کڑھائی والے پرس اور بُرج پر بے وفائی: فرانس کا شاہی سکینڈل جو انگلستان کے ساتھ سو سالہ جنگ کی وجہ بنا

بی بی سی اردو  |  Jun 21, 2025

Getty Images

’میرے بھائیوں کی بیویاں ان سے بے وفائی کر رہی ہیں۔‘

ازابیلا نے یہ بات اپنے والد فرانس کے بادشاہ فِلپ چہارم کو بتائی تو سنہ 1314 کی وہ سرد اور تاریک شام انھیں اور اندھیری لگنے لگی۔ مغربی یورپ کے اس ملک میں اپنے خاندان کی 400 سالہ حکمرانی کی بقا کے لیے، فلپ نے اپنی اولاد کی شادیاں یہ سوچ کر کی تھیں کہ سیاسی اتحاد بنیں اور تخت کے وارث پیدا ہوں۔

فرانس کے بادشاہ فِلپ چہارم نے اپنی بیٹی ازابیلا کا بیاہ انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ دوم سے کیا تاکہ کچھ علاقوں کا تنازع حل کیا جا سکے۔ بیٹوں میں لوئی کی شادی ڈیوک آف برگنڈی کی بیٹی مارگریٹ سے اور چارلس کی شادی کاؤنٹ آف برگنڈی کی بیٹی بلانش سے،اوربلانش کی بہن جون کی فِلپ سے ہوئی۔

تاریخ دان آسکر ہیراڈن لکھتے ہیں کہ 'لوئی اور مارگریٹ کے تعلق میں سرد مِہری تھی اور چارلس بلانش پر رعب رکھتے تھے۔ صرف جون اور فلپکی شادی شدہ زندگی ہیخوشگوار تھی کیونکہ ازابیلا کی شادی بھی مشکلات کا شکار رہی۔'

ویئر ایلییسن اپنی کتاب ’ازابیلا: شی ولف آف فرانس، کوئین آف انگلستان‘ میں لکھتے ہیں کہ 'ازابیلا اکثر اپنے انگریز شوہر کے ساتھ شادی میں پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے اپنے والد کے پاس مدد کے لیے جاتی تھیں۔'

شاہی خواتین کو دیے گئے پرسوں کا سورماؤں کے پاس سے ملناGetty Images

سنہ 1313 میں ازابیلا نے اپنے شیر خوار بیٹے، انگلستان کے مستقبل کے بادشاہ ایڈورڈسوم ، کے ساتھ پیرس کا دورہ کیا۔

اس دورے میں ایک پتلی تماشے (پپٹ شو) کے بعد ازابیلا نے اپنی بھابھیوں کو کشیدہ کاری والے پرس تحفے میں دیے۔

ایلییسن کے مطابق اگلے سال 'ازابیلا کا اپنے میکے پھر چکر لگا تو انھوں نے دیکھا کہ ان کی بھابھیوں کے ساتھ دو نارمن سورما بھائیوں،فلپ اور گوٹیر ڈی اونے نے ان کے تحفے میں دیے گئے پرس اپنے اپنے کمربند میں اُڑسے ہوئے ہیں۔'

'ازابیلا نے ان تحائف کے سورماؤں کے پاس ہونے کوان کے اپنی بھابھیوں کے ساتھ ناجائز تعلق کی علامت جانا اور اپنے والد کو اس سے آگاہ کیا۔'

حالانکہ یہ کشیدہ کاری والے پرس ناجائز تعلق کا کافی ثبوت نہیں تھے۔

اگرچہ قرون وسطیٰ میں خواتین کا سورماؤں کو ایسے تحائف دینا اکثر پیار کے اظہار کے طور پر دیکھا جاتا تھا، مگر بادشاہ کو اس سے زیادہ مضبوط ثبوت کی ضرورت تھی۔

فلپ چہارم نے اپنی بہوؤں اور دونوں سورماؤں کی جاسوسی کا حکم دیا۔

جلد ہی، ان کے پاس اطلاعات تھیں کہ تینوں خواتین وسطی پیرس میں دریائے سین پر ایک محافظ بُرج،تور دے نیسل، میں ان دونوں بھائیوں سے ملتی تھیں۔

برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی بندربانٹ کیسے ہوئیقسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولاسلطنت عثمانیہ: جب نئے سلطان نے ’روتے روتے اپنے 19 بھائی مروا دیے‘روایت شکن بادشاہ کے شادیوں کے سکینڈل، خفیہ افیئرز اور طلاق لینے کی کوشش جس نے زولو سلطنت کو ہلا کر رکھ دیااذیت ناک موت اور سزائیں

ایلیسن لکھتے ہیں کہ 'دونوں بھائیوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ تشدد کے بعدانھوں نے 19 اپریل 1314 کو شاہی بہوؤں کے ساتھ جنسی تعلقات کا اعتراف کیا۔ زیادہ تر تاریخی روایات متفق ہیں کہ پہلے ان کے 'جنسی اعضا' کاٹ دیے گئے اور پھر یا تو ان کے چار ٹکڑے کر دیے گئے یا کھال ادھیڑ کر پھانسی دی گئی۔

بلانش اور مارگریٹ کا مقدمہ پیرس پارلیمان نے سنا اور انھیں مجرم قرار دے کر ان کے سر منڈوائے گئے اور قید کر دیا گیا۔

