خیبر پختونخوا میں سیلاب کے بعد لاپتہ افراد کی قبریں اور ذہنی دباؤ: ’سیاہ بادل خوف کی علامت بن گئے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Aug 23, 2025

’اس گاؤں میں گہرے بادل اور تیز بارش اب خوف کی علامت بن چکے ہیں۔‘

یہ الفاظ ایسے ڈاکٹر کے ہیں جو ذہنی امراض کا علاج کرتے ہیں۔ محمد اسرار ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے ساتھ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر گئے تھے جہاں 15 اگست کی صبح کلاؤڈ برسٹ کے بعد سیلابی ریلے نے تباہی مچائی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے سامنے جب بشونئی گاؤں میں بادل آئے اور بارش شروع ہوئی تو لوگوں میں گھبراہٹ پھیل گئی تھی۔ ہم نے زندگی میں ایسی صورتحال کہیں نہیں دیکھی۔

’(اب) لوگ ایک انجانے نفسیاتی مسئلے کا شکار نظر آتے ہیں۔‘

15 اگست کو خیبر پختونخوا کے پانچ اضلاع میں اچانک کلاؤڈ برسٹ ہوا اور تیز بارش شروع ہو گئی۔ اس کے بعد سیلابی ریلوں نے کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

بونیر میں سب سے زیادہ جانی نقصانات ہوا جبکہ دیگر اضلاع جیسے سوات، باجوڑ، شانگلہ، بٹگرام اور صوابی میں بھی سیلاب نے بڑے پیمانے پر املاک، مویشیوں اور زراعت کو نقصان پہنچایا ہے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق فلیش فلڈز میں ہلاکتوں کی تعداد 390 سے تجاوز کر چکی ہے۔

لاپتہ افراد کی قبریں اور بادلوں کا خوف

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے شعبہ ذہنی امراض کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسرار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان علاقوں میں جن لوگوں کا اتنا زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے وہ تمام لوگ نفسیاتی طور پر بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ ’انھیں یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ ایک مریض سے ملے جن کی عمر لگ بھگ 40 سے 45 سال کے درمیان ہوگی۔ ڈاکٹر اسرار نے بتایا کہ حامد (فرضی نام) کے گھرانے کے کل 18 افراد تھے جن میں سے صرف حامد بچ گئے ہیں اور باقی سب اس سیلابی ریلے میں بہہ گئے ہیں۔ گھر کے کچھ افراد ’اب بھی لاپتہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔‘

حامد ایک مسجد میں بیٹھے تھے، لوگ افسوس کے لیے ان کے پاس آ رہے تھے لیکن حامد بالکل گم سم تھے۔ وہ ایک ایسی کیفیت میں تھے جس کو شاید الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر اسرار نے بتایا کہ اس علاقے میں ایسے گھرانے اور بھی ہیں جن کے خاندان کے لوگ لاپتہ ہیں اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ انھیں تلاش کیا جائے کہ ’شاید کوئی زندہ مل جائے یا کم سے کم ان کی لاش ہی مل جائے۔‘

ڈاکٹر اسرار کا کہنا تھا اس علاقے میں بعض لاپتہ افراد کے لیے پہلے سے قبریں بھی کھود کے رکھی گئی ہیں۔

سوات میں سیلاب کے بعد مینگورہ بازار کیچڑ کے ڈھیر میں تبدیل: ’ملبے نے پل کے ساتھ پھنس کر ڈیم کی شکل اختیار کر لی‘’سکینہ کے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا، ایک نسل دفن ہو گئی‘: کشمیر اور خیبر پختونخوا میں سیلاب سے کئی گھر اجڑ گئےکراچی کی غیر معمولی بارش، پانی میں ڈوبی سڑکیں اور پریشان حال شہری: ’نو گھنٹے پھنسے رہے، گھر آئے تو بجلی غائب‘’آپ زمین پر نہیں، کسی کے گھر پر کھڑے ہیں‘: بونیر کا وہ گاؤں جہاں ’ہر پتھر کے نیچے کسی کا مکان دبا ہے‘

