وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ سعودی ایئر لائن کی فلائٹ 163 کے 38 سالہ کپتان محمد علی خویطر اُس وقت کاک پٹ میں کسی خوش فہمی کا شکار ہو کر گُنگنا رہے تھے یا گھبراہٹ کی وجہ سے اُن کے منہ سے عربی زبان میں دعائیہ کلمات نکل رہے تھے، لیکن یہ طے تھا کہ اُن کے علاوہ طیارے کے کاک پٹ میں موجود دیگر دو افراد، فرسٹ آفیسر سامی حسنائن، اور امریکی نژاد فلائٹ انجینیئر بریڈلی کرٹس، جان چکے تھے کہ حالات اُن کے بس میں نہیں رہے ہیں۔
19 اگست 1980 کو منگل کا دن تھا اور دوپہر کے وقت اُس دور کا یہ جدیدترین امریکی ساختہ لاک ہیڈ ٹرائی سٹار طیارہ فضا میں بلند ہوا۔ ابتدا میں سب ٹھیک تھا، لیکن کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ سفر فضائی صنعت کے بدترین حادثے کی صورت میں اختتام پذیر ہو گا، جس میں 301 مسافر لقمہ اجل بن جائیں گے۔
اس طیارے نے کراچی ایئرپورٹ سے اُڑان بھری تھی اور اس کی منزل سعودی عرب کا شہر جدہ تھا۔ طیارے نے جدہ پہنچنے سے قبل مختصر دورانیے کے لیے سعودی عرب کے ہی شہر ریاض بھی رُکنا تھا۔
کراچی سے اس پرواز پر کُل 82 مسافر سوار ہوئے تھے جبکہ عملے کے اراکین کی تعداد 14 تھی،جبکہ ریاض سے مزید 205 مسافر سوار ہونے کے بعد طیارے پر موجود افراد کی مجموعی تعداد 301 ہو گئی۔
طیارے پر سوار مسافروں میں 82 سعودی شہری، 80 پاکستانی، 32 ایرانی، 23 یمنی اور ایک، ایک امریکی، کینیڈئن اور برطانوی مسافر اور دیگر قومیتوں کے لوگ شامل تھے۔
سعودی ائیرلائن کا شمار اُس زمانے میں دنیا کی صف اول کی ایئر لائنز میں ہوا کرتا تھا، تیل کی دولت سے مالامال سعودی سلطنت نے اپنی قومی ایئرلائن پر بھرپور وسائل خرچ کیے تھے۔
کراچی سے ریاض تکتقریباً دو گھنٹے 34 منٹ کی پرواز کے دوران طیارے کی کارکردگی معمول کے مطابق رہی، لیکن ریاض کے کنگ خالد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے جدہ کے لیے ٹھیک چھ بج کر آٹھ منٹ پر اُڑان بھرنے کے تقریباً سات منٹ بعد طیارے کے پچھلے کارگو حصے ’کمپارٹمنٹ سی تھری‘ میں دھوئیں کے وارننگ سسٹم نے خطرہ ظاہر کیا۔
دوران پرواز طیارے میں دھواںBBCسعودی عرب کے شہر ریاض میں مختصر قیام کے بعد اس طیارے نے جدہ کے لیے پرواز بھری مگر اسی دوران طیارے میں دھواں بھرنا شروع ہو گیا (ریاض ایئرپورٹ کی 80 کی دہائی میں لی گئی تصویر)
امریکی ہوا بازی کے ماہر اور ایوی ایشن سیفٹی سپیشلسٹایڈورڈ ڈگلس ڈریفَس اُس دور میں سعودی ائیرلائن کے ساتھ وابستہ تھے۔ انھوں نے سعودی عرب کی شہری ہوابازی کے ادارے کے صدر شیخ ناصر الاسعاف کو اس حادثے سے متعلق اپنی تحقیقاتی رپورٹ 16 جنوری 1982 کو پیش کی تھی، جس میں بہت سے انکشافات کیے گئے تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق حتمی طور پر یہ ثابت نہیں ہو سکا تھا کہ آگ کیوں بھڑکی، تاہم یہ ضرور بتایا گیا تھا کہ طیارے کے ملبے سے دو بیوٹین گیس کے چولہے ملے تھے جو غالباً عمرہ عازمین کھانا پکانے کی غرض سے اپنے ساتھ چھپا کر لے جا رہے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ’یہ (فلائیٹ پر چولہے لے جانا) قانوناً ممنوع تھے، مگر یا تو سکیورٹی چیکنگ ناقص تھی یا انھیں سامان میں چھپایا گیا تھا، جو نہ تو سکین ہو سکا اور نہ ہی کسٹم عملے نے دستی تلاشی میں اُن کی نشاندہی کی۔‘
