ٹرمپ اور پوتن الاسکا میں آج ہونے والی اہم ملاقات سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 15, 2025

Getty Images’پوتن ہمیشہ ایک سمجھدار مذاکرات کار رہے ہیں، وہ روس کی شرائط پر ٹرمپ کو امن کا اعلان کرنے کی اجازت دینے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن آج (15 اگست) امریکی ریاست الاسکا میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے جہاں یوکرین میں روس کی جنگ کے خاتمے پر بھی بات چیت ہو گی۔

ٹرمپ کی ’عالمی سطح پر ایک امن ساز‘ کے طور پر تعارف کی خواہشں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے مگر پوتن ابھی بھی یوکرین کے مقبوضہ علاقے اپنے نام کرنے سے متعلق نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

دونوں رہنما دیگر امور پر بھی گفت و شنید کر سکتے ہیں، جیسے پوتن کی طرف سے عالمی سطح پر روس کے سفارتی تعلقات کی بحالی اور اس میں بہتری۔ ٹرمپ کے مقاصد کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ انھوں نے حال ہی میں پوتن کے حوالے سے بہت سے متضاد بیانات دیے ہیں۔

اس رپورٹ میں ہم جائزہ لیں گے کہ دونوں رہنما اس اہم ملاقات سے کیا چاہتے ہیں، جس پر پوری دنیا کی نظریں ہیں۔

پوتن کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل کرنے کی تگ و دو

سٹیو روزنبرگ، مدیر روس

پوتن اس سربراہی اجلاس سے جو پہلی چیز چاہتے ہیں، وہ وہ چیز ہے جو انھیں پہلے ہی دے دی گئی ہے۔

اور یہ ہے اُن کی حیثیت کو تسلیم کرنا۔

دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے کہ پوتن کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی مغربی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ دونوں رہنماؤں کی آج ہونے والی یہ میٹنگ اس بات کا ثبوت ہے۔

کریملن یہ دلیل دے سکتا ہے کہ روس نے عالمی سیاست میں سب سے نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے۔

پوتن نے نہ صرف امریکہ اور روس کے درمیان سربراہی ملاقات کا انعقاد یقینی بنایا ہے بلکہ روس کے لیے ایک اہم مقام بھی چُنا ہے۔ امریکہ کے پاس روس کو پیش کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

سب سے پہلے سکیورٹی کے نقطہ نظر سے اس ملاقات کو دیکھ لیتے ہیں۔ امریکی ریاست الاسکا، جہاں یہ ملاقات ہونی ہے، روس سے صرف 90 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔ ولادیمیر پوتن ’دشمن‘ ممالک کی فضا سے پرواز کیے بغیر یہاں پہنچ سکتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ملاقات کی جگہ یوکرین اور یورپ سے بہت دور ہے۔ یہ کریملن کے کئیو اور یورپی یونین کے رہنماؤں کو نظر انداز کرنے اور امریکہ کے ساتھ براہ راست معاملات طے کرنے کے عزم کے ساتھ اچھی طرح سے مطابقت رکھتا ہے۔

ملاقات کے مقام کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے۔ روس نے 19ویں صدی میں الاسکا کو امریکہ کو فروخت کر دیا تھا۔ اور اب اسی نکتے کو ماسکو 21ویں صدی میں طاقت کے ذریعے سرحدوں کو تبدیل کرنے کے لیے جواز کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

اخبار ’موسکوفسکی کومسومولیٹس‘ نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ الاسکا ایک واضح مثال ہے کہ ریاست کی سرحدیں تبدیل ہو سکتی ہیں اور یہ کہ بڑے علاقوں کی ملکیت تبدیل ہو سکتی ہے۔

لیکن پوتن صرف بین الاقوامی شناخت اور تاریخی علامتوں سے کہیں زیادہ کچھ چاہتے ہیں۔

وہ فتح چاہتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ روس یوکرین کے چار علاقوں، ڈونیٹسک، لوہانسک، زاپوریژیا اور خرسن، کو اپنے قبضے میں رکھے اور یوکرین ان علاقوں سے دستبردار ہو جائے، جو اب بھی یوکرین کے کنٹرول میں ہیں۔