وہ اس مریض کی بھی مثال دیتے ہیں کہ جو حالیہ سیلاب کے باعث اب دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ ’ان کے گھرانے کے سب افراد اس پانی میں بہہ گئے ہیں۔۔۔ علاج جاری ہے (لیکن) وہ بات چیت نہیں کر سکتے۔ انھیں معلوم نہیں کیا ہو رہا ہے۔‘

وہ صرف دیگر لوگوں کو تکتے رہتے ہیں۔ ’اگر کسی سے بات چیت کریں تو وہ رونے لگ جاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر اسرار کہتے ہیں کہ جسمانی زخموں کے علاوہ ذہنی صدمے کے اثرات بھی عیاں ہیں۔

کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں لوگ بارش اور بادلوں کے خوف میں مبتلا ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار کہتے ہیں کہ لوگوں کے اندر ’بے چینی پائی گئی ہے۔ انھیں دوبارہ سیلاب آنے کا ڈر رہتا ہے۔‘

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم خان نے بتایا کہ ان کے ہسپتال سے 15 افراد کی ٹیم ان متاثرہ علاقوں میں گئی تھی جن میں ڈاکٹروں کے ساتھ میل نرس تھے۔ پشاور سے ایک ٹرک میں ادویات اور ایک میں دیگر کھانے پینے اور بنیادی ضروریات کا سامان بھی بھیجا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ ان علاقوں میں کبھی تیز دھوپ نکل آتی تو کبھی بادل آجاتے اور بارش شروع ہو جاتی ہے۔ ’لوگوں میں خوف کا یہ عالم تھا کہ ان کی چھتری کا ایک کونا ایک شخص کے کندھے پر لگا تو وہ کانپ اٹھا اور کہا ’مجھے تو تم نے مار دیا ہے، میں سمجھا پھر کچھ آگیا ہے‘۔‘

پاکستان سائیکیٹرک سوسائیٹی نے ان علاقوں میں لوگوں کی نفسیاتی بحالی کے لیے ایک پروگرام بھی ترتیب دیا ہے جس میں نفسیاتی ماہرین اُن کی مدد کریں گے۔

وہ شخص جو ایک میچ کے لیے رُکا اور پھر واپس نہ جا سکا

'کاش وہ سعودی عرب جانے کا ٹکٹ مخہ میچ کی وجہ سے موخر نہ کرواتا تو آج زندہ ہوتا۔ شاید موت نے اسے روک رکھا تھا۔'

محمد ادریس یہ باتیں کرتے ہوئے زار و قطار رو رہے تھے۔ صوابی کے علاقے دالوڑی بالا میں کلاؤڈ برسٹ سے 37 افراد ہلاک ہوئے۔ انھی میں سے ایک ادریس کے بچپن کے دوست انور زیب تھے۔

وہ، ان کے بیوی بچے، والدہ اور بھابھی سمیت خاندان کے 14 افراد ہلاک ہوئے اور خاندان کے صرف دو افراد زندہ بچ سکے۔

ادریس کے مطابق انور زیب سعودی عرب میں مقیم تھے۔ 'وہ دل کا بہت سخی تھا، ہر ضرورت مند کا ہاتھ پکڑتا تھا۔'

وہ بتاتے ہیں کہ انور کی 12 اگست کی واپسی کی ٹکٹ تھی لیکن گاؤں میں مخہ (تیر اندازی) کے میچ کی وجہ سے انھوں نے واپسی کا پلان موخر کر دیا تھا۔ 'اسے مخہ سے بہت لگاؤ تھا۔ ایک رات پہلے فائنل میں ایک پوائنٹ سے میچ ہار گیا تھا مگر خوش تھا کہ میچ میں حصہ لیا تو ہے۔ میچ کے بعد کافی دیر تک گپ شپ لگاتے رہے اور جاتے ہوئے کہا کہ ایک، دو دن میں دریا کے کنارے پروگرام کرتے ہیں۔'

وہ یاد کرتے ہیں کہ 'انور زیب رباب بھی بجا لیتے تھے۔ میں نے انور زیب کے ساتھ مخہ سیکھی اور کھیلی ہے۔'

محمد ادریس بتاتے ہیں کہ 'پیر کی صبح حسب معمول کام کے لیے اٹھا تو اطلاع ملی کہ دالوڑی میں آسمانی بجلی گری ہے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انور زیب بھی اس حادثے کا شکار ہوئے۔'

