دوپہر کا وقت ہے اورپنجاب کے ضلع فیصل آباد کے ایک گاؤں میں کھوجی (سراغ رساں جو قدموں کے نشانات کی مدد سے مجرم تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں) اللہ دتہ انتہائی غور سے زمین پر پیروں کے نشانات کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ گاؤں کے چند افراد کچھ فاصلے پر اُن کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔
اللہ دتہ ہر کچھ دیر بعد پیچھے چلتے مجمعے سے خاموش رہنے اور مناسب فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدایت کرتے جن کی دلچسپی اس بات میں تھی کہ کُھرا آخر کہاں تک جاتا ہے۔
کھوجی اللہ دتہ کی خدمات فیصل آباد کے ایک گاؤں کے زمیندار خوشی محمد (فرضی نام) نے حاصل کی تھیں جن کی 50 سالہ اہلیہ کو 30 اور 31 جولائی کی درمیانی شب نامعلوم ملزمان نے گھر میں گھس کر قتل کر دیا تھا۔
اس واقعے کی اطلاع مقامی پولیس کو بھی دی گئی تھی مگر خوشی محمد کے مطابق انھوں نے یہ بہتر جانا کہ وہ تفتیش کے لیے روایتی طریقہ بھی اختیار کریں اور قدموں کے نشانات کی مدد سے مجرم کا سراغ پانے کی کوشش کریں۔
کھوجی اللہ دتہ نے اپنے میزبان کو پہلے سے کہہ رکھا تھا کہ کُھرا ڈھونڈنے کا کام طویل اور پیچیدہ ہو گا، اس لیے کوئی بھی شخص ان کے راستے میں نہ آئے کیونکہ اگر پیروں کے نشانات گڈ مڈ ہو گئے تو کھرے تک پہنچنا ناممکن ہو جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ خوشی محمد نے اپنی حویلی میں تعزیت کی غرض سے آنے والوں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ آنے جانے کے لیے حویلی کے مرکزی راستے کے بجائے عقبی دروازہ استعمال کریں۔
اللہ دتہ نے اپنے کام کا آغاز حویلی میں عین اس مقام سے کیا جہاں قتل ہوا تھا۔ ابتدائی کوششوں کے بعد ہی انھیں حویلی کے اندر کچی زمین سے کچھ پیروں کے نشانات مل گئے تھے جن کے بارے میں اللہ دتہ کو شبہ تھا کہ یہ ممکنہ طور پر قاتلوں کے ہو سکتے ہیں۔
اور اب اللہ دتہ قدموں کے انھی نشانات کی پیروی کر رہے تھے اور اس سارے عمل میں ان کا بیٹا غلام رسول اُن کی معاونت کر رہا تھا۔
اس کیس کی ایف آئی آر کے مطابق خوشی محمد نے پولیس کو بتایا کہ انھوں نے دو شادیاں کر رکھی ہیں اور دونوں بیویاں الگ الگ حویلیوں میں رہتی ہیں جو ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر واقع ہیں۔
خوشی محمد کے مطابق انھوں نے 24 سال قبل مقتولہ سے دوسری شادی کی تھی جس سے اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ پہلی اہلیہ سے ان کے دو بیٹے اور سات بیٹیاں ہیں۔
انھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ 30 اور 31 جولائی کی درمیانی شب اپنے ڈیرے کے قریب ہی بیٹھے تھے جب انھوں نے ایک فائر کی آواز سُنی تو حویلی کی جانب دوڑے جہاں ان کی اہلیہ خون میں لت پت پڑی تھیں۔ اُن کے سر میں گولی ماری گئی تھی۔
Getty Imagesفائل فوٹو
وہ حویلی جہاں خوشی محمد کی دوسری اہلیہ کا قتل کیا گیا تھا وہ گاؤں سے کچھ باہر واقع ہے۔
