پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے ایک بار پھر ایک بڑی مزاحمتی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کی منظوری خود عمران خان نے دی ہے۔
لیکن اس بار کی تحریک میں ایک نیا عنصر عمران خان کے بیٹوں قاسم اور سلیمان خان کی ممکنہ شمولیت ہے جس کے ملکی سیاست اور تحریک انصاف پر پڑنے والے اثرات کی بازگشت پاکستان کی سیاست سمیت سوشل میڈیا پر بھی زور و شور سے جاری ہے۔
چند سوشل میڈیا صارفین نے اس بحث میں موروثی سیاست پر بات کی تو چند نے قاسم اور سلیمان کا موازنہ بینظیر بھٹو اور مریم نواز سے کرتے ہوئے لکھا کہ دونوں نے ہی اپنے والد کی اسیری کے بعد سیاسی میدان میں قدم رکھا۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اسیری کے دوران بینظیر بھٹو سیاسی طور پر متحرک ہوئی تھیں اور بعد میں انھوں نے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالی۔ آج ان کے بیٹے بلاول بھٹو پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ ادھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کیی بیٹی مریم نواز اب پنجاب کی وزیر اعلی ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔ تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ قاسم اور سلیمان سیاسی طور پر کس طرح اور کتنے متحرک ہوں گے۔ دونوں اپنی والدہ جمائما خان کے ساتھ برطانیہ میں ہی رہائش پذیر رہے اور عمران خان کی وزارت عظمی کے دوران بھی ان کا کسی قسم کا سیاسی کردار سامنے نہیں آیا۔ تاہم گزشتہ چند دنوں سے انھوں نے سوشل میڈیا پر عمران خان کی قید سے متعلق بات چیت کی ہے اور چند انٹرویو بھی دیے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا عمران خان کے بیٹے اپنے والد اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کو ایک بڑی تحریک چلانے میں مدد سے سکتے ہیں؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ان کی ممکنہ آمد سے تحریک انصاف پر کیا اثرات پڑیں گے؟
اس بارے میں بی بی سی نے چند تجزیہ کاروں سے بھی بات چیت کی لیکن اس سے پہلے جانتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت نے اس بارے میں کیا کہا ہے۔
علیمہ خان کا بیان اور رانا ثنا اللہ کی ’وارننگ‘
قاسم اور سلیمان کے بارے میں پہلا بیان اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن علیمہ خان نے دیا تھا جب انھوں نے کہا کہ قاسم اور سلیمان نے خود کہا ہے کہ پہلے وہ امریکہ کا رخ کریں گے اور وہاں جا کر بتائیں گے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی کیا صورتحال ہے۔
علیمہ خان کے مطابق امریکہ کے بعد وہ پاکستان آئیں گے اور وہ اس احتجاجی تحریک میں اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں۔
اس کے بعد وزیر اعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثناللہ خان نے مقامی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ عندیہ دیا کہ اگر عمران خان کے بیٹوں نے پاکستان میں کسی قسم کی تحریک میں شمولیت اختیار کی تو انھیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
اس بیان پر تحریک انصاف کا ردعمل بھی سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ ’علیمہ خان نے بتایا ہے کہ قاسم اور سلیمان پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیوں کہ کئی ماہ سے ان کا اپنے والد سے رابطہ نہیں کروایا گیا ہے۔‘
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’اس بیان کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے اور کسی جمہوری معاشرے میں سیاسی رہنماوں کے اہلخانہ کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔‘
تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’قاسم اور سلیمان کی حفاظت کو سیاسی معاملہ نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی اسے خطرے میں ڈالنا چاہیے۔‘
’کارکنان کو نیا جذبہ ملے گا‘
علیمہ خان کے بیان کے بعد پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ عمران خان کے بیٹے نہ صرف پاکستان آئیں گے بلکہ وہ احتجاجی تحریک کا بھی حصہ بنیں گے۔
عمران خان اور ان کے خاندان کے قریب سمجھے جانے والے زلفی بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عمران خان کے بیٹوں کی احتجاجی تحریک میں شمولیت اختیار کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی پاکستان واپسی کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ زلفی بخاری کی رائے میں ’اس سے بہت فرق پڑے گا اور کارکنان کو نیا جذبہ ملے گا۔‘
نواز شریف اور عمران خان: کرکٹ سے سیاست اور رفاقت سے عداوت تک کا سفرعمران خان اور نواز شریف: دونوں کی وہ مماثلت جو مٹ نہیں سکتی!شاہنواز بھٹو کی ’پراسرار‘ موت جس نے بھٹو خاندان کو ہلا کر رکھ دیامرتضیٰ بھٹّو: ’الذوالفقار‘ سے لے کر 70 کلفٹن کے باہر چلی پہلی گولی تک