'علاقے میں موبائل نیٹ ورک نہیں تھا، اس وجہ سے اطلاع بہت دیر تک پہنچی۔ فوراً اس علاقے کی طرف پہنچا اور امدادی کاموں میں شامل ہوگیا۔ دوپہر کے وقت ملبے کے نیچے انور زیب کی لاش برآمد ہوئی۔'

وہ کہتے ہیں کہ انور زیب کے 'دونوں بازوں پر بچوں کی لاشیں پڑی تھیں، جیسے بچے انور زیب کے ساتھ سوئے تھے یا صبح ابو کے ہاس آگئے تھے۔'

سوار خان جدون گورنمنٹ ہائی سکول دالوڑی کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ سکول کے تین بچے اس حادثے میں ہلاک ہوئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مرنے والوں میں دو بھائی شامل تھے۔

سوار خان بتاتے ہیں کہ ’کلاس چھٹی اور ساتویں کے فرمان اور صدیق الرحمان یتیم تھے اور اپنی والدہ کے ساتھ دالوڑی میں رہتے تھے۔‘

'میں اکثر ان بچوں کو دیکھتا تھا کہ ان کندھوں پر کتنی بڑی ذمہ داری آنے والی ہے۔ بس قدرت کو یہی منظور تھا کہ وہ ذمہ داریوں سے آزاد ہوگئے۔'

جب طلبہ کو ایک مکان سے سونے کے زیور ملے

سیلاب آنے کے بعد سے بونیر اور سوات سمیت کئی متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں جس میں مقامی لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔

سوات میں امدادی سرگرمیوں کے دوران مدرسے کے طلبہ کو ایک مکان سے سونے کے زیورات بھی ملے۔

سوات شہر کے ایک مدرسے کے طلبہ نے چار دنوں میں 11 مکانات میں لوگوں کی مدد کی۔ انھوں نے گھروں کا سامان باہر نکالا اور وہاں سیلابی پانی کے ساتھ آنے والی مٹی کی صفائی کی۔

مدرسے کے مہتمم قاری محمد داؤد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ساتھ مدرسے کے 20، 25 طالبعلم ہیں اور وہ منگورہ شہر میں ایک مدرسے میں صفائی کا کام کر رہے تھے۔

اس دوران ایک کمرے میں الماری تھی جو نیچے گِر چکی تھی۔ طلبہ نے الماری کا سامان اٹھا کر محفوط مقام پر رکھا اور جب آخر میں ایک کونے میں دیکھا تو وہاں پلاسٹک کی ڈبیوں میں سونے کے زیورات پڑے تھے۔ ان زیورات کا وزن '15 سے 20 تولے تک ہو گا۔'

ان کے مطابق ان زیورات کی ویڈّیو بنائی گئی اور اس کے بعد انھیں مالک مکان کے حوالے کر دیا گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'ان علاقوں میں رواج ہے کہ اگر کوئی مشکل میں ہوتا ہے تو سب لوگ ان کی مدد کے لیے پہنچتے ہیں اور اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا۔ یہاں تک کہ لوگ کھانا بھی ساتھ لے کر جاتے ہیں۔'

تدفین سے چند لمحے قبل دکھائی دینے والا خون کا دھبہ جو مقتولہ کے شوہر اور بیٹے کی گرفتاری کی وجہ بناقومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی انسداد دہشتگردی کا ترمیمی بل منظور: سکیورٹی اداروں کو ’غیر معمولی‘ حراستی اختیارات کیوں دیے جا رہے ہیں؟’آپ زمین پر نہیں، کسی کے گھر پر کھڑے ہیں‘: بونیر کا وہ گاؤں جہاں ’ہر پتھر کے نیچے کسی کا مکان دبا ہے‘سوات میں سیلاب کے بعد مینگورہ بازار کیچڑ کے ڈھیر میں تبدیل: ’ملبے نے پل کے ساتھ پھنس کر ڈیم کی شکل اختیار کر لی‘کراچی کی غیر معمولی بارش، پانی میں ڈوبی سڑکیں اور پریشان حال شہری: ’نو گھنٹے پھنسے رہے، گھر آئے تو بجلی غائب‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More