کھوجی اللہ دتہ قدموں کا تعاقب کر رہے تھے جب اُن کا رُخ اچانک اُسی گاؤں کی جانب مڑ گیا جہاں خوشی محمد اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اپنے گاؤں کی طرف کھرا جاتے دیکھ کر پیچھے چلنے والے افراد میں کچھ بے چینی پھیل گئی اور کھسر پھسر شروع ہو گئی۔
خوشی محمد نے اللہ دتہ کی خدمات 25 ہزار روپوں کے عوض حاصل کی تھیں۔
شام لگ بھگ چھ بجے قدموں کے نشانات اُس حویلی کی طرف جانے لگے جو خوشی محمد کا آبائی گھر تھا۔ یہ بات حیران کر دینے والی تھی جس پر، خوشی محمد کے بقول، وہ خود بھی پریشان تھے۔
پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا اور کھوجی اللہ دتہ خوشی محمد کی حویلی کے باہر جا کر رُک گئے۔ پھر وہ احتیاط سے کچھ قدم آگے چلے لیکن پھر واپس آ گئے کیونکہ کھرا اُسی مقام پر رُک رہا تھا۔
اس موقع پر موجود ایک مقامی شخص کے مطابق اللہ دتہ نے زمیندار خوشی محمد کو بُلا کر اُن کے کان میں کچھ کہا، دونوں دس، پندرہ منٹ الگ ہو کر کچھ بات چیت کرتے رہے جس کے بعد اللہ دتہ کو اُن کا معاوضہ ادا کر دیا گیا اور انھیں روانہ کر دیا گیا۔
یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ خوشی محمد کی مقتولہ اہلیہ کی حویلی سے چلنے والا کُھرا ان کے ہی دوسرے گھر جا کر رُک گیا۔ اسی دوران مقامی پولیس بھی اپنی تفتیش شروع کر چکی تھی۔
اس کیس سے منسلک تفتیشی آفیسر سب انسپکٹر عبدالستار نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ ’اس کیس میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے کھوجی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پنجاب کے دیہی علاقوں میں سراغ رسانی کےلیے کھوجی آج بھی کامیاب سمجھا جاتے ہیں اور اگرچہ اُن کی شہادت عدالت میں مؤثر نہیں ہوتی لیکن کیس کی الجھی گھتیاں سلجھانے میں یہ ضرور مددگار ہوتا ہے۔‘
Getty Imagesوہ افسر جس نے پنجاب پولیس کے ریٹائرڈ کتوں کو انجیکشن دے کر مارنے سے بچایاانڈر ورلڈ اور کرائے کے قاتل: لاہور میں جرم کی دنیا کیسے چلتی ہے؟راولپنڈی میں ’غیرت‘ کے نام پر خاتون کا قتل: لاش قبرستان پہنچانے والا رکشہ ڈرائیور وعدہ معاف گواہ بن گیاگردن توڑ کر قتل کرنے والا لاہور کا مالشیا ’سیریل کِلر‘ کیسے بنا؟’بیٹی کو خود پولیس کے حوالے کیا‘
خوشی محمد نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کی تفصیل بتائی ہے۔ اُن کے مطابق کُھرے کی تلاش کے کام کے دوران ہی کھوجی نے انھیں بتایا تھا کہ پیروں کے نشانات ایک مرد اور ایک خاتون کے ہیں، یعنی ملزمان میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔
انھوں نے بتایا کہ یہ صورتحال اُن کے لیے انتہائی پریشان کُن تھی۔ خوشی محمد کے مطابق گھر پہنچ کر جب انھوں نے فرداً فرداً اپنی اہلیہ اور بچوں سے اس ضمن میں استفسار کیا تو اُنھیں پتا چلا کہ وقوعہ کے رات اُن کی ایک بیٹی گھر سے باہر نکلی تھی۔
انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے اپنی اُس بیٹی سے بات کی تو پہلے تو اُس نے صاف انکار کیا۔ ’میرے بار بار اصرار پر اس نے کہا کہ وہ ہمسائے میں گئی تھی۔ میں اپنے ہمسائیوں میں پتا کیا تو انھوں نے انکار کیا۔ جب میں نے سخت لہجے میں بیٹی سے پوچھا تو وہ مان گئی اور بتایا کہ اُس رات اس کے ساتھ اُس کا منگیتر بھی تھا، جو اپنے ہمراہ پستول لے کر آیا تھا۔‘
خوشی محمد کے مطابق اس کے بعد انھوں نے پولیس کو کال کی، جو پہلے ہی اُن سے رابطے میں تھی اور بتایا کہ ملزمان مل گئے ہیں۔ خوشی محمد کے مطابق بیٹی کو خود پولیس کے حوالے کرتے ہوئے اُن کی ’ٹانگیں کانپ گئی تھیں۔‘
کیس کے تفتیشی آفیسر عبدالستار کے مطابق تھانہ ڈجکوٹ پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کا اندراج چھ اگست کو کیا تھا جس کے بعد انھیں عدالت میں پیش کیا گیا اور ان کا چار روزہ ریمانڈ حاصل کیا گیا جہاں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے دونوں ملزمان چار روز کے لیے پولیس کی تحویل میں دے دیے۔
کیس کے تفتیشی آفیسر عبدالستار کے مطابق ’ملزمہ نے پولیس کو بتایا کہ اسے شک تھا کہ اُن کی سوتیلی والدہ تعویز،گنڈے کرتی ہیں جس کی وجہ سے اُن کے گھر میں آئے روز لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے اور اسی بنیاد پر انھوں نے یہ بات اپنے منگیتر سے کی اور سوتیلی والدہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔‘
تفتیشی افسر عبدالستار نے دعویٰ کیا کہ ’آلہ قتل ملزمہ کا منگیتر اپنے والد سے چھپ کر اٹھا لایا تھا۔ لڑکے نے پستول اپنی منگیتر کے حوالے کیا اور دونوں رات گیارہ بجے حویلی پہنچے جہاں لڑکی نے موقع پا کر سوتیلی ماں پر دو فائر کیے جس کے بعد یہ دونوں فوری طور پر واپس آگئے اور ملزم عبیدالرحمان پستول لے کر گھر واپس چلا گیا۔‘
جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد 10 اگست کو ملزمان کو ڈیوٹی جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں تفتیشی آفیسر عبدالستار نے عدالت کو بتایا کہ دونوں ملزمان سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے، ’جنھوں نے اقرار جرم بھی کر لیا ہے اور آلہ قتل بھی برآمد کیا جا چکا ہے۔‘
تفتیشی افسر نے بتایا کہ دونوں ملزمان سے مزید تفتیش کی ضرورت نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے دونوں ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر فیصل آباد جیل بھجوانے کا حکم دے دیا۔
یاد رہے کہ پنجاب اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی جرائم خاص طور پر جانوروں کی چوری وغیرہ جیسے معاملات میں ملزم کا سراغ پانے کے لیے کھوجی کی خدمات حاصل کی جاتیں ہیں۔ بی بی سی نے ایک کھوجی سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ کام کیسے ہوتا ہے؟
’کُھرا ڈھونڈنا آسان نہیں، سالوں کی محنت کے بعد یہ فن آتا ہے‘
وسطیٰ پنجاب کی تحصیل کامونکی کے علاقے واہنڈو کے رہائشی بشارت حسین کا دعویٰ ہے کہ اُن کا خاندان پانچ نسلوں سے اس پیشے سے وابستہ ہے۔
