلمان آغا بھی رنز کر رہا ہے، مگر بڑی ٹیموں کے خلاف اور خاص کر دبئی میں ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر کو مل کر پرفارم کرنا ہوگا۔
ایک مسئلہ یہ بھی چل رہا ہے کہ پاکستان پانچ سپیشلسٹ بولرز کے ساتھ نہیں کھیل رہا اور بیٹنگ لائن لمبی کرنے کے لیے فہیم اشرف کو کھلانا پڑ رہا ہے، جو بولنگ میں تسلسل سے عمدہ کارکردگی نہیں دکھا پاتے۔ صائم ایوب کو بطور پانچواں سپشلسٹ بولر کھلانا رسکی ہے، کیونکہ اچھی ٹیمیں اسے ٹارگٹ کریں گی، خاص کر جب اس سے پاور پلے میں بولنگ کرائی جائے۔
افغانستان کی ٹیم کو اتنے بڑے مارجن سے ہرانا بڑی کامیابی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
ایشیا کپ میں اچھی ٹیموں سے میچز ہیں، انڈیا اچھی فارم میں ہے، اس کے خلاف ایسی غلطیاں کیں تو بھاری پڑ جائیں گی۔ اسی طرح ممکنہ طور پر سپر فور میں پاکستان کے میچز سری لنکا ، بنگلہ دیش ا ور افغانستان میں سے کسی دو ٹیموں سے ہوں گے۔ وہ بھی آسان نہیں ہوں گے۔
دیکھیں ایشیا کپ کے لIے پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کیا حکمت عملی اپناتی ہے۔ سردست تو سہ ملکی ٹورنامنٹ کا فائنل جیتنا مبارک ہو۔ افغانستان کی ٹیم کو اتنے بڑے مارجن سے ہرانا بڑی کامیابی ہے، اس سے یقینی طورپر ٹیم کا اعتماد بلند ہوگا۔ نواز، ابرار اور شاہین آفریدی بھی زیادہ اعتماد سے ایشیا کپ کھیلیں گے کہ ان کی کارکردگی عمدہ رہی۔ سلمان آغا بھی اس فتح سے خوش ہوں گے۔ ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی پر سے بھی دبائو قدرے کم ہوگاکہ سردست چند دنوں کے لیے سابق کرکٹرز بھی اپنے طنز کے تیر روکنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
انگریزی محاورے کے مطابق جب اختتام بہتر ہو تو سب بہتر رہا۔ پاکستان کے لیے بھی یہ سہہ ملکی سیریز بہتر رہی۔ اس سے سیکھیں اور ایشیا کپ میں زیادہ بہتر کھیلیں۔ بیسٹ آف لک ٹیم پاکستان