یوکرین کے لیے یہ ناقابل قبول ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ ’یوکرین کے لوگ اپنی زمین قابض (روس) کو نہیں دیں گے۔‘ کریملن یہ بات جانتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے ان مطالبات کے لیے ٹرمپ کی حمایت حاصل کر لیتا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یوکرین کی جانب سے مسترد کیے جانے کے نتیجے میں ٹرمپ یوکرین کی ہر طرح کی حمایت ترک کر دیں گے۔ یوں روس اور امریکہ باہمی تعلقات اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک ساتھ آگے بڑھیں گے۔

’تاریخ کا بہترین سودا‘: 72 لاکھ ڈالر میں روس سے الاسکا کی خریداری جسے امریکہ میں ’احمقانہ‘ قرار دیا گیامغربی ممالک روس پر پابندیاں لگانے کے باوجود یوکرین جنگ میں اس کی ’مالی مدد‘ کیسے کر رہے ہیں؟مغربی پابندیوں کے باوجود روس سستا تیل کیسے فروخت کر رہا ہے؟تیل کی ترسیل کا ’خفیہ‘ نیٹ ورک: روس اور ایران کی منافع بخش برآمد پر امریکی پابندی کتنی کامیاب ہوئی؟

مگر یہاں روس کو ایک اور صورتحال کا بھی سامنا ہے۔

روس کی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔ بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے، تیل اور گیس کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی کم ہو رہی ہے۔

اگر معاشی مسائل نے پوتن کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کیا تو پھر ایسے میں کریملن سمجھوتے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ مگر فی الحال اس کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔

ٹرمپ امن کی جانب پیش رفت کا دعویٰ کرنے کے خواہاں ہیں

انتھونی زرچر، نمائندہ برائے شمالی امریکہ

ٹرمپ نے سنہ 2024 کی صدارتی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ یوکرین جنگ کا خاتمہ کریں گے اور یہ کہ وہ صدارتی دفتر سنبھالنے کے بعد چند ہی دنوں میں ایسا کر سکتے ہیں۔

یہ وعدہ امریکی صدر کی اس تنازع کو حل کرنے کی کوششوں پر منحصر ہے کیونکہ انھوں نے جنوری میں وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد سے یوکرین اور روس کے درمیان جاری اس تنازع پر اپنی مایوسی کا بھی اظہار کیا ہے اور اس معاملے میں صرف ایک فریق یوکرین کی خبر بھی لی ہے۔

صدر ٹرمپ نے فروری میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والے ایک ڈرامائی اجلاس میں زیلنسکی کو آڑے ہاتھوں لیا اور بعد ازاں اس کے ساتھ فوجی امداد اور انٹیلیجنس کے تبادلے کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔

مگر حالیہ عرصے میں امریکی صدر اپنے روسی ہم منصب کی ’ہٹ دھرمی‘ اور سویلین اہداف پر حملہ کرنے پر زیادہ تنقید کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے روس اور ان کے ساتھ کاروبار کرنے والے دیگر ممالک پر نئی پابندیوں کی راہ استوار کی اور انھوں نے اس متعلق متعدد ڈیڈ لائنز بھی دیں۔

گذشتہ جمعے کو ایسی ہی ایک آخری ڈیڈ لائن تھی، مگر اس سے پہلے خود ٹرمپ ہی بالآخر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئے۔

اب وہ امریکی سرزمین پر روسی صدر کی میزبانی کر رہے ہیں اور ’زمین کے تبادلے‘ کی بات کر رہے ہیں، جس کے بارے میں یوکرین کو خدشہ ہے کہ امن کے بدلے زمین کی رعایتیں دینا بھی شامل ہو سکتا ہے۔