بشارت حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب کے لگ بھگ ہر ضلع میں کھوجی خاندان موجود ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق وسطیٰ پنجاب کے علاقوں میں سب سے زیادہ کھوجی ضلع حافظ آباد اور ضلع شیخوپورہمیں رہتے ہیں، کیونکہ ان اضلاع میں جرائم خاص طور پر بھینسوں کی چوری کی وارداتیں زیادہ ہیں۔
’یہ فن خاندانوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے۔ میرے دادا نے اپنے چاروں بیٹوں کو اس کام میں اپنے ساتھ رکھا اور انھیں کُھرا ڈھونڈنے کا ہنر سکھایا، میرے والد نے مجھے اور میرے بھائیوں کو یہ کام سکھایا۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اگرچہ اب یہ کام کم ہو چکا ہے مگر ’کھوجی اتنے پیسے کما لیتے ہیں کہ ان کا گھر باآسانی چل جاتا ہے۔‘
کام کے طریقے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بشارت حسین نے بتایا کہ ’کھوجی ملزم کے پیروں کے نشانات ڈھونڈنے سے اپنے کام کا آغاز کرتا ہے۔ ہر شخص کے قدموں کے نشانات الگ ہوتے ہیں۔ قاتل یا چور کی جسمانی ساخت کا بھی پیروں کے نشانات سے پتا چل جاتا ہے۔ اگر وہ معذور ہے تو اس کا بھی علم ہو جاتا ہے۔‘
’اور اگر کوئی خاتون ملزمہ ہو تو پیروں کے نشان سے اس کا پتہ لگانا بھی انتہائی آسان کام ہے۔ کوئی شخص زمین پر چلتے ہوئے ایڑی پر زور دیتا ہے، تو کوئی پنجے پر دباؤ ڈالتا ہے، بعض لوگ پاؤں کو زمین پر قدرے رگڑتے ہوئے چلتے ہیں، اور اگر پاؤں کا نشان واضح ہو تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم جسے تلاش کر رہے ہیں وہ بھاری بھر کم جسم کا مالک ہے یا دبلا پتلا یا خاتون۔‘
لیکن بشارت کے مطابق یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ ’یہ انتہائی باریک کام ہوتا ہے اور اگر بارش ہو جائے یا جس جگہ سے کھرا تلاش کرنا ہو، وہاں زیادہ لوگوں کی آمدورفت ہو جائے، تو کھرا تلاش کرنا قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔ کچی زمین پر کھرا آسانی سے مل جاتا ہے،لیکن پکی زمین یا سڑک پر یہ مشکل بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ پکی سڑک والے علاقے میں بسا اوقات دو، دو دن کام کرنے کے باوجود کھرا نہیں نکلتا۔‘
انھوں نے کہا ’ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ کھوجی کامیاب رہے اور بعض معاملات میں ماہر کھوجی بھی کُھرا نہیں ڈھونڈ پاتے۔‘
جب سلطان راہی کے قتل کیس میں کھوجیوں کو بلایا گیا
اگرچہ کھوجی کی مہارت ملزمان کو بے نقاب کرنے میں مدد کرتی ہے مگر اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ تاہم اس کے باوجود پنجاب میں بعض اوقات پولیس بھی کھوجیوں کی مدد لیتی ہے۔
ایسا ہی ایک مشہور کیس سلطان راہی کے قتل کا ہے جس میں قاتلوں کا سراغ لگانے کے لیے پنجاب پولیس کے ماہر ترین کھوجیوں کی خدمات حاصل کی تھیں۔
