Getty Images
یمن میں زیدی شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والا انصار اللہ نامی گروہ، جنھیں حوثی کہا جاتا ہے، 10 سال سے زیادہ عرصے سے ملک کے تقریباً ایک تہائی علاقے پر قابض ہے۔ درحقیقت یمن کی تقریباً 70 فیصد آبادی گزشتہ ایک دہائی سے حوثیوں کے زیر تسلط رہ رہی ہے۔
یمن کے مخصوص جغرافیہ کی وجہ سے حوثیوں کو بحیرہ احمر میں عالمی شپنگ لین کو متاثر کرنے کا موقع ملتا ہے جسے انھوں نے خاص طور پر گزشتہ ایک سال کے دوران مغربی ممالک اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
یمن کے حوثی جنگجوؤں نے پیر اور منگل کے دن ایک مال بردار بحری جہاز پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں یہ بحری جہاز ڈوب گیا ہے۔
یوکے میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز (یو کے ایم ٹی او) ایجنسی کے مطابق لائبیریا کے پرچم بردار اور یونان کے زیر انتظام کام کرنے والے بحری جہاز ’ایٹرنٹی سی‘ میں عملے کے 25 افراد سوار تھے جب اسے چھوٹی کشتیوں کی مدد سے راکٹ اور دستی بموں سے نشانہ بنایا گیا۔
ایران کے حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایٹرنٹی سی پر اس لیے حملہ کیا کیونکہ یہ اسرائیل کی جانب بڑھ رہا تھا اور وہ عملے کے ارکان کو اپنے ساتھ لے گئے جن کی تعداد ابھی واضح نہیں ہے۔
حوثی اور ایران
بہت سے مغربی حکام اور میڈیا حوثیوں کا نام ایران کا ذکر کیے بغیر استعمال نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت انصار اللہ گروپ کی حقیقی حمایتی ہے۔
تہران پر حوثیوں کے خلاف پابندیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کا الزام بھی لگایا جاتا ہے تاہم ایران نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔ لیکن تہران کی عمومی طور پر حوثیوں کی حمایت اتنی خفیہ بھی نہیں ہے۔
ایران اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جو یمنی سرزمین کے کچھ حصوں پر اس گروپ کی خودمختاری کو تسلیم کرتا ہے اور انصار اللہ کے عہدیداروں کے ساتھ یمن کی جائز حکومت کے اہلکاروں جیسا ہی سلوک کرتا ہے۔
یاد رہے کہ بین الاقوامی برادری کے نقطہ نظر سے، خاص طور پر اقوام متحدہ کے، انصار اللہ ایک مسلح باغی گروپ ہے جس نے یمن کی جائز حکومت کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی۔
لیکن ایران اور حوثیوں کے درمیان کیا تعلق ہے اور یہ گروپ کس حد تک تہران کی حمایت پر منحصر ہے؟ کیا ایرانی حکام کا اس گروپ کے فیصلوں پر کوئی خاص اثر و رسوخ ہے، اور کیا حوثی ایک "پراکسی" گروپ ہیں؟
یا پھر جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں کہ کیا بیرونی ممالک کا ان پر کوئی کنٹرول نہیں اور کیا وہ صرف اپنے لوگوں کے مفادات کے لیے لڑتے ہیں؟
خانہ جنگیGetty Images
پہلی بار جب ایران نے خانہ جنگی میں یمن کے زیدی شیعہ فرقے کی حمایت کی، محمد رضا شاہ پہلوی تہران میں برسراقتدار تھے۔
1962 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران وہ یمن کی متوکل بادشاہت کے حامیوں میں شامل تھے جس کی حکمرانی ایک زیدی شیعہ امام کرتے تھے اور جس کا نقشہ موجودہ دور میں حوثیوں کے زیر کنٹرول زمینوں کے نقشے سے حیرت انگیز مماثلت رکھتا ہے۔
اس وقت، زیدی شیعہ امامت کی حکومت، جس نے یمن پر صدیوں حکومت کی تھی، کو مصری صدر جمال عبدالناصر کی قیادت میں عرب ریپبلکنز کی حمایت یافتہ فوجی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔
