Getty Imagesرواں برس دنیا بھر کے بحری جہاز بنانے کے 60 فیصد سے زیادہ آرڈر چین کے شپ یارڈز کو ملے ہیں
’سوشلزم از گُڈ۔۔۔‘
چین کے شہر دالیان میں واقع ملک کے سب سے بڑے شپ یارڈ (جہاں بحری جہاز بنائے جاتے ہیں) میں موجود بزرگ سیاح قدرے نحیف آواز میں یہ بول گنگنا رہا تھا۔ جلد ہی اس کے ساتھ موجود دیگر افراد اس کے ہم آواز بنے اور انھوں نے چینی زبان میں یہ گنگنانا شروع کر دیا ’کمیونسٹ پارٹی نے چین کو طاقت اور خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا ہے!‘
اگرچہ یہ گانے والوں کی تعداد تو کوئی زیادہ نہیں تھی مگر وہ جو گُنگنا رہے تھے وہ حقیقت کے بہت قریب ہے۔
چین کے دالیان شہر میں واقع ’سو یوان‘ پارک چین کے سب سے بڑے شپ یارڈ میں سے ایک ہے جس کا نظارہ حیرت انگیز ہے۔
مگر اس مقام سے ہزاروں میل دور واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے تجزیہ کار چین کے جہاز سازی کے اس عمل کو بڑھتے ہوئے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
گذشتہ دو دہائیوں میں چین نے جہاز سازی کے شعبے میں بہت سرمایہ کاری کی ہے جس کے باعث چین کو کافی فائدہ بھی پہنچا ہے۔ رواں برس دنیا بھر کے بحری جہاز بنانے کے 60 فیصد سے زیادہ آرڈر چین کے شپ یارڈز کو ہی ملے ہیں۔
سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت چین کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ بحری جہاز تیار کر رہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صنعت میں سرمایہ کاری اور ترقی کے باعث چین کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں تیزی سے اور جدید بحری جہاز تیار کر سکتا ہے۔
لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز سے وابستہ بحری امور کے ماہر نک چائلڈز کا کہنا ہے کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت غیرمعمولی ہے اور کئی اعتبار سے چشم کُشا بھی۔‘ اُن کی رائے میں چین کی جہاز سازی کی صلاحیت امریکہ کے مقابلے میں مجموعی طور پر 200 گنا زیادہ ہے۔
چین کی بحریہ کو بھی اسی شعبے میں سبقت حاصل ہے۔ یاد رہے کہ اِس وقت امریکہ کے 219 جنگی بحری جہاز ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں چین کے پاس دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ یعنی 234 جنگی بحری جہاز موجود ہیں۔
چین کے اس قدر تیزی سے بڑھتی جہاز سازی کی صنعت کو پانیوں نے مزید ترقی دی ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت یعنی چین میں دنیا کی 10 مصروف ترین بندرگاہوں میں سے سات واقع ہیں، جو عالمی رسد کے راستوں کے لیے اہم ترین سمجھی جاتی ہیں اور اس کی وجہ سے اس کے ساحلی شہر پھل پُھول رہے ہیں۔
جوں جوں بیجنگ کے عزائم میں اضافہ ہوا ہے، ویسے ویسے اس کے بحری جہازوں کی تعداد بھی بڑھی ہے اور بحیرہ جنوبی چین اور اس سے آگے کے خطوں میں بھی چین کو اپنے عزائم کو فروغ دینے میں مدد ملی ہے۔
صدر شی جن پنگ کا چین یقینی طور پر ’سمندروں پر حکمرانی‘ کرنا چاہتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہو پائے گا؟
BBC’اگرچہ امریکی بحریہ کو اب بھی نمایاں برتری حاصل ہے لیکن وہ چین کے ساتھ اپنی صلاحیتوں میں فرق کو کم ہوتا دیکھ رہی ہے‘
چین میں آئندہ ہفتے ایک بڑی فوجی پریڈ منعقد ہونے جا رہی ہے اور اس سے پتا چل سکتا ہے کہ چین اپنے اس ہدف یعنی ’سمندروں پر حکمرانی‘ کے کتنا قریب ہے۔ شی جن پنگ اس تقریب میں ولادیمیر پوتن اور کم جونگ اُن کی میزبانی کریں گے، جس کا بظاہر مقصد مغربی ممالک کے لیے سخت پیغام دینا ہے، یعنی ان ممالک کو جنھوں نے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی اس موقع پر ہونے والے فوٹو سیشن اور فوجی طاقت کے مظاہرے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، جس میں جہاز شکن میزائل، ہائپر سونک ہتھیار اور زیر آب ڈرونز کی نمائش کی بھی توقع کی جا رہی ہے۔