آٹھ اور نو جنوری 1996 کی درمیانی شب جب سلطان راہی اسلام آباد سے لاہور جا رہے تھے تو راستے میں گوجرانوالہ بائی پاس کے قریب گاڑی خراب ہو جانے کے باعث وہ ویران جگہ پر رُکے اور یہاں ہی اُن کا قتل ہوا۔
اس وقت یہ علاقہ تھانہ صدر گوجرانوالہ کی حدود میں آتا تھا جس کے ایس ایچ او راشد محمود سندھو تھے۔ وہ محکمہ پولیس سے بطور ڈی ایس پی ریٹائر ہو چکے ہیں۔
بی بی سی کے رابطہ کرنے پر راشد محمد سندھو نے بتایا کہ ’یہ اپنے وقت کی بڑی تفتیش تھی جس میں پولیس نے قاتل کی گرفتاری کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کیے جن میں کھوجی بھی شامل تھے۔‘
ان کے مطابق ’کھوجیوں کا کُھرا جائے وقوعہ سے شروع ہوا اور سمن آباد چونگی کی رہائشی آبادی کے اندر سے ہوتا ہوا کچھ فاصلے پر دوبارہ بائی پاس روڈ پر آ جاتا تھا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ قاتل اس واردات کے بعد آبادی کے اندر بھاگا اور مختلف ڈیروں سے ہوتا ہوا سڑک پر آ گیا اور وہاں سے کسی بس یا وین میں بیٹھ کر فرار ہو گیا۔‘
ریٹائرڈ ڈی ایس پی راشد محمود سندھو کہتے ہیں کہ ’کھوجیوں کا استعمال ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، خصوصا دیہی علاقوں میں اندھے قتلوں کا سراغ لگانے اور جانوروں (مویشیوں) کی چوری کے کیسز میں کھوجی کا کھرا 99 فیصد رزلٹ دیتا ہے، جن علاقوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نہیں ہوتے یا موبائل کی لوکیشن کام نہیں کرتی، وہاں آج بھی کھوجی کھوج نکال لیتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اب سراغ رسانی کے جدید طریقے آ گئے ہیں جنھوں نے کھوجیوں کی اہمیت کم کر دی ہے۔
کھوجی اور کُھرا ڈھونڈنے کا روایتی طریقہ جو انگریز دور میں پولیس نظام کا باقاعدہ حصہ تھا
صحافی و محقق وقار مصطفیٰ نے بی بی سی اُردو کے لیے اس معاملے پر کچھ تحقیق کی ہے جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
کھوجی پرانے زمانے سے ہر معاشرے، اور خاص طور پر دیہی معاشروں، کا لازمی حصہ رہے ہیں۔ پرانے زمانوں میں دودھ کے حصول یا سواری کے لیے رکھے گئے جانور ہی عام طور پر لوگوں کا قیمتی اثاثہ ہوتے تھے، چنانچہ ان جانوروں کے چوری ہو جاتے یا رات کے اندھیرے میں کسی گھر کی کچی دیوار یا چھت توڑ کر سامان نکال لیے جانے کی صورت میں متاثرہ افراد چور کا سُراغ پانے کے لیے کھوجیوں کی ہی مدد لیتے تھے۔
برطانوی ہندوستان میں کہیں کھوجی کو ’پگی‘ کہا گیا، کہیں ’پَیری‘، کہیں ’سُراغ رساں‘ اور کہیں ’کُھرے پٹ‘۔ تاہم عام فہم اور زیادہ مستعمل لفظ ’کھوجی‘ ہی رہا یعنی کھوج لگانے والا۔
19ویں صدی کا وسط ہمیں انگریزوں کے زمانے میں کھوجی اور پولیس کے تعلق کے ارتقا کا پتا دیتا ہے۔
پاکستان میں پولیس کا جو نظام رائج ہے وہ انگریزوں نے اس ملک میں شامل علاقوں میں سب سے پہلے صوبہ سندھ میں متعارف کروایا تھا اور کھوجی کو اس نظام کا باقاعدہ حصہ بنایا گیا تھا۔ یہ کھوجی کسی واردات کے بعد اپنے تجربے کی بنیاد پر تفتیش میں پولیس کے مددگار بنتے تھے۔