تاہم تجزیہ کار ضیغم خان نے کہا ہے کہ اس وقت عمران خان کے بیٹوں کا پاکستان آنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کو نہیں لگتا کہ عمران خان کے بیٹوں کے پاس پاکستانی پاسپورٹ بھی ہوگا۔ ان کے مطابق ’ایسی صورتحال میں ایف آئی اے ائیر پورٹ سے ہی ان کا ویزہ منسوخ کر سکتی ہے۔‘ گرفتاری سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ محض ڈرانے اور دھمکانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘
عمران خان کے بیٹے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
سینئر صحافی مظہر عباس نے ایکس پر لکھا کہ عمران خان کے بیٹے پہلی بار پانچ اگست سے عمران خان کی رہائی کے لیے شروع ہونے والے احتجاج کا حصہ ہوں گے۔
انھوں نے لکھا کہ ’سابق وزیر اعظم کی بہن پہلے ہی صف اول میں کھڑی ہیں اور اب ان کے بیٹوں کے کردار اور مستقبل کی سیاست پر زور و شور سے چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔‘
ضیغم خان کی رائے میں سابق وزیر اعظم کے دونوں بیٹے ’سمندر پار رہتے ہوئے پاکستانیوں کو متحرک کر سکتے ہیں۔‘
’وہ برطانوی اشرافیہ کا حصہ ہوتے ہوئے وہاں فیصلہ سازوں پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔‘
انگریزی اخبار دی نیشن سے وابستہ تحریک انصاف کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی عمران مختار کی رائے میں ’اگر تمامتر نئی رکاوٹوں کے باوجود بھی وہ پاکستان آ جاتے ہیں تو یہاں کے شدید موسم اور نامساعد حالات میں ان کے لیے سیاسی تحریک چلانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔‘
عمران کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی کی رہنماؤں پر متعدد مقدمات قائم ہیں اور ’ریاست مزید بھی سخت رویہ رکھے ہوئے ہے تو ایسی جماعت کی قیادت ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔‘
ضیغم خان کے مطابق ’احتجاجی تحریک کا تعلق عوام کے موڈ پر بھی ہے۔ اگر روزانہ اچانک مگر تسلسل سے لوگ بڑی تعداد میں نکلتے رہیں گے تو پھر ہی کہیں یہ احتجاج رنگ لا سکتا ہے، ورنہ ایسی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی جہاں صرف لوگ 26 تاریخ کو نکلیں اور پھر 27 تاریخ کو مڑ کر ان کا پتا بھی نہ چلے کہ وہ گئے کدھر ہیں۔‘
سیاست میں موروثیت
موروثیت کی سیاست شایدتیسری دنیا کے ممالک اور خاص طور پر جنوبی ایشائی ممالک میں ایک جانا پہچانا تصور ہے۔
پاکستان کی سیاست میں بھی موروثیت کی بحث پرانی ہے۔ قائد اعظم کے بعد ان کی بہن فاطمہ جناح سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئیں اور فوجی آمر ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیا الحق کے مارشل لا میں جیل جانا پڑا تو ان کی اہلیہ نصرت بھٹو اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے احتجاجی تحریک کی قیادت کی۔
مسلم لیگ نون میں نواز شریف کے ساتھ شہباز شریف اور اب مریم نواز جیسی مثالیں موجود ہیں۔
ادھر اے این پی میں خان عبدالغفار خان، جو باچا خان کے نام سے مشہور ہوئے، کے خاندان نے ہی پارٹی کی قیادت کی۔
پاکستان کے ہمسایہ ملک انڈیا میں پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی وزیر اعظم بنیں جن کے قتل کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی بھی ملک کے وزیر اعظم بنے۔ آج کانگریس جماعت کی قیادت ان کے بیٹے راہول گاندھی کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں بھی ملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد ان کی بیٹی شیخ حسینہ واجد سیاسی طور پر متحرک ہوئی اور حال ہی میں طویل عصہ برسراقتدار رہنے کے بعد ان کی حکومت کا تختہ ایک بڑی احتجاجی تحریک کے بعد الٹ دیا گیا۔
صحافی سرل المیدہ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’موروثیت مخالف عمران خان سیکھ رہے ہیں کہ خاندان سیاست سے کیوں اس قدر منسلک ہے کیوں کہ صرف یہی وہ لوگ ہیں جن پر فیصلہ کن مرحلے پر لڑائی کے لیے بھروسہ کیا جا سکتا ہے یعنی ایک ایسے وقت میں جب آپ مشکل میں گھرے ہوئے ہوں۔‘
موروثی سیاست سے متعلق ہونے والی تنقید پر ضیغم خان نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اب عمران خان کی سیاست بھی موروثیت کی طرف چل نکلی ہے۔
ان کی رائے میں ’عمران خان کہ بہن علیمہ خان پہلے ہی اہم پوزیشن پر ہیں اور اب ان کے بیٹے بھی جب اس تحریک میں شامل ہوں گے تو پھر وہ بھی کسی اور کو مرکزی حیثیت اختیار نہیں کرنے دیں گے۔‘
نواز شریف اور عمران خان: کرکٹ سے سیاست اور رفاقت سے عداوت تک کا سفرعمران خان اور نواز شریف: دونوں کی وہ مماثلت جو مٹ نہیں سکتی!عمران خان سے نواز شریف تک: پاکستانی سیاست میں ’لاڈلے‘ کی اصطلاح کیوں مشہور ہوئی؟بےنظیر بھٹو: ’پنکی‘ سے پرائم منسٹر تکشاہنواز بھٹو کی ’پراسرار‘ موت جس نے بھٹو خاندان کو ہلا کر رکھ دیامرتضیٰ بھٹّو: ’الذوالفقار‘ سے لے کر 70 کلفٹن کے باہر چلی پہلی گولی تک