رپورٹ کے مطابق طیارے پر موجود دیگر ممنوعہ اشیا میں دو گیلن کھانے پکانے والا تیل بھی موجود تھا۔
ڈریفَس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ طیارے کے مختلف مقامات پر آگ اور دھویں کی اطلاع دینے اور انھیں بجھانے کے نظام نصب تھے۔
طیارے میں سامان رکھنے والے حصوں کو اُن کی نوعیت کے حساب سے چار اقسام میں بانٹا گیا تھا: کلاس اے، بی، سی اور ڈی۔
کلاس ڈی کا حصہ اس طرح بنایا گیا کہ اگر وہاں آگ لگ جائے تو وہ خود ہی بجھ جائے، کیونکہ وہاں آکسیجن کی مقداربہت کم ہوتی تھی۔ اسی کلاس میں آگ سے بچانے والی تہہ (لائنر) بھی نصب تھی، لیکن اس ڈیزائن میں ایک بڑی خامی تھی کہ یہ حصہ بہت بڑا تھا اور اس میں آکسیجن زیادہ موجود تھی، نتیجتاًآگ سے بچانے والی تہہ یعنی لائنر بھی جلد جل گئی اور آگ کارگو حصے سے باہر پھیلتی چلی گئی۔
اس سے قبل ایوی ایشن انڈسٹری میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ’لائنر‘ مکمل طور پر آگ سے محفوظ ہوتی ہے، لیکن اس حادثے نے ثابت کیا کہ ایسا نہیں تھا۔
بہر حال جب آگ بھڑکی تو اس نے جلد ہی طیارے کے اُس حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جہاں مسافر موجود تھے، دھواں پھیلنے سے پہلے تو مسافر بے ہوش ہوئے اور پھر اسی حالت میں دم گھٹنے سے ان کی موت واقع ہو گئی۔
کاک پٹ میں موجود افراد کی پریشان کُن پیشہ وارانہ ہسٹری
ڈریفَس رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ طیارے کے کپتان محمد علی خویطر کی تربیتی ہسٹری پریشان کن تھی، وہ سُستی کے ساتھ سیکھنے والے پائلٹ کے طور جانے جاتے تھے اور نئے جہاز پر عبور حاصل کرنے میں انھیں دیگر پائلٹس کی نسبت زیادہ وقت لگتا تھا۔
اسی طرح 26 سالہ فرسٹ آفیسر سامی حسنائن حادثے سے محض 11 دن پہلے ہی ٹرائی سٹار طیارے کا لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور ان کا سابقہ تربیتی ریکارڈ بھی اطمینان بخش نہیں تھا اور وہ ابتدا میں تربیتی پروگرام سے نکالے جا چکے تھے۔
بدقسمتی سے کاک پٹ میں موجود ٹیم کے تیسرے رُکن یعنی فلائٹ انجینیئر بریڈلی کرٹس کا ریکارڈ بھی بہت اچھا نہیں رہا تھا۔ 42 سالہ انجینیئر تینوں افراد میں سب سے سینئیر تھے مگر انھیں بھی متعدد مرتبہ ٹرائی سٹار جہاز کی تربیت سے متعلق ٹیسٹوں میں ناکامی کا سامنا رہا تھا جبکہ حال ہی میں انھیں ’ڈسلیکسیا‘ بیماری کی بھی تشخیص بھی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے انھیں پڑھنے اور آلات کو سمجھنے میں مشکلات پیش آتی تھیں۔
وقت پر تربیت مکمل نہ کرنے پر انھیں ملازمت سے نکال دیا گیا، لیکن انھوں نے اپنے خرچے پر فلائٹ انجینیئر بننے کی تربیت حاصل کی اور دوبارہ ملازمت پر آ گئے۔
ان تینوں کا ایل-1011 طیارے پر پرواز کا کُل تجربہ صرف 670 گھنٹے تھا اور تربیتی ریکارڈ کے مطابق اِن سب کو کمزور پائلٹ سمجھا جاتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اِن تینوں کے درمیان آپس میں روابط اور مشاورت کی شدید کمی بھی محسوس کی گئی تھی۔ جیسے ایک موقع پر سعودی کپتان نے امریکی انجینیئر کو ’گدھا‘ کہا، جو ان کے مابین اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ عملہ مختلف ثقافتوں اور زبانوں سے تعلق رکھتا تھا جوایسی نازک صورتحال میں ایک آئیڈیل ٹیم نہیں کہی جا سکتی تھی۔