سعودی عرب، اردن، ایران، حتیٰ کہ اسرائیل کی حمایت کے باوجود بادشاہت کو بالآخر جمہوریہ کے ہاتھوں شکست ہوئی اور یوں یمن میں زیدی امامت کی مذہبی حکمرانی ختم ہوئی اور ایک سیکولر جمہوریہ قائم ہوئی۔
یہ سیکولر جمہوریہ شمالی یمن کے نام سے مشہور ہوئی جس کے صدور میں سب سے اہم علی عبداللہ صالح بھی شامل ہیں۔ وہ ایک سیکولر سیاست دان تھے جو عرب قوم پرستی کے نظریے کی طرف مائل تھے۔
جنوبی یمن
شمالی یمن میں زیدی اماموں کی حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ ہی برطانیہ کے زیرانتظام عدن کالونی کے یمنی باشندے، جو 1839 میں برطانوی سلطنت نے قائم کی تھی، چار سالہ جنگ کے بعد 1967 میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کی کوششوں کا نتیجہ عوامی جمہوری یمن کے نام سے ایک نئے ملک کا قیام تھا۔ مارکسی-لیننسٹ سیاسی نظام والا ملک جو سوویت حمایت سے مستفید ہوا اور جنوبی یمن کے نام سے مشہور ہوا۔ شمالی یمن کے برعکس، جنوبی یمن کی اشرافیہ سنی قبائل سے تھی۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد، جنوبی یمن، جو ماسکو کی مالی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتا تھا، کمزور اور نازک حالت میں رہ گیا۔ 1978 سے شمالی یمن میں اقتدار پر قابض علی عبداللہ صالح نے دونوں ممالک کو متحد کرنے کے لیے معاہدہ کیا اور اس طرح 1990 میں یمن کی متحدہ ریاست بنائی گئی۔
اقتدار کے ڈھانچے میں جنوب سے سنی سیاست دانوں کے داخل ہونے سے، شمال میں زیدی علماء کو اپنا اثر و رسوخ کو کھونے کے علاوہ مذہبی تحریکوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، جن کے نظریات زیدیوں کے مذہبی عقائد کے بنیادی طور پر مخالف تھے۔
یمن کے حوثی جنگجو کتنے طاقتور ہیں اور ان سے مذاکرات کرنا اِتنا مشکل کیوں ہے؟عالمی تجارت کے لیے ’خطرے کی علامت‘ بننے والے حوثی باغی کون ہیں اور وہ بحیرہ احمر میں جہازوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟جب امام خمینی کے کفن کے ٹکڑے یادگار کے طور پر رکھنے کے لیے لوگوں میں مقابلہ شروع ہوارضا پہلوی کی جلا وطنی سے ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب تک: ایران امریکہ دوستی دشمنی میں کیسے بدلی؟
یمن کے اتحاد کے بعد زیدی شیعہ ملک کے 30 سے 35 فیصد حصے پر اقلیت بن گئے۔
بدرالدین حوثی
ایک ایسے وقت میں جب زیدی شیعہ اندرونی اختلافات کا شکار ہوئے، بدرالدین حوثی اپنے دونوں بیٹوں، حسین اور عبدالمالک ، اور اہلخانہ سمیت یمن چھوڑ کر ایران کے شہر قم منتقل ہو گئے۔
اگرچہ اس خاندان کی ایران میں موجودگی کی صحیح تاریخ واضح نہیں ہے، لیکن 1980 کی دہائی کے وسط سے 1990 کی دہائی کے وسط تک یمن سے درجنوں نوجوان صعدہ سے تہران گئے۔
کچھ عرصے بعد، بدر الدین الحوثی صعدہ واپس آئے۔
Getty Imagesایران نے 1960 کی دہائی میں یمنی خانہ جنگی کے دوران زیدی شیعہ عسکری گروپوں کی حمایت کی
1990 کی دہائی کے اوائل میں، 1990 اور 1992 کے درمیان، بدرالدین حوثی کے چھوٹے بیٹے، محمد نے، محمد اذان کے ساتھ مل کر شباب المومنین کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔
بعد میں محمد عزان نے انٹرویوز میں کہا کہ اس نے 1980 کی دہائی میں ایران کا سفر کیا تھا اور ان دوروں کے دوران آیت اللہ خمینی، علی خامنہ ای اور اکبر ہاشمی رفسنجانی سے ملاقات کی تھی۔