کراچی کے سندھ پولیس میوزیم میں محفوظتین جنوری 1883 کی ایکپولیس رپورٹمیں لکھا ہے کہ ’ٹھٹھہ سے تعلق رکھنے والے عمر جارو کی پالتو گائے چوری ہو گئی تو انھوں نے ایک تجربہ کار کھوجی کی مدد لی۔ کھوجی نے پولیس کانسٹیبل بچل شاہ کے ساتھ مل کر قدموں کے نشانات کا تعاقب کیا، اور آخرکار چور کو حیدرآباد کے قریب ایک گھر سے گرفتار کروا دیا۔‘
خوشونت سنگھ کی کتاب ’اے ہسٹری آف دی سکھس‘ کے مطابق، پنجاب میں سنہ 1849 میں انگریزوں کی حکومت آنے کے بعد ’پولیس کے ساتھ پیشہ ور کھوجی (پگی، کھوجی یا کھُرے پٹ) بھی منسلک کیے گئے، جو لاپتا مویشیوں کے نشانات کو طویل اور گرد آلود راستوں پر حیرت انگیز مہارت سے تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔‘
صوبائی پولیس کے اُس وقت کے سربراہ جارج ہچنسن نے صوبے میں کھوج کی روایت کی موجودگی پر سنہ 1861 میں ایک سروے کروایا۔ اس سے قبل وہ سنہ 1847 میں برطانوی پنجاب کے علاقے کرنال میں اپنا چوری شدہ سامان ایک کھوجی کی مدد سے ڈھونڈ چکے تھے۔
گگن پریت سنگھنے ’گلوبل فارنزک کلچرز‘ نامی کتاب میں اپنے ایک مضمون ’ٹریکنگ اینڈ ڈیٹیکشن اِن دِی لیٹ نائنتینتھ سنچری‘ میں اِسی سروے کے حوالے سےشمال مغربی ضلعوں میں کھوجی سسٹم کے معروف ہونے کا بتایا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’جہلم، گجرات، گوجرانوالا، جھنگ، منٹگمری (موجودہ ساہیوال)، لاہور، ملتان، مظفرگڑھ اور شاہ پور میں اس نظام کے استوار ہونے کا پتا چلتا ہے۔ یقیناً ان ضلعوں، جو اب انڈیا میں شامل ہیں، یہ نظام اُسی طور سے رائج ہو گا لیکن اِس سروے میں اُن میں سے صرف سرسہ اور حصار کا ذکر ہے۔‘
سنگھ لکھتے ہیں کہ ’انگریزکھوج کے پہلے سے موجود نظام کو اپنے پولیس نظام میں استعمال کرنا چاہتے تھے۔ سنہ 1861 میں کھوجیوں کو پنجاب کے پولیس نظام کا حصہ بنانے کے بعد پولیس سربراہ جارج ہچنسن کی طرح پولیس کے دیگر افسروں نے کھوج کے نظام کو اُن علاقوں میں بھیمتعارف کروایا جہاں یہ نظام پہلے سے موجود نہیں تھا۔‘
’لیکن پولیس ایکٹ1861 میں کھوجی کی ملازمت کا کوئی طریقہ بیان نہیں تھا۔ چونکہمقامی افراد کانسٹیبل رکھے جاتے تھے اس لیے ان پڑھکھوجی بھی کانسٹیبل ہی بھرتی کیے گئے۔‘
’البتہ کھوجیوں کو ملازمت کی پابندیاں اچھی نہ لگتیں اور وہ نجی کام کو ترجیح دیتے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق جن علاقوں میں مویشی چوری عام تھی، بہترین کھوجی سرکاری تنخواہ ملازم سے دوگنا زیادہ کما لیتے تھے۔‘
’پولیس کو انھیں ملازم رکھنے میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔ چونکہ کھوجینجی طور کام کرتے ہوئےچوری شدہ مال کے حساب سے اپنا معاوضہ طے کرتے، اسی لیے پولیس بھینجی طور پر اُن کی خدماتلیتی توبدلے میں انھیں آٹھ آنہ روزانہ یا دن کے ایک حصہ کے حساب سے معاوضہ دیا جاتا، جو پولیس کے اپنےملازم کھوجیوں کی مقررہ کردہ تنخواہ سے زیادہ تھا۔‘
’20ویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں پنجاب پولیس میں 150 کھوجی باقاعدہ ملازم تھے، لیکن انھیں بہت سی رعایتیں دینا پڑتی تھیں تاکہ وہ ملازمت نہ چھوڑیں۔‘