نک چائلڈز کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ امریکی بحریہ کو اب بھی نمایاں برتری حاصل ہے لیکن وہ چین کے ساتھ اپنی صلاحیتوں میں فرق کو کم ہوتا دیکھ رہی ہے اور وہ اس پر قابو پانے کے طریقوں پر غور کر رہی ہے، کیونکہ گذشتہ دہائیوں کے دوران امریکہ کی جہاز سازی کی صلاحیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس تناسب کو درست کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے امریکی جہاز سازی کو بحال کرنے اور امریکہ کی سمندری برتری کو دوبارہ یقینی بنانے کے لیے ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر بھی دستخط کیے ہیں۔
’تلخ یادوں کو مٹانے والی بحریہ‘
سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز (سی ایس آئی ایس) کے ایک مطالعے کے مطابق سنہ 2019 سے سنہ 2023 کے درمیان چین کے چار سب سے بڑے شپ یارڈز، دالیان، گوانزو، جیانگنان اورہیوڈونگ ہونگہوا، نے مجموعی طور پر 39 جنگی بحری جہاز تیار کیے ہیں۔
اگرچہ چین بحری جہازوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے لیکن امریکی بحری بیڑا بڑے طیارہ بردار بحری جہازوں کے ساتھ زیادہ طاقتور ہے۔
اب یہ اور بات ہے کہ اس شعبے میں اب بیجنگ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
سی ایس آئی ایس سے تعلق رکھنے والے الیگزینڈر پالمر کہتے ہیں کہ ’اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ چین کی رفتار سست ہو رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جہازوں کی تعداد ہی بحریہ کے مؤثر ہونے کا واحد پیمانہ نہیں ہے بلکہ جنگی جہازوں کی تیاری اورانھیں فعال بنانے کی صلاحیت انتہائی متاثر کن رہی ہے جس سے سٹریٹجک فرق پڑ سکتا ہے۔‘
BBC
چین کے بحری عروج پر پہنچنے کی راہ میں ابھی بھی مشکلات ہیں۔ بیجنگ کے پاس زیادہ بحری جہاز ہو سکتے ہیں مگر اس کے پاس صرف دو آپریشنل طیارہ بردار بحری جہاز ہیں اور اس کی بحریہ کے پاس امریکہ کے مقابلے میں بہت کم آبدوزیں ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ امریکیوں کی طرح جدید ترین نہیں ہیں، جو سرد جنگ کی طرف واپس جانے کے لیے تکنیکی صلاحیت کے حامل ہوں۔
چینی آبدوزیں بھی زیادہ تر بحیرہ جنوبی چین کے لیے بنائی گئی ہیں، جہاں امریکہ کے ساتھ بلی اور چوہے کا کھیل پہلے ہی جاری ہے۔ ابھی چین کی اپنی ساحلی پٹی سے دور سفر کرنے کی صلاحیت محدود ہے۔
لیکن اس بات کے اشارے ہیں کہ یہ سب اب تیزی سے بدل رہا ہے اور اب چین بھی اپنی صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے۔
بحیرہ جنوبی چین کے ایک جزیرے ہینان سے بی بی سی کو حاصل ہونے والی سیٹلائٹ تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ بیجنگ اپنے بحری اڈوں کی توسیع کے لیے خاطر خواہ فنڈنگ کر رہا ہے۔
یولن میں بیس میں پانچ نئے پیئرز یا بند تعمیر کیے گئے ہیں جو بظاہر پچھلے پانچ برس میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین اس بندرگاہ پر اپنی تمام سب سے بڑی آبدوزیں ’جن کلاس‘ یا ٹائپ 094 قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان نئے میزائلوں میں سے ہر ایک میں 12 جوہری میزائل لے جانے کی صلاحیت ہے۔
چینی سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ریہرسل کی تصاویر اور ویڈیو فوٹیج سے پتا چلتا ہے کہ کم از کم دو نئی قسم کے بغیر پائلٹ والے زیر آب ڈرونز، جو بڑے تارپیڈو کی طرح نظر آتے ہیں، اگلے ہفتے فوجی پریڈ میں دکھائے جانے والے نئے سسٹمز میں شامل ہوں گے۔
