BBCآج سے ٹھیک 50 سال قبل، یعنی 15 اگست 1975 کو بالی ووڈ فلم ’شعلے‘ ریلیز کی گئی تھی
’جس سینما ہال میں ہم نے شعلے دیکھی تھی، اس میں اتنی بڑی سکرین تھی کہ فلم دیکھنے کے لیے ناظرین کو دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں سر موڑنا پڑتا تھا۔‘
یہ کہانی نیپال کے سینیئر فلم نقاد بیجیرتن تولادھر نے سنائی جوانڈین سنیما کی اس ’لازوال‘ فلم کے پرستار ہیں۔
بیجیرتن نیپال میں اپنے بچپن کے دوستوں کی کہانیاں یاد کرتے ہیں جو شعلے دیکھنے کے لیے نیپال سے انڈیا تک بس کے ذریعے 200 کلومیٹر کا سفر کرتے تھے اور پھر لوٹ کر فلم کے بارے میں ڈینگیں مارتے اور وہ کہانیاں سناتے تھے جو مبالغہ آرائی سے بھرپور ہوتی تھیں۔
اس وقت دھرمیندر کے کچھ تبصروں پر ناراضگی کی وجہ سے نیپال میں ان کی فلموں پر پابندی لگا دی گئی تھی اور اس لیے شعلے کی نمائش پر بھی نیپال میں پابندی تھی۔
بیجیرتن تولادھر کہتے ہیں کہ ’جب شعلے ریلیز کی گئی، تو کھٹمنڈو کے بہت سے لڑکے اسے دیکھنے کے لیے خاص طور پر بہار کے علاقے رکسال جاتے تھے۔ میرے کچھ دوست گھر سے بھی بھاگ گئے۔ کئی لوگوں نے شعلے کو دیکھنے کے لیے اپنے والدین کے پیسے بھی چوری کیے۔‘
50 سال قبل، 15 اگست 1975 کو ریلیز ہونے والی شعلے کا جادو ایسا ہی ہے کہ پانچ دہائیوں کے بعد بھی لوگ اسے نہ صرف انڈیا میں بلکہ اس کی سرحدوں سے باہر بھی یاد کرتے ہیں۔ فلم کے مشہور ولن گبر سنگھ اب بھی مشہور ہیں نہ صرف انڈیا میں بلکہ ایران جیسے ممالک میں بھی جہاں وہ ’جبار سنگھ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
ایران اور عراق کی جنگ، بسنتی اور شعلےBBC
انڈیا میں فلم شعلے کی ریلیز کے کچھ سال بعد 1980 کی دہائی آئی وہ وقت جب ایران اور عراق برسرِپیکار تھے۔
جنگ کے سائے میں ایک غیر معروف زبان میں بنائی گئی ایک فلم کتایون قزلباش جیسے بہت سے ایرانیوں کے لیے ایک خاص معنی رکھتی تھی۔
کتایون کہتی ہیں ’یہ جنگ کا وقت تھا۔ ایران میں وی سی آر رکھنا جرم تھا۔ کسی نہ کسی طرح، بہت کوشش کے بعد خفیہ طور پر ہم ویڈیو ٹیپ کا انتظام کرتے تھے اور بند کمروں کے اندر ہم فلموں میں کھو جاتے۔ ایسی ہی ایک فلم شعلے تھی۔ ویرو اور جے کی دوستی اور تفریح نے ہمارے دل جیت لیے۔‘
ان کے مطابق ’جب بسنتی (ہیما مالنی) رنگ برنگے کپڑے پہن کر گبر کے سامنے ننگے پاؤں رقص کرتی تھیں، تو میں بھی اپنے کمرے میں اسی طرح گھومتی تھی جیسے کیمرہ میری ویڈیو بنا رہا ہو۔ بے یقینی اور جنگ کے خوف کے درمیان ہم بچوں نے خوشی کے چند لمحوں کا پیچھا کیا۔ شعلے میرے لیے صرف ایک فلم نہیں تھی بلکہ یہ ایران میں میرے بچپن کا ایک قیمتی حصہ تھی۔‘
جلتی چٹانوں اور ٹوٹے شیشوں پر ہیما مالنی کا رقص
گانوں اور بسنتی کی بات کریں تو گانا ’جب تک ہے جان‘ گرمیوں میں جلتی ہوئی چٹانوں پر فلمایا جانا تھا جہاں ہیما مالنی کو بسنتی کے روپ میں گبر سنگھ کے سامنے ننگے پاؤں رقص کرنا پڑا تھا۔
اگرچہ ان کے پیروں کو گرم چٹانوں سے بچانے کے لیے پیڈ فراہم کیے گئے تھے لیکن انھیں پہن کر رقص کرنا مشکل تھا لہٰذا گرمی کے باوجود زیادہ تر شاٹس ننگے پاؤں فلمائے گئے۔
ایک منظر میں سامبا (گبر کا ساتھی) شیشے کی بوتل توڑ دیتا ہے اور بسنتی کوشیشے کے ٹکڑوں پر ننگے پاؤں رقص کرنا پڑتا ہے۔