سنگھ نے گیڈن پاول کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہندوستان کے کچھ علاقوں میں ہر گاؤں میں ایک یا دو تربیت یافتہ کھوجی ہوتے ہیں۔
’کسی ڈاکے کی صورت میں کھوجی ایک گاؤں میں تب تک کھوج لگاتے ہیں جب تک کہ کُھرا اگلے گاؤں میں داخل نہ ہو جائے اور وہاں سے اگلے کھوجی کام سنبھال لیتے ہیں ۔اگر کُھرا اگلے گاؤں سے باہر نہ جائے تو سارے گاؤں کو چوری شدہ سامان کا ڈنڈ (جرمانہ) بھرنا پڑتا ہے۔‘
ہچنسن نے ایک تربیتی کتاب لکھی جسے اُردو میں ’ہدایت نامہ پولیس‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے ایک باب میں ’غیرطبعی موت‘ کی صورت میں جائے وقوعہ پر جا کر پولیس کو دیگر ہدایات کے ساتھ ساتھ ’قدموں کے تمام نشانوں کو ڈھانپ‘ دینے کی ہدایت کی گئی۔
لیکن پھر بھی جارج ہچنسن نے اپنی سنہ 1866 کی رپورٹ میں گوجرانوالا، منٹگمری اور ملتان میںکھوجیوں کے استعمال میں کمی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر حکومت نے تفتیش میں مفید اس نظام کی حوصلہ افزائی نہ کی تو یہ ختم ہو جائے گا۔ تین سال بعد پھر انھوں نے کھوجیوں کے استعمال میں کمی پر افسوس کا اظہار کیا۔
’اس کی بحالی کی امید کم ہے کیوںکہ کاشت بڑھ رہی ہے، سڑکیں بن رہی ہیں، آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، گویا قدموں کی کھوج مشکل تر ہو رہی ہے۔ تربیت یافتہ کھوجی بھی کم ہو رہے ہیں۔آدھی زندگی تو اس کام میں مہارت حاصل کرنے میں گزر جاتی ہے، کمائیں گے کہاں سے، کھائیں گے کہاں سے!‘
ہچنسن نے اپنی رپورٹوں میں عدالتوں کے کھوجیوں کے ثبوتوں کے لیے ہمدردانہ رویہ نہ رکھنے کو بھی اس فن کے زوال کا ذمہ دار قرار دیا یعنی عدالتیں کھوجیوں کے ثبوتوں کو شہادت کا درجہ نہیں دیتی تھیں۔
سنگھ کے مطابق عدالتوں کو کھوجیوں کے ثبوتوں پر اعتبار نہیں تھا اور اُن کا کہنا تھا کہ اس نظام کے ذریعے پولیس بے گناہ لوگوں کو بھی پھنسا سکتی ہے لیکن پھر بھی کھوج برطانوی دور کے اختتام تک انگریز پولیسنگ کا حصہ رہی۔
Getty Imagesکچھ کھوجی کتوں کا استعمال بھی کرتے ہیںکھوجی جو چور کی ظاہری تفصیلات بھی بتا دیتے
ہچنسن اس نظام کے کارآمد ہونے پر یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے کھوجیوں کو عدالتی ثبوت فراہم کرنے کی بجائے جرم کرنے والوں کا پیچھا کرنے، چوری شدہ سامان برآمد کرنے اور ثبوت اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
انگریز دور کے اخبار ’دی نیشن‘ کے سنہ 1912 کےایک مضمون ’فٹ پرنٹ اینڈ بلڈ مارک‘ میں لکھا ہے کہ قدموں کے نشانات کی باقاعدہ پہچان ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ’فرانس، جرمنی اور امریکا میں اس پر تفصیلی مطالعہ ہو رہا ہے، لیکن اب بھی مشرق میں مجرم کو صرف قدموں کے نشان سے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ شمالی ہندوستان کے کھوجی یہ مہارت اپنے آباو اجداد سے سیکھتے آ رہے ہیں۔‘