آگ لگنے پر طیارے میں ردعمل
رپورٹ کے مطابق ابتدا میں ایک اور پھر دوسرے سموک ڈیٹیکٹر نے بھی دھویں کے سگنل دینے شروع کر دیے۔
ابتدا میں کپتان نے سمجھا کہ یہ ایک فالس الارم ہے اور پرواز جاری رکھی، ایسے میں فلائٹ انجینئر اپنی نشست سے اٹھے اور خود کارگو کیبن میں جا کر آگ اور بہت زیادہ دھوئیں کی موجودگی کی تصدیق کی اور واپس آ کر بتایا کہ آگ لگی ہوئی ہے۔
یہ سُن کر کپتان نے جدہ کی طرف سفر جاری رکھنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے ریاض ایئرپورٹ کی طرف واپس جانے کا فیصلہ کیا۔
پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘وہ جنھیں موت کھینچ کر حادثے والے طیارے میں لے گئی
رپورٹ کے مطابق ضابطوں کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کپتان سموک الارم بجتے ہی جہاز کو نزدیکی ایئرپورٹ کی جانب موڑ دیتے لیکن اس فیصلے میں سنگین تاخیر ہوئی اور طیارے کو ریاض واپس لے جانے کا فیصلہ کرنے میںتقریباً پانچ منٹ لگے۔
اس دوران کپتان، فرسٹ آفیسر، اور انجینیئر ایک دوسرے کے ساتھ غیر ضروری مکالمہ کرتے رہے، اور پھر ایسے نازک وقت میں کپتان کا عربی میں گنگنانا ماہرین کے نزدیک جذباتی انجماد یا اموشنل شٹ ڈاؤن کی علامت ہو سکتا ہے۔
کپتان خویطرکاک پٹ میں کیا کر رہے تھے؟
معروف ایوی ایشن رائٹر ایڈمرل کلاوڈبرگ نے ویب سائٹ میڈیم پر اس حوالے سے اپنی تحقیق پیش کی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اس سانحے میں کاک پٹ کے عملے نے انتہائی ناقص Crew Resource Management کا مظاہرہ کیا
تینوں کا ایل-1011 طیارے پر پرواز کا کُل تجربہ صرف 670 گھنٹے تھا اور تربیتی ریکارڈ کے مطابق اِن سب کو کمزور پائلٹ سمجھا جاتا تھا۔
فلائٹ انجینیئر بریڈلی کرٹس نے بارہا انخلا کے لیے مفید تجاویز دیں جنہیں کپتان محمد علی خویطر نے نظرانداز کر دیا۔ فرسٹ آفیسر سامی حسنائن بھی تقریباً غیر مؤثر ثابت ہوئے اور زیادہ تر صرف اُس وقت بولے جب کپتان نے براہِ راست حکم دیا۔
تینوں میں سے سب سے زیادہ صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے والے کرٹس ہی تھے، لیکن کپتان خویطر کا انھیں ’گدھا‘ یا ’جیک ایس‘ کہنا اس بات کی علامت تھا کہ انھوں نے کرٹس کی انسانی کمزوریوں کے باوجود ان کی تجاویز کی افادیت کو تسلیم نہیں کیا۔
کلاوڈبرگ ایک اور تھیوری کا ذکر بھی کرتے ہیں، جو اگرچہ زیادہ سنجیدہ مگر کم معتبر معلوم ہوتی ہے۔ اس کے مطابق مائیکل بسبی نامی ایک امریکی ڈیفنس کنٹریکٹر، جس کی رہائش گاہ ریاض ایئرپورٹ کے قریب تھی اور جو حادثے کا عینی شاہد تھا، نے 2010 میں ایک مضمون میں دعویٰ کیا کہ فلائٹ 163 کے فوراً انخلا نہ کرنے کی وجہ سعودی بادشاہ کا بوئنگ 747 جہاز تھا، جو اسی وقت پرواز بھرنے کے لیے تیار تھا۔
بسبی کے مطابق پروٹوکول یہ تھا کہ بادشاہ کے طیارے کی روانگی کے دوران تمام پروازیں رکی رہیں اور امکان ہے کہ فلائٹ 163 کے عملے کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر وہ 300 مسافروں کو رن وے پر فوری طور پر اتارتے تو بادشاہ کی روانگی میں رکاوٹ بنتے اور انہیں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا۔