لہٰذا جمعے کے روز پوتن کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے دوران ٹرمپ کیا چاہتے ہیں، اس بارے میں کوئی بھی بات چیت صدر کے متضاد بیانات اور اقدامات سے متاثر ہوتی ہے۔

Reuters’ٹرمپ تفصیلات میں الجھنے والے شخص نہیں ہیں مگر وہ ’جنگ ختم کرنے والا شخص‘ بننے کے کسی بھی موقع کا خیرمقدم کریں گے‘

اس ہفتے صدر ٹرمپ نے اس ملاقات کے بارے میں توقعات کو کم کرنے کے لیے ایک ٹھوس کوشش کی ہے۔ شاید یہ جنگ میں صرف ایک فریق کے ساتھ پیش رفت کے محدود امکانات کا خاموش اعتراف ہے۔

پیر کے روز انھوں نے کہا کہ یہ سربراہی اجلاس ایک ’فیل آؤٹ‘ میٹنگ ہو گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ انھیں پتا چل جائے گا کہ آیا وہ ’شاید پہلے دو منٹ میں‘ روسی رہنما کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں یا نہیں۔

ٹرمپ کے مطابق ’میں نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے اس اجلاس سے باہر نکل سکتا ہوں اور یہی پھر اس اجلاس کا اختتام ہو گا۔‘ امریکی صدر نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے میں یہ کہوں کہ یہ معاملہ حل نہیں ہونے والا ہے۔‘

منگل کے روز وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کارولین لیویٹ نے اس پیغام کو مزید تقویت دیتے ہوئے اس سربراہی اجلاس کو ’سننے کا سیشن‘ قرار دیا ہے۔

صدر ٹرمپ سے کسی غیر متوقع بات کی توقع کرنا ہی اکثر بہتر آپشن ثابت ہوتا ہے۔ زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں نے بدھ کے روز اُن سے بات کی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ پوتن کے ساتھ ایسا معاہدہ نہ کریں جسے یوکرین قبول نہ کرے۔

مگر پورے سال عملی طور پر ایک چیز واضح رہی ہے: ٹرمپ جنگ ختم کرنے والے شخص بننے کے موقع کا خیرمقدم کریں گے۔

اپنے افتتاحی خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی سب سے قابل فخر وراثت ایک ’امن ساز‘ کی حیثیت سے ہو۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ وہ نوبل امن انعام حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ عالمی سطح پر ان کی خدمات کا اعتراف ہو سکے۔

ٹرمپ تفصیلات میں الجھنے والے شخص نہیں ہیں۔

لیکن اگر انھیں یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملے کہ انھوں نے الاسکا کے شہر اینکرج میں ہونے والی بات چیت کے دوران امن کی جانب پیش رفت کی ہے تو وہ اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔

پوتن جو ہمیشہ ایک سمجھدار مذاکرات کار رہے ہیں، وہ روس کی شرائط پر ٹرمپ کو ایسا کرنے کی اجازت دینے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔

روسی فوجیوں کو قتل کرو اور پوائنٹس کماؤ: یوکرین کی نئی سکیم جس نے خون ریز جنگ کو کسی گیم میں تبدیل کر دیاروس سے سستے تیل کی درآمد اور ٹرمپ کی دھمکی: کیا انڈیا امریکی دباؤ میں اپنے پرانے اتحادی سے تجارت روک سکتا ہے؟’آپریشن سپائیڈر ویب‘: یوکرین کے ’غیرمعمولی‘ حملے سے انڈیا اور دیگر ممالک کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟18 ماہ کی تیاری اور اربوں ڈالر نقصان کا دعویٰ: یوکرین نے ڈرون حملے سے روس اور امریکہ کو کیا پیغام دیا؟یوکرینی فوج کے لیے مخبری کرنے والا جوڑا جو جعلی دستاویزات اور ربڑ کی ٹیوب کی مدد سے روسی فوج سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا’روسی حملے کا خوف اور امریکہ کی بے رخی‘ کے سبب جرمنی میں جنگی تیاریوں میں تیزی، دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافہ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More