اس شاٹ کی عکس بندی کے دوران شیشے کے کچھ ٹکڑے ہیما مالنی کے پاؤں میں حقیقتاً چبھ گئے لیکن اس کے باوجود انھوں نے زخمی پیروں کے ساتھ گانے کی شوٹنگ مکمل کی۔
ڈھاکہ کے بچے اور ’گبر گیم‘
انڈیا کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں بھی آپ کو شعلے کے مداح مل سکتے ہیں۔
ڈھاکہ کی رہائشی فرزانہ باری رتنا یاد کرتی ہیں کہ
’یہ 1990 کی دہائی کی بات ہو گی۔ بچپن میں، ہم پورے خاندان کے ساتھ شعلے فلم وی سی آر پر دیکھا کرتے تھے۔ بچوں کو گبر کا کردار بہت پسند آیا۔ ہمارا پسندیدہ کھیل شعلے کے مناظر کو دوبارہ پیش کرنا اور ایک دوسرے سے پوچھنا تھا، ’کتنے آدمی تھے؟‘
جب ڈش ٹی وی آیا تو شعلے کے گانے بار بار بجنے لگے،یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے اور وہ ہولی کا گانا،
یہ کہہ کر فرزانہ ’محبوبہ او محبوبہ‘ لہک لہک کر گانے لگیں۔
محبوبہ محبوبہ اور شعلے
یقینا، محبوبہمحبوبہ، جسے ہیلن پر فلمایا گیا تھا اور خود آر ڈی برمن نے گایا تھا، بے حد مقبول ہوا تھا۔
اس کی دھن یونانی گلوکار ڈیمس روسوس کے گانے ’سے یو لو می‘ سے بہت ملتی جلتی ہے جو شعلے سے پہلے 1974 میں منظر عام پر آیا تھا اور خود اس کی دھن بھی ایک پرانے لوک گیت سے ملتی جلتی ہے۔
انوپما چوپڑا کی شعلے پر لکھی گئی کتاب کے مطابق سکرپٹ رائٹر جاوید اختر شروع میں اس گانے کو شامل کرنے کے خلاف تھے۔
’سو جا بیٹا ورنہ گبر آ جائے گا‘: پانچ سال تک سینما میں چلنے والی ’شعلے‘ جو 50 برس بعد نئے اختتام کے ساتھ ریلیز ہو گیشعلے کے ’ٹھاکر‘ سنجیو کمار، جن کا لاکھوں روپے کا ادھار ہڑپ لیا گیا’شعلے‘ سے لے کر ’برفی‘ تک، بالی وڈ کی سپر ہٹ فلموں پر نقل کا الزام کیوں لگتا ہے؟سلمان، شاہ رخ اور عامر ایک سٹیج پر: ’بالی وڈ کے فلمساز جو کام 35 برسوں میں نہ کر سکے، وہ امبانی نے کر دکھایا‘
انھوں نے محسوس کیا کہ گبر سنگھ جیسا سخت گیر ڈاکو اس طرح کا گانا دیکھ کر مطمین نہیں ہو گا لیکن گانا سننے کے بعد جاوید نے اتفاق کیا کہ یہ بہت اچھا تھا۔ انھوں نے اسے دھرمیندر اور ہیما مالنی پر فلمانے کا مشورہ دیا حالانکہ رمیش سپی اور دیگر لوگوں کو لگا کہ یہ ویرو اور بسنتی پر نہیں جچے گا۔
پاکستان میں ’شعلے‘ کی آڈیو ٹیپس
اصل ریلیز کے 40 سال بعد 2015 میں جب شعلے کو پاکستان میں ریلیز کیا گیا تو ناظرین فلم دیکھنے کے ساتھ ساتھ گبر، بسنتی، جے اور ویرو کے مکالمے بھی دہراتے دکھائی دیے۔
اگرچہ شعلے کئی دہائیوں تک پاکستانی سینما گھروں میں نہیں چل سکی لیکن شعلے کی 120 منٹ طویل آڈیو ٹیپ برسوں سے وہاں موجود تھی۔
جب بھی خلیجی ممالک سے مہمان آتے تو وہ اپنے پاکستانی رشتہ داروں کے لیے تحفے کے طور پر شعلے کی آڈیو ٹیپ لے کر آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو یہ مکالمے یاد تھے۔
بی بی سی کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں ایم الیاس خان پاکستانی صحافی حمید بھٹو کی ایک کہانی بتاتے ہیں کہ’میرے ایک دوست نے گاڑی خریدنے میں میری مدد کی تھی۔ کچھ دنوں بعد اس نے فون کیا اور پوچھاکہ ’آپ کی دھنو کیسی چل رہی ہے؟‘
یہ ان درجنوں حوالوں میں سے ایک حوالہ ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ شعلے کی مقبولیت کس طرح نسلوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
ہالی وڈ سے تقابل اور افریقی مداح