دروازے کھلنے میں 29 منٹ لگے
رپورٹ کے مطابق طیارے نے شام چھ بج کر 36 منٹ پر کامیابی سے لینڈ کیا مگر کپتان نے ہنگامی بریکس (میکسیمم بریکنگ فورس) استعمال نہیں کیے جس کے باعث طیارہ دو منٹ سے زائدٹیکسی وے پر چلتا رہا، حالانکہ ہائیڈرو مکینیکل پریشر مؤثر طریقے سے کام کر رہا تھا۔
اگر ہنگامی بریک لگائی گئی ہوتی، تو طیارہ رن وے پر تقریباً دو منٹ پہلے رُک جاتا اور یہ عمل قریب موجود ایمرجنسی عملے کے لیے طیارے تک فوری رسائی ممکن بنا سکتا تھا۔ اگلا مرحلہ دروازے کھولنے کا تھا جس کے لیے انجنز کا بند ہونا ضروری تھا، لیکن اس کام میں بھی چھ منٹ لگ گئے۔
بلاآخر جب فائر فائٹرز اور ریسکیو ٹیمیں طیارے کے دروازوں تک پہنچیں، تو دروازے جام تھے اور ریسکیو ٹیم کے بیشتر اہلکاروں کے پاس ٹرائی سٹار طیارے کے دروازوں کو ان لاک کرنے کی نہ تو مطلوبہ تربیت تھی اور نہ ہی اس کے میکانزم کو ان لاک کرنے کے لیے ضروری آلات موجود تھے۔
کپتان نے چونکہ انجن فوری طور پر بند نہیں کیے اس لیے ریسکیو عملہ طیارے کے دروازے بروقت نہیں کھول سکا۔ اندر سے بھی R-2 دروازے کا ہینڈل کھینچا ہی نہیں گیا، ممکن ہے کہ اچانک بھڑکنے والی فلیش فائر اور زہریلے دھوئیں نے کیبن عملے کو بے بس کر دیا ہو۔ اس تاخیر نے قیمتی منٹ ضائع کیے اور مسافروں اور عملے کے بچنے کے امکانات ختم ہوگئے۔
اس دوران کیبن کے اندر نہ صرف کاربن مونو آکسائیڈ مکمل طور پر سرایت کر گئی بلکہ آگ کے شعلے بھڑکنےسے کیبن کا درجہ حرارت بھی غیر معمولی طور پر اُوپر چلا گیا۔
اور جب دروازے کھلے تو سب ختم ہو چکا تھا اور زیادہ تر مسافروں کی لاشیں کیبن کے سامنے والے حصے میں جھلسی یا مکمل طور پر جلی ہوئی پائی گئیں جہاں وہ زہریلے دھوئیں سے بچنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
فائر فائٹرز ابھی طیارے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ کچھ ہی لمحوں میں ایک فلش فائر ہوئی جس نے جہاز کی چھت کا آہنی میٹیرئل نیچے کی طرف لٹکا دیا اور فائر فائٹر واپس ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔
کیا نقص لاک ہیڈ طیارے میں تھا؟
سنہ 1972 میں جب لاک ہیڈ ایل-1011 ٹرائی سٹار نے پہلی بار پروازوں کا آغاز کیا تو اسے اس وقت کا سب سے جدید اور محفوظ مسافر طیارہ قرار دیا گیا تھا۔ تین انجنوں والا یہ بڑا طیارہ اپنی جدید ٹیکنالوجی اور منفرد خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہوا، جن میں خودکار فلائٹ کنٹرول سسٹم، ایڈوانسڈ نیویگیشن آلات اور نسبتاً آرام دہ کیبن ڈیزائن شامل تھے۔
کئی فیچرز ایسے تھے جنھیں بعد میں دوسری طیارہ ساز کمپنیوں نے بھی اپنایا۔سعودی ائیرلائن نے اس جہاز کو خاص طور پر طویل فاصلے کی پروازوں کے لیے اپنی فلیٹ میں شامل کیا تھا، جب کہ کچھ اندرونِ ملک راستوں پر بھی اسے استعمال کیا گیا۔
تاہم فلائٹ 163 کے حادثے نے یہ سوال ضرور پیدا کیا کہ کیا اس جہاز کے ڈیزائن میں کوئی بنیادی نقص موجود تھا؟ ڈگلس ڈریفَس کی رپورٹ کے مطابق اصل مسئلہ طیارے کی ٹیکنالوجی نہیں بلکہ اس کے فائر پروٹیکشن سسٹم کے ڈیزائن اور عملے کے غلط فیصلے تھے۔