اسی دوران دو اہم زیدی شخصیات یحییٰ متوکل اور احمد الشامی نے ’حق پارٹی‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کی۔ حسین اور عبدالمالک حوثی نے اس جماعت میں شامل ہو کر ایک نئے اور متحد یمن میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ تاہم زیدی نوجوانوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بیچ رابطے برقرار رہے۔
حسین بدرالدین حوثی، جو حق پارٹی کے امیدوار کے طور پر یمنی پارلیمنٹ میں داخل ہوئے تھے، مختصر عرصے کے بعد پارٹی کے رہنماؤں سے اختلاف کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے دستبردار ہو گئے۔
اسی طرح کے اختلافات شباب المومنین کے اندر بھی ابھرے، جس کی وجہ سے بالآخر یہ تنظیم حسین حوثی کی سرگرمیوں کے لیے بنیادی تنظیم بن گئی جو علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھی اور جس کی نعروں میں ’مرگ بر امریکہ‘ اور ’مرگ بر اسرائیل‘ شامل ہو چکے تھے۔
حسین حوثی کی بغاوت اور ہلاکت
21ویں صدی کے آغاز کے ساتھ، اور خاص طور پر 11 ستمبر کے حملوں کے بعد جو افغانستان اور عراق میں جنگوں کا باعث بنے، حسین الحوثی کی قیادت میں شباب المومنین کی سیاسی سرگرمیاں بھی تیز ہو گئیں۔
وہ ایک ایسے رہنما بن چکے تھے جو یمن میں ایران جیسا انقلاب برپا کرنے اور اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ کشیدگی 2004 میں بڑھ گئی اور حسین حوثی پر مسلح بغاوت کی کوشش کرنے کا الزام لگا۔ جب ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو اس گروپ اور یمنی حکومت کے درمیان پہلی مسلح جنگ شروع ہوئی۔
اس جنگ کے دوران ہی حسین حوثی مارے گئے اور ان کی جگہ ان کے بھائی عبدالمالک نے لے لی۔ یہ بدرالدین حوثی کے ایک اور بیٹے تھے جنھوں نے مذہبی تعلیم حاصل کی تھی اور اپنے بھائی کی طرح ایرانی رہنماؤں سے رابطے میں تھے۔
علی عبداللہ صالح کی حکومت کے ساتھ مزید پانچ جنگوں کے دوران، عبدالملک نے نہ صرف صوبہ صعدہ کے زیدیوں کے عسکری، سیاسی اور مذہبی رہنما کے طور پر شہرت پائی بلکہ شباب المومنین گروپ کو اپنی زیر نگرانی سب سے اہم زیدی گروپ میں تبدیل کر دیا۔
بعد میں اقوام متحدہ کے ماہرین کی تحقیق کی بنیاد پر یہ بھی بتایا گیا کہ صعدہ صوبے میں زیدی نوجوان 21ویں صدی کے آغاز سے شباب المومنین کے کیمپوں میں لبنانی حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی تقریریں دیکھ رہے تھے۔
2007 میں علی عبداللہ صالح کی حکومت نے ایران پر یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا تھا۔ ایران نے ان الزامات کی تردید کی اور اس کے جواب میں ایران کے اس وقت کے وزیر خارجہ منوچہر متقی نے بارہا یہ دعویٰ کیا کہ دوسرے ممالک یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں، جسے مبصرین نے سعودی عرب اور یمن میں اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے دیکھا تاکہ تہران کے مطلوبہ ’اسلامی انقلاب‘ کو طاقت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔
عبدالملک حوثی اور انصار اللہ
2009 اور 2010 میں، حوثیوں اور اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کے علاقائی حامیوں - جیسے لبنان کی حزب اللہ - کے درمیان تعلقات میں تیزی آئی، اور اسی عرصے کے دوران عبدالمالک حوثی نے اپنے زیر کنٹرول تنظیم کو ایک نئے نام سے متعارف کرانے کا فیصلہ کیا: ’انصار اللہ‘