اس بارے میں ہمیشہ سے بحث ہوتی رہی ہے کہ کیا ’شعلے‘ کے لیے ’ونس اپون اے ٹائم ان دی ویسٹ‘ جیسی ہالی وڈ فلموں سے ترغیب لی گئی تھی۔
افریقہ میں رہنے والے اس فلم کے ایک مداح نے یوٹیوب پر ان کا موازنہ دیکھنے کے بعد اختلاف کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہالی وڈ کی فلموں کے مقابلے میں ہم افریقیوں نے شعلے کو زیادہ پسند کیا کیونکہ ہم انڈین ثقافت اور روایات سے بہتر تعلق قائم کر سکتے تھے۔ شعلے کے جذباتی مواد نے ہمیں ہالی وڈ سے زیادہ متاثر کیا۔‘
شعلے انڈیا سے باہر اتنی مقبول کیوں؟
شعلے کو مختلف زبانوں، ممالک اور ثقافتوں میں اتنا محبوب بھلا کیا چیز بناتی ہے؟
ایرانی میڈیا کے مورخ بہروز تورانی بتاتے ہیں کہ ’1980 کی دہائی میں ایرانی حکومت نے گانے اور رقص پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے باوجود، شعلے ایران میں بے حد مقبول ہوئی کیونکہ اس میں وہ تمام چیزیں تھیں جن پر پابندی عائد تھی یعنی رومانس، بہادری، گانے اور انڈین فلموں کا وہ عام زندگی سے کہیں بڑا انداز۔ ایرانی ان پہلوؤں سے محبت کرتے تھے۔‘
جب شعلے کو آغاز میں ایک ناکام فلم قرار دیا گیا
انڈین سنیما کی سب سے بڑی ہٹ فلموں میں سے ایک سمجھی جانے والی اس فلم کو ریلیز کے پہلے چند ہفتوں میں ہی فلاپ قرار دے دیا گیا تھا۔
انوپما چوپڑا کی کتاب میں بنگلور کی ایک خاتون ڈیلورس پریرا کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے جو ٹیرو کارڈ ریڈر تھیں۔
کتاب کے مطابق ’1974 کی بات ہے جب تین افراد ان کے گھر آئے۔ ٹوپی پہنے ایک چھوٹا آدمی جو ایک فلم ڈائریکٹر تھا، ایک داڑھی والا شخص جو ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے غسل کی شدید ضرورت ہے (امجد خان) اور ان کی اہلیہ۔ اداکار (امجد خان) کو دیکھتے ہی ڈیلورس نے کہا کہ یہ شخص بلندیوں پر پہنچ جائے گا اور فلم برسوں تک سینما گھروں میں چلے گی۔‘
اس معاملے کو بھلا دیا گیا، لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو امجد خان کے کردار میں گبر سنگھ نے سنسنی پھیلا دی اور شعلے پانچ سال تک سینما گھروں میں چلی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گبر سنگھ انڈیا میں ایک حقیقی ڈاکو تھا جو لوگوں کی ناکیں کاٹنے کے لیے بدنام تھا۔
شعلے کی شوٹنگ دو اکتوبر 1973 کو جنوبی انڈیا کے شہر بنگلور کے نواح میں واقع قصبے رام نگرم کے قریب شروع ہوئی تھی لیکن پہلے ہی دنبارش نے عکس بندی ہونے ہی نہیں دی۔
تین اکتوبر کو پہلا منظر فلمایا گیا جس میں امیتابھ بچن نے چوری کی کوشش کے بعد جیا بچن کو چابیاں لوٹاتے دکھایا گیا اور اس چار لائن کے آئیڈیا سے ہندی سنیما کو ہمیشہ کے لیے ایک گیم چینجر مل گیا۔
’سو جا بیٹا ورنہ گبر آ جائے گا‘: پانچ سال تک سینما میں چلنے والی ’شعلے‘ جو 50 برس بعد نئے اختتام کے ساتھ ریلیز ہو گیشعلے کے ’ٹھاکر‘ سنجیو کمار، جن کا لاکھوں روپے کا ادھار ہڑپ لیا گیا’شعلے‘ سے لے کر ’برفی‘ تک، بالی وڈ کی سپر ہٹ فلموں پر نقل کا الزام کیوں لگتا ہے؟سلمان، شاہ رخ اور عامر ایک سٹیج پر: ’بالی وڈ کے فلمساز جو کام 35 برسوں میں نہ کر سکے، وہ امبانی نے کر دکھایا‘شاہ رخ کی ’منت‘ اور راجیش کھنہ کا ’آشیرواد‘: بالی وڈ ستاروں کے وہ گھر جو ان کے لیے ’خوش قسمتی‘ کا سبب بنے’کون بنے گا کروڑ پتی‘ میں انڈین خواتین فوجی افسران کی شرکت: ’مودی سیاست کے لیے فوج استعمال کر رہے ہیں‘