کارگو کمپارٹمنٹ کلاس 'کلاس ڈی' کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا، جہاں فرض کیا گیا تھا کہ محدود آکسیجن کی وجہ سے آگ خود بجھ جائے گی، لیکن جب یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا تو آگ پھیلتی چلی گئی اور فائر پروف لائنر بھی ناکام ہو گیا۔
سانحے کے بعد سرکاری تحقیقات میں تو ہلاک شدگان کے لواحقین کے بیانات شامل نہیں کیے گئے لیکن ایک فائر ٹرک ڈرائیور کے بطور عینی شاہد کے مشاہدات سامنے آئے جس نے بتایا کہ ’طیارے کے پچھلے حصے سے گھنا سفید دھواں نکل رہا تھا اور انجن بند نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو عملہ دروازے کھولنے میں بار بار ناکام رہا۔ طیارہ رکنے کے بعد تقریباً پچیس منٹ تک اندر کوئی رسائی نہ ہو سکی اور جب آخرکار دروازہ کھولا گیا تو کیبن مکمل طور پر زہریلے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا اور اندر سے زندگی کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔‘
پاک فضایہ سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ ائیر کوموڈور جمال حسین اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’یہ حادثہ 1980 میں اُس وقت پیش آیا جب میں پاکستان فضائیہ کی فعال سروس میں تھا۔ بظاہر اس حادثے میں تکنیکی اور انسانی غلطیاں دونوں شامل تھیں۔ تحقیقات میں بھیآگ لگنے کی اصل وجہ کا تعین کچھ خاص نہ ہو سکا۔ طیارے کے ملبے سے برآمد ہونے والا چولہا بھی حتمی طور پر قصوروار ثابت نہ ہو سکا۔ تحقیقاتی رپورٹ نے یہ نتیجہ ضرور اخذ کیا کہ پائلٹ بہتر ہنگامی انخلا کا طریقہ کار اختیار کر سکتے تھے، لیکن یہ واضح نہ ہو سکا کہ کپتان نے ایسا کیوں نہیں کیا۔‘
ڈگلس ڈریفَس انکوائری رپورٹ نے واضح کیا کہ اگر فوری فیصلے اور مناسب تربیت ہوتی تو اس حادثے میں جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ حادثہ تکنیکی طور پر سروائیوایبل 'survivable' تھا، مگر انسانی اور انتظامی کوتاہیوں نے اسے تباہ کن بنا دیا۔ عملے کے تاخیری فیصلے، ہنگامی انخلا میں غفلت، ناقص تربیت، اور جہاز میں فائر سیفٹی سسٹمز کی کمی نے تمام 301 مسافروں کی جان لے لی، حالانکہ طیارہ ایمرجنسی کے باوجود کامیابی سے لینڈ کر گیا تھا۔
سعودی عرب میں پیش آئے اس حادثے نے عالمی سطح پر فضائی حفاظت کے قوانین اور پروٹوکولز کا ازسرنو جائزہ لینے پر مجبور کیا۔ اس کے نتیجے میں بہتر فائر ڈٹیکشن اور آگ بجھانے کے نظام، عملے کی ہنگامی حالات میں تربیت، فوری انخلا کے طریقہ کار، اور فضائی و زمینی عملے کے درمیان مؤثر رابطے جیسے اقدامات متعارف کروائے گئے۔
فلائٹ 163 کا حادثہ آج بھی دنیا بھر کی ایوی ایشن اکیڈمیوں میں ایک بنیادی کیس سٹڈی کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ صرف تکنیکی مہارت نہیں بلکہ بروقت فیصلہ سازی، فوری ردعمل اور مربوط رابطہ کاری ہی فضائی سفر میں تحفظ کی اصل ضمانت ہیں۔
ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘وہ جنھیں موت کھینچ کر حادثے والے طیارے میں لے گئینیپال طیارہ حادثہ: کاک پٹ کنٹینر میں پھنسا رہ گیا اور پائلٹ کی جان بچ گئی’دماغ ہلا دینے والا حادثہ‘ جب دلی کی فضا میں دو طیارے آپس میں ٹکرا گئے