حوثی سرگرمیوں کے دیگر پہلوؤں کی طرح، جیسے نعروں کا انتخاب یا ابتدائی اسلامی تاریخ کی مخصوص تشریحات، اسے بھی ایران کے قریب ہونے کی طرف ایک اور قدم کے طور پر تعبیر کیا گیا۔
2015 میں اقوام متحدہ کے ماہرین کی طرف سے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، ایران 2009 سے سمندر کے راستے حوثیوں کو ہتھیار بھیج رہا تھا جن میں ٹینک شکن، طیارہ شکن اور راکٹ ہتھیاروں کے جدید ماڈل شامل تھے۔
جب علی عبداللہ صالح کو 2011 میں عرب بہار کے احتجاج کے بعد مخالفت کی ایک وسیع لہر کا سامنا کرنا پڑا تو خلیج تعاون کونسل کے ممالک نے فوری طور پر ثالثی کی کوشش کی۔
اسی سال ریاض میں طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد صالح نے اقتدار چھوڑ دیا اور ان کی جگہ ان کے نائب منصور ہادی نے لے لی۔ اس معاہدہ کی ایران اور حوثی شروع سے ہی مخالفت کر رہے تھے۔
ایرانی ہتھیار اور شمالی یمن پر قبضہ
مرکزی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ایران کی طرف سے حوثیوں کے لیے ہتھیاروں کی امداد میں بھی تیزی آئی اور جیسا کہ اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ 2011 سے "ہتھیاروں کی کھیپ بندر عباس اور چابہار بندرگاہ سے حوثیوں کو بھیجی جا رہی تھی۔"
مسلح تصادم اور سیاسی مذاکرات کے ذریعے، وہ ہادی حکومت کو پسپائی پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بالآخر 2014 میں صنعا میں داخل ہوئے، شہر اور اہم فوجی اڈوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔
اس عرصے کے دوران حوثیوں نے القاعدہ کے ہم خیال اور قریبی گروپوں پر بھی حملہ کیا جس کی وجہ سے واشنگٹن نے گروپ کے "مرگ بر امریکہ" کے نعرے کے باوجود ان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے بالآخر 2015 میں ہادی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور شمالی یمن کے بڑے حصوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
لیکن یہ کارروائی عالمی برادری کی منظوری کے ساتھ نہیں ہوئی۔ سلامتی کونسل انصار اللہ گروپ کو باغی گروپ قرار دیتی رہی اور ہادی حکومت کی حمایت کرتی رہی جو بھاگ کر ریاض پہنچ گئی تھی۔
تاہم اسلامی جمہوریہ ایران نے انصار اللہ کی حمایت جاری رکھی اور یہاں تک کہ ان کی حکومت کو یمن کی جائز حکومت تسلیم کیا۔ ایران دنیا کا واحد ملک بن گیا جس نے باضابطہ طور پر حوثیوں کے زیر کنٹرول صنعا میں سفیر بھیجا۔
Getty Imagesایرانی پراکسی؟
اس وقت سے، انصار اللہ کو، لبنان کی حزب اللہ یا عراقی ملیشیاؤں کی طرح، ایران کے ’پراکسی‘ گروپوں میں سے ایک، ’محور مزاحمت‘ کا حصہ اور پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے ساتھ غیر تحریری اتحاد میں بیان کیا گیا۔
اگرچہ انصار اللہ اور ایران دونوں ہی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر، 2015 سے، جب حوثیوں نے یمن میں ایک حقیقی حکومت کے طور پر طاقت پائی، ان کے ساتھ تہران کے تعلقات ماضی کے مقابلے میں اور بھی گہرے ہوئے ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران سعودی عرب اور امریکہ جیسے ممالک نے بارہا ایران پر انصار اللہ کو ہتھیار اور رقم فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات نے بھی کئی مراحل پر ان دعوؤں کی تصدیق کی ہے۔
اس کی تازہ ترین مثالوں میں سے ایک میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے 2024 میں سلامتی کونسل کو ایک تفصیلی رپورٹ میں ایران کی طرف سے حوثیوں کی حمایت کی اہم تفصیلات فراہم کیں۔