اس سے چین کو اپنی بحری افواج کو خطرے میں ڈالے بغیر زیر آب نگرانی کرنے اور دیگر آبدوزوں یا یہاں تک کہ زیر سمندر کیبلز کا پتا لگانے کی صلاحیت بھی حاصل ہو جائے گی۔
سی ایس آئی ایس کے چائنا پاور پروجیکٹ سے تعلق رکھنے والے میتھیو فینیول نے خبردار کیا ہے کہ اس ضمن میں چین کی زیادہ تر ٹیکنالوجی اب بھی ’غیر آزمودہ ہے اور اس کی حتمی صلاحیتوں کی ٹائم لائن بھی ابھی واضح نہیں ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کو مکمل صلاحیت حاصل کرنے میں کتنا وقت لگ سکے گا۔‘
اُن کے مطابق یہی وجہ ہے کہ امریکہ چین کی جہاز سازی کے خطرے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
ملک کی وسیع بحری ترقی کو ایک ایسی جماعت چلا رہی ہے جس کا ابھی بھی ماضی کی تلخ یادیں پیچھا کر رہی ہیں اور اب وہ اس تلخی کو وفاداری، طاقت اور حب الوطنی کے اپنے پیغام کو تقویت دینے کے طور پر استعمال کرنے لیے تیار ہے۔
جاپان پر فتح اور اس کے وحشیانہ قبضے کے خاتمے کی یاد میں ایک بڑی فوجی پریڈ کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے۔
Getty Imagesچین کا طیارہ بردار جنگی بحری جہاز
باقی دنیا جس پہلو کو چین کے عروج کے طور پر دیکھتی ہے، صدر شی کے لیے یہ چین کا ’احیا‘ ہے۔
انھوں نے ’قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط بحریہ‘ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ وہ سنہ 1840 اور سنہ 1949 کے درمیان چین پر 470 بحری حملوں کا حوالہ دیتے ہیں۔۔ جب طاقتور چنگ سلطنت بکھر گئی تھی، چین بدامنی، انقلاب اور خانہ جنگی میں ڈوب گیا تھا، یہ صورتحال پھر ’ناقابل بیان مصائب‘ کا باعث بنی۔
انھوں نے عہد کیا ہے کہ ان کا ملک دوبارہ کبھی ایسی ’تذلیل‘ کی طرف نہیں بڑھے گا باالفاظ دیگر ’غیر ملکی حملوں کی تلخ یادوں‘ کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔
جہاز سازی کے جس شعبے میں چین کو ناقابل تردید برتری حاصل ہے، وہ شپ یارڈ کا دوہرا استعمال ہے۔ ان میں سے بہت سے جہاز جو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں وہ بحریہ کے لیے جنگی جہاز تیار کرنے میں بھی مددگار ہو سکتے ہیں۔
کچھ جگہوں پر فوجی اور سویلین شپ یارڈ ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، جسے سرکاری میڈیا ’ملٹری سویلین فیوژن‘ قرار دیتا ہے۔
دالیان، جسے چین اپنا ’فلیگ شپ شپ یارڈ‘ کہتا ہے، اس میں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔
بحری بیڑوں کی پراسرار حرکت، سکستھ جنریشن طیارے اور فوجی مشقیں: چین کیسے امریکہ کی ’جزیروں کی زنجیر‘ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے؟چین ’فوجی سفارت کاری‘ کے ذریعے خطے میں بڑھتے امریکی اثرو رسوخ کا مقابلہ کیسے کر رہا ہے؟چین کے بحری جہاز انڈیا کے ممکنہ میزائل تجربے کی راہ میں کیسے رکاوٹ ڈال رہے ہیں؟چین میں مودی، شی اور پوتن کی قربتیں: واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی؟
سیاحت کرنے والے پینشرز، جن جہازوں پر سوار ہو کر مائیک ہاتھ میں اٹھائے گنگنا رہے ہیں، وہ بڑے حجم والے کمرشل جہاز ہیں۔۔ ان میں سے کچھ تو فٹ بال کے تین گراؤنڈز جتنے سائز کے ہیں۔
یہاں ایک کونے میں کچھ ایسے جہاز بھی ہیں جہاں کوئی تصویر نہیں لے سکتا، یہ سبفوجی جہاز ہیں۔
میتھیو فینیول کا کہنا ہے کہ کمرشل اور فوجی ساز و سامان کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کے پیچھے سیاسی ایجنڈا ہے۔ چین یہ بھی کوششیں کر رہا ہے کہ دالیان جیسی مرکزی جگہوں پر مطلوبہ ٹیکنالوجی کو منتقل کیا جا سکے۔
ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ طاقتور طیارہ بردار بحری جہازوں یا آبدوزوں کے بغیر بھی چین کا تجارتی بیڑا اور بحران کے دوران جہازوں کی جلد تعمیر میں اس کی مہارت، کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
BBCہیلی کاپٹر چینی طیارہ بردار جنگی بحری جہاز پر لینڈ کرتے ہوئے
میتھیو فینیول کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی طویل تنازع میں، اگر آپ کے پاس شپ یارڈ ہیں، جو تیزی سے نئے جہاز تیار کرتے ہیں، تو یہ ایک بہت بڑا سٹریٹجک فائدہ ہے۔‘
تجارتی جہاز کسی بھی تنازع والے علاقے میں خوراک وغیرہ لے جا سکتے ہیں۔ اس کے بغیر امریکہ ایک ایسی پوزیشن میں ہے جہاں وہ طویل جنگ کی کوشش کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک سیدھے سوال پر منتج ہوتا ہے کہ ’کون زیادہ اثاثے پانی میں زیادہ تیزی سے اور آسانی سے ڈال سکتا ہے؟‘
اس وقت اس کا جواب چین ہے۔
’اپنی طاقت خفیہ رکھیں، وقت گزرنے دیں‘
پیکنگ یونیورسٹی میں سینٹر فار میری ٹائم سٹریٹیجی سٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسر ہو بو کہتے ہیں کہ دنیا کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں دوسرے ممالک کے معاملات، خاص طور پر فوجی نوعیت کے معاملات، میں مداخلت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘ ان کی رائے میں ’چین بڑے بڑے بحری جہاز بنا رہا ہے کیونکہ وہ ایسا کر سکتا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ دنیا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔‘
تائیوان جزیرے کو چین ایک علیحدہ ملک کے طور پر نہیں دیکھتا ہے۔
بیجنگ طویل عرصے سے جمہوری جزیرے کے ساتھ ’دوبارہ الحاق‘ کے عہد کرتا آ رہا ہے اور طاقت کے استعمال کو بھی اس مقصد کے لیے خارج از امکان نہیں قرار دیا ہے۔
حالیہ برسوں میں اعلیٰ امریکی حکام نے اعلان کیا ہے کہ چین 2027 تک تائیوان پر حملہ کر دے گا، لیکن بیجنگ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ اس نے ایسی کوئی ڈیڈ لائن مقرر کر رکھی ہے۔
پروفیسر ہو بو کہتے ہیں کہ ’چین پہلے ہی تائیوان کو واپس لینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن چین ایسا نہیں کرتا کیونکہ ہمارے اندر برداشت کا جذبہ ہے۔ چین نے کبھی بھی پرامن الحاق کے امکانات کو ترک نہیں کیا ہے۔ ہم انتظار کر سکتے ہیں۔‘
سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ تائیوان پر کسی بھی حملے سے وسیع پیمانے پر جنگ چھڑ سکتی ہے اور اس میں امریکہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن تائیوان کو اپنے دفاع میں مدد دینے کے لیے اسلحہ فراہم کرنے کا قانونی طور پر پابند ہے جو بیجنگ کے لیے ناقابل قبول ہے کیونکہ اسے ایک علیحدہ صوبہ تصور کیا جاتا ہے جو بالآخر چین کا حصہ بن جائے گا۔
رواں برس کے اوائل میں امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے خبردار کیا تھا کہ چین تائیوان کے لیے خطرہ ہے اور انھوں نے ایشیائی ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ دفاعی اخراجات میں اضافہ کریں اور جنگ روکنے کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کریں۔
پروفیسر ہو بو کی یقین دہانیوں کے باوجود اس حقیقت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ چین کے جنگی جہاز ملک کے ساحلوں سے آگے بڑھنے لگے ہیں۔
فروری میں انھیں تین ہفتوں سے زیادہ عرصے تک آسٹریلیا کی ساحلی پٹی کا چکر لگاتے ہوئے دیکھا گیا تھا جہاں انھوں نے غیر معمولی ’لائیو فائر‘ مشقیں کیں۔
حال ہی میں چینی طیارہ بردار بحری جہازوں نے جاپان کے قریب بحری مشقیں کیں، جس سے تشویش پیدا ہوئی۔۔ اگرچہ یہ سب بین الاقوامی پانیوں میں ہوا مگر یہ اقدام غیر معمولی تھا۔
BBC