اِسی مضمون میں لکھا ہے کہ ایک یورپی شخص نے ایک کھوجی کی مہارت آزمانا چاہی۔ ’ایک گائے کو کیمپ سے بہت دور لے جایا گیا اور پھر ایک پُرپیچ راستے سے واپس لایا گیا۔ کھوجی کو گائے کے گم ہونے کا بتا کر اسے ڈھونڈنے کو کہا گیا۔‘
’جُھکے سر، ادھ کھلی آنکھوںکے ساتھ اورجھجھک کے بغیر کھوجی نے ریت پر موجود موہوم قدموں کا پیچھا کیا، جو اُن کے ساتھ جانے والے پہچان بھی نہ پاتے۔ اس نے ان نشانوں کا پیچھا کرتے ہوئے بتایا کہ گائے کے کھُروں کے نشان کیسے ہیں، چور کے جوتے میں دو جگہ پیوند لگے ہیں، اور یہ کہ ایک جگہ اس نے جوتے اُتارے بھی، اُس کے پاؤں چپٹے ہیںاور اس کا ایک انگوٹھا لمبا ہے، وہ (چور) بوڑھا ہے اور عام طور پر بوجھ اٹھانے کا کام کرتا ہے۔۔۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے کُھرا واپس کیمپ میں آ گیا جہاں گائے اور وہ شخص موجود تھا جو گائے لے کر گیا تھا۔ جو کچھ کھوجی نے کہا تھا سب درست نکلا۔‘
اپنییادداشت ’میمائرز آف دی ہسٹری‘ میں ایک انگریز افسر سر ہنری مائر ایلیئٹ نے ملتان کی ایک اونٹ منڈی سے ایک اونٹ کی چوری کا واقعہ لکھا ہے۔
’اونٹ کے مالک نے اس کے پاؤں میں ایک مخصوص نشانی لگا رکھی تھی۔ کھوجی نے دیکھا کہ یہ نشانی شمال کی جانب جا رہی ہے۔ ایک اور اونٹ پر سوار ہو کر، کھوجی نے اس کھُرے کا دو سو میل سے زیادہ پیچھا کیا۔ اب وہ گجرات میں تھا، یہاں زمین زرخیزہے اور بہت زیادہ کاشت ہوتی ہے۔‘
’یہاں اس کا کھُرا کچھ دیر کے لیے کُھو گیا۔ اس نے میری مدد کے لیے درخواست کی۔ میں نے ایک اور کھوجی اس کے ساتھ کر دیا اور دونوں نے کھُرا پھر سے پکڑ لیا اور اونٹ کے مالک کے ساتھ بالآخر کشمیر کی پہاڑیوں کے نیچے ایک چھوٹے سے قصبے کی منڈی میں اونٹ کو پا لیا اور فاتحانہ گجرات واپس آئے۔‘
ایلیئٹ کے مطابق ’کھُرے کا پیچھا کرنے میں بعض اوقات کھوجی تین چھوٹے تنکوں کا سہارا بھی لیتا ہے جن سے وہ قدم اور اس کے مختلف حصوں کی لمبائی اور چوڑائی ماپتا ہے۔ لیکن بہت سے اچھے کھوجی ایسی معاونت پسند نہیں کرتے اور صرف اپنی آنکھ پر بھروسا کرتے ہیں۔‘
’دی نیشن‘ کے مضمون کے مطابق سر ایڈمنڈ کاکس نے کہا تھا کہ انسانی وراثت کی یہ حیران کن صلاحیت آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔
تاہم پنجاب کے اُن اضلاع میں جہاں مویشی چوری زیادہ ہوتی ہے، پولیس کی ویب سائٹس پر اب بھی کھُرے کی تلاش کے لیے کھوجی کے ہنر سے فائدہ اٹھانے کا تذکرہ ہے۔
راولپنڈی میں ’غیرت‘ کے نام پر خاتون کا قتل: لاش قبرستان پہنچانے والا رکشہ ڈرائیور وعدہ معاف گواہ بن گیاوالد کی اٹلی سے پاکستان واپسی اور گھر میں ’ڈکیتی‘: گوجرانوالہ میں دو بہنوں کے پُراسرار قتل پر والدین کی گرفتاریانڈر ورلڈ اور کرائے کے قاتل: لاہور میں جرم کی دنیا کیسے چلتی ہے؟گردن توڑ کر قتل کرنے والا لاہور کا مالشیا ’سیریل کِلر‘ کیسے بنا؟وہ افسر جس نے پنجاب پولیس کے ریٹائرڈ کتوں کو انجیکشن دے کر مارنے سے بچایا