رپورٹ کے مطابق IRGC کی قدس فورس کے بریگیڈیئر جنرل عبدالرضا شہلائی نے حوثیوں کی عسکری حکمت عملی کے تعین میں اہم کردار ادا کیا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہلائی عبدالملک حوثی کو مشورے دیتے اور ڈرون اور میزائل آپریشنز، بحری افواج اور لاجسٹک سرگرمیوں کی بھی قیادت کرتے۔
رپورٹ میں ایران، لبنان اور عراق میں حوثیوں کی فوجی تربیت سے متعلق شواہد کی بہت سی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انصاراللہ کے 200 ارکان نے 2020 میں امام خامنہ ای یونیورسٹی آف میرین سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیز زیباکنار میں تربیت حاصل کی تھی۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایسے شواہد بھی حاصل کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ 54 یمنی عسکریت پسندوں کو 2022 میں تہران کے امام علی آفیسرز کالج میں تربیت دی گئی تھی۔
اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراقی عسکری گروہوں نے بھی نہ صرف حوثی ملیشیا کی فوجی تربیت خصوصاً ڈرون کے استعمال میں حصہ لیا ہے بلکہ شمالی عراق میں یمن کی انصار اللہ کے ارکان کے ساتھ مشترکہ فوجی کارروائیاں بھی کی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ گروپ حوثیوں کے لیے فنڈز جمع کرنے میں بھی ملوث ہیں۔
ایران اور یمن کا اشتراکGetty Imagesحوثی پریڈ
وقتاً فوقتاً اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے بھی سرکاری اور عوامی طور پر یمن میں حوثیوں کو مشورہ اور انٹیلیجنس فراہم کرنے کی بات کی ہے۔
ایرانی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری نے 2019 میں ایک چینی ٹیلی ویژن سٹیشن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم یمن کی عوامی فوج کو مشاورتی اور فکری مدد فراہم کرتے ہیں، اور پاسداران انقلاب اس کام کے لیے ذمہ دار ہے، اور ہم یمنی عوام کے ساتھ اس بغاوت کے خاتمے تک کھڑے رہیں گے۔‘
ایک اور مثال میں، ایران کے سابق وزیر تیل اور پاسداران انقلاب کے ایک اور رکن رستم قاسمی نے 2021 میں RT کو بتایا تھا کہ ایران نے حوثیوں کو ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی فراہم کی تھی اور وہ ایران کی حمایت میں اسرائیلی اہداف کے خلاف جوابی کارروائیاں شروع کریں گے جب تہران چاہے گا۔
ان بیانات کی یقیناً ایرانی وزارت خارجہ نے تردید کی تھی لیکن اقوام متحدہ کی دستاویزات میں ان کا تذکرہ اب بھی حوثیوں کو ایرانی ہتھیاروں کی امداد کے ثبوت کے طور پر کیا گیا ہے۔
اس عرصے کے دوران وقتاً فوقتاً ایران سے مبینہ طور پر یمن بھیجے گئے اسلحے کی کچھ کھیپ بھی پکڑی جاتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر، 2022 میں، عمان-یمن سرحد پر ایرانی ساختہ اینٹی ٹینک میزائلوں پر مشتمل ایک کھیپ پکڑی گئی۔
غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے، اسرائیل پر حملے کے لیے حوثیوں اور خطے میں ایران سے منسلک دیگر گروپوں کے درمیان عسکری تعاون کی خبریں آتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پر جون 2024 میں جب اسرائیل کے دو شہروں پر حملے ہوئے تو حوثیوں نے اعلان کیا کہ یہ حملے عراق میں اسلامی مزاحمتی گروپ کے ساتھ مشترکہ آپریشن تھے۔