جیسے جیسے بیجنگ بحرالکاہل میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوششوں میں دلیری دکھا رہا ہے، تائیوان سے لے کر آسٹریلیا تک چین کے ہمسایہ ممالک فکرمند ہیں کہ اب چین اپنا اصل چہرہ دکھا رہا ہے: ’اپنی طاقت کو چھپائیں اور اپنا وقت گزاریں۔‘
لیکن پروفیسر ہو بو کی رائے میں امریکہ، جس کے خطے میں اتحادی جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا ہیں، اکثر چین کے ساتھ اختلافات کا شکار رہتے ہیں، کے درمیان تنازع کے خدشات بہت زیادہ ہیں کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ یہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں گذشتہ تین برسوں میں یہ اشارہ بالکل واضح ہے کہ دونوں فریق لڑنا نہیں چاہتے۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں، لیکن ہم ایک دوسرے سے لڑنا نہیں چاہتے۔‘
’ہم اپنے سمندری خواب کو پورا کریں گے‘
گہماگہمی والے شہر سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر دالیان میں سیاح بحریہ کے قلعے کے قصبے لوشنکوو میں کوچ کے ذریعے پہنچ رہے ہیں، جس میں طیارہ بردار بحری جہاز کی شکل میں ایک ملٹری تھیم پارک بھی ہے۔
اونچی آواز میں مائیکرو فونز پر گائیڈز اپنے گروپوں کو پارک میں لے جاتے ہیں اور سرکاری نوٹسز کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہیں جن میں زائرین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہلال نما بندرگاہ میں موجود فوجی جہازوں کی تصاویر نہ لیں اور کسی بھی ایسے رویے کی اطلاع دیں جو جاسوسی کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
پلوں اور دیواروں پر مزید فوجی نوٹسز کے ذریعے اعلان کیا گیا ہے کہ ’ہم ایک ہیں، ہم اپنے سمندری خواب کا دفاع کرتے ہیں۔‘
خاص طور پر دالیان میں چین نے اپنی جہاز سازی کی صنعت میں صلاحیت کو قومی فخر کے طور پر پیش کیا ہے۔
BBC
تھیم پارک، جو شپ یارڈ کا بھی نگران ہے، میں مقامی فیشن میں ملبوس ایک 50 سالہ بلاگر اپنے پیروکاروں کو بندرگاہ میں تعمیر کیے جانے والے جدید ترین جہازوں کے بارے میں روزانہ تفصیلات فراہم کرتا ہے۔
انھوں نے اپنے فالورز کو بتایا کہ ’مجھے بہت فخر ہے، واقعی، دیکھو کہ یہ شہر ہمیں کیا دیتا ہے۔‘ ایک ماں اور اس کی سات سالہ بیٹی، جو پڑوسی صوبے سے چھٹیاں منانے کے لیے یہاں آئی ہیں، جہازوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں۔ ’میں دنگ رہ گئی ہوں، یہ بہت بڑا ہے۔ یہ کیسے چلتا ہے، مجھے حیرت ہے؟‘
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ چین کا جنگی بیڑا کتنی دور تک جا سکتا ہے اور بیجنگ اپنے ساحلوں سے کتنی دور جانے کے لیے تیار ہے۔
نک چائلڈز کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ’وہ کس مرحلے پر سامنے آئیں گے اور مزید اثر و رسوخ کا مظاہرہ کر سکیں گے، مثال کے طور پر بحر ہند اور اس سے آگے کے لیے یہ ایک اہم چیز ہو گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ وہ (چین) اپنی صلاحیت میں مزید اضافہ کیے جا رہا ہے۔
چین میں مودی، شی اور پوتن کی قربتیں: واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی؟مودی-شی ملاقات: کیا انڈیا کی چین سے بڑھتی قربت پر پاکستان کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟بحری بیڑوں کی پراسرار حرکت، سکستھ جنریشن طیارے اور فوجی مشقیں: چین کیسے امریکہ کی ’جزیروں کی زنجیر‘ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے؟ڈرون شو کی حقیقت اور ریڈ کارپٹ ویلکم: چین میں ’مودی کا استقبال شاندار رہا یا شہباز شریف کا؟‘ٹرمپ کی سرزنش، شی سے مصافحہ اور روسی تیل: انڈیا کی خارجہ پالیسی کا امتحانکیا انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع میں اصل فاتح چین ثابت ہوا؟