لیکن ایک تصور یہ بھی ہے کہ حوثی - خاص طور پر دوسرے ’مزاحمتی محور‘ گروپوں کے مقابلے میں - بہت زیادہ خود مختاری رکھتے ہیں اور ان پر تہران کا اثر و رسوخ محدود ہے۔
مثال کے طور پر، 20 مارچ 2025 کو شائع ہونے والی امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ایران حوثیوں کو کنٹرول نہیں کرتا، لیکن ایرانی مدد کے بغیر، حوثیوں کو بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں بحری جہازوں کو ٹریک کرنے اور ان پر حملہ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
Getty Imagesحوثیوں پر ایرانی اثرورسوخ
حوثیوں یا انصار اللہ کے سیاسی نظریے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ 1979 کے ایرانی انقلاب کے سیاسی نظریے سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔
حوثی، ایرانی اسلام پسندوں کی قیادت میں، امریکہ مخالف اور اسرائیل دشمنی کی طرف مائل ہوئے ہیں، جس کا مذہب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
اپنی روزمرہ کی گفتگو میں، حوثی رہنما اور ان کا میڈیا وہی کلیدی الفاظ استعمال کرتے ہیں جو اس سے قبل آیت اللہ خمینی جیسی شخصیات کے ذریعے سیاسی لٹریچر میں متعارف کروائے جا چکے ہیں۔
اپنے پروپیگنڈے میں وہ ’باطل کے خلاف حق کی جنگ‘ اور ’محور مزاحمت‘ جیسے تصورات کا استعمال کرتے ہیں اور یہ سب اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی نظریے سے مطابقت رکھتے ہیں۔
مزید برآں، حوثی اپنی جدوجہد کو اس جدوجہد کے تسلسل کے طور پر بیان کرتے ہیں جو امام حسین نے شروع کی تھی۔
تاہم، لبنانی حزب اللہ گروپ کے برعکس حوثی آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت کو سرکاری یا غیر سرکاری طور پر قبول نہیں کرتے۔ خود حوثیوں کے رہنما عبدالملک الحوثی اس وقت یمن کے سپریم لیڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ فوجی دستوں کی کمان کرنے یا پوری یمنی حکومت کی سربراہی کے علاوہ وہ ایک مذہبی رہنما بھی ہیں۔
زیدی شیعہ روایت میں، مذہبی امامت ایک بہت اہم مذہبی تصور ہے جو حکومت سے منسلک ہے اور یہ آیت اللہ خمینی کے نظریے سے مختلف ہے۔ بعض مذہبی قواعد میں وہ ایران، عراق اور لبنان کے شیعوں سے زیادہ سنی فرقے سے مشابہت رکھتے ہیں۔
شاید ان بنیادی اختلافات کی وجہ سے حوثی رہنما کبھی بھی اس سطح تک نہیں پہنچ سکے جو کہ لبنان میں حزب اللہ یا عراقی گروہوں کے حوالے سے ایران کے پاس ہے۔
عبدالملک حوثی اور ان کے پیروکاروں کا اصرار ہے کہ وہ ایران کی ’کٹھ پتلی نہیں ہیں‘ اور وہ اپنے فیصلے آزادانہ طور پر کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہے یعنی ایک ایسی صورتحال جو نہ تو گروپ کا ایران پر مکمل انحصار ختم کرتی ہے اور نہ ہی تہران میں گروپ کے ہم خیال اور اہم حامیوں کو پریشان کرتی ہے۔
رضا پہلوی کی جلا وطنی سے ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب تک: ایران امریکہ دوستی دشمنی میں کیسے بدلی؟جب امام خمینی کے کفن کے ٹکڑے یادگار کے طور پر رکھنے کے لیے لوگوں میں مقابلہ شروع ہواعالمی تجارت کے لیے ’خطرے کی علامت‘ بننے والے حوثی باغی کون ہیں اور وہ بحیرہ احمر میں جہازوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟یمن کے حوثی جنگجو کتنے طاقتور ہیں اور ان سے مذاکرات کرنا اِتنا مشکل کیوں ہے؟مغرب سے ’ڈکٹیشن‘ لینے والا ایران اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ اور اسرائیل کا ’ازلی دشمن‘ کیسے بنا