پارلیمان نے جون کو معصوم قرار دیا لیکن چونکہ وہ ان معاملات سے آگاہ تھیں، اس لیے انھیں گھر میں نظر بندی کی سزا دی گئی۔ اس کے باوجود ان کے شوہر کی حمایت ان کے لیے برقرار رہی۔

یہ واقعہ فلپ چہارم کے لیے ایک شدید صدمے کا باعث بنا اور بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ اسی صدمے نے اسی سال کے آخر میں ان کی موت میں کردار ادا کیا۔

Getty Imagesتخت کی جنگ

بادشاہ فلپ چہارم کی موت کے بعد ان کے تین بیٹے ایک کے بعد ایک بادشاہ بنے، لیکن ان کی حکومتیں طویل عرصے تک نہ چل سکیں، اور کسی بھی بیٹے کا کوئی وارث نہیں تھا جو بادشاہی سنبھال سکتا۔ یہ جانشینی کا بحران فرانس میں طاقت کی جدوجہد اور بیرونی حملوں کا راستہ ہموار کرنے کا سبب بنا۔

فلپ چہارم کی نومبر 1314 میں موت کے بعد لوئی نے ان کی جگہ لے لی اور مارگریٹفرانس کی ملکہ تو بن گئیں لیکن اپریل 1315 میں وہ قید ہی میں مریں اور لوئی نے کچھ ہی دنوں بعد دوبارہ شادی کر لی، جس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ مارگریٹ کو ممکنہ طور پر گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا ہے۔

جان ویگنر ’انسائیکلوپیڈیا آف دی ہنڈرڈ ایئرز آف وار‘ میں لکھتے ہیں کہ جب لوئی 1316 میں اچانک وفات پا گئے، تو تخت کے لیے ان کی بیٹی جو کو حالیہ سکینڈل کے پس منظر میں ان کی ولدیت پر شک و شبہ کا سامنا کرنا پڑااور فرانسیسی اشرافیہ تخت پر کسی عورت کے بیٹھنے کے تصور کے بارے میں روز بروز زیادہ محتاط ہو رہی تھی۔

’چنانچہ لوئی کے بھائی فلپ نے پہلے بطور نگران (ریجنٹ) کے اقتدار سنبھال لیا کیونکہ دوسری شادی سے لوئی کے بعد از وفات پیدا ہونے والے بچے ژاں کی ولادت متوقع تھی۔ لیکن پھر اس نومولود کی چند دنوں میں موت کے بعد، فلپ خود بادشاہ بن گئے۔‘

فلپ نے اپنی بھتیجی سے تخت چھیننے کے لیے قدیم فرینکش سالک قانون کو استعمال کیا جو عورت کی حکمرانی سے روکتا تھا۔ جب انھوں نے 1317 میں فلپ پنجم کے طور پر اپنی حکومت شروع کی تو جون ملکہ بن گئیں۔

جوناتھن سمپشن اپنی کتاب ’دی ہنڈرڈ ایئرز وار: ٹرائل بائی بیٹل‘ میں لکھتے ہیں کہ فلپ بھی غیر متوقع طور پر کم عمری ہی میں وفات پا گئے۔

انکی اولاد بھی صرف بیٹیاں تھیں، لہٰذا سالک قانون کی پابندی کا مطلب یہ تھا کہ تخت ان کے چھوٹے بھائی چارلس کو منتقل ہو گیا، جنھوں نے 1322 میں تخت سنبھالا۔

آٹھ سال قید کے بعد، بلانش کو رہا کیا گیا۔ چارلس سے ان کی شادی مئی 1322 تک برقرار رہی اور اس کے بعد پوپ نے اس شادی کو منسوخ کر دیا۔ ان کی حتمی قسمت نامعلوم ہے۔

’چارلس نے تاج پوشی کے بعد دوبارہ شادی کی، لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے اور بغیر کسی بیٹے وارث کے وفات پا گئے۔‘

اس کے بعد سالک قانون کی تشریح نے فرانس میں جانشینی کے معاملے کو مشکوک بنا دیا۔ اگرچہ چارلس آف ویلوآ کے بیٹے، فلپ آف ویلوآ نے فرانسیسی اشرافیہ کی حمایت سے تخت پر دعویٰ کیا، لیکن انگلستان کی ملکہ ازابیلا کے بیٹے، ایڈورڈ سوم نے بھی اپنا حق جتایا۔

Getty Imagesاور پھر سو سالہ جنگ

مورخ پریویتے آرٹن کے مطابق ازابیلا نے اپنے بیٹے کے لیے فرانس کے تخت کا دعویٰ قریبی خونی رشتے کے اصول کے تحت کیا، لیکن فرانسیسی اشرافیہ نے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔

’ان کا موقف تھا کہ سالک قانون کے تحت ازابیلا کسی ایسے حق کو منتقل نہیں کر سکتیں جو خود ان کے پاس نہیں تھا۔ چنانچہ فرانسیسی امرا کے ایک اجلاس نے فیصلہ دیا کہ تختِ فرانس کسی مقامی فرانسیسی کو ملنا چاہیے، نہ کہ ایڈورڈ کو۔‘

’تخت چارلس کے پدری نسب سے کزن، فلپ، کاؤنٹ آف ویلوآ، کو منتقل کر دیا گیا۔ ایڈورڈ نے اس پر احتجاج کیا، لیکن بالآخر انھوںنے سرِ تسلیم خم کیا اور ایک علاقےگیسکونی کے لیے باقاعدہ خراج پیش کیا۔

تاہم، فرانس کے ساتھ ایڈورڈ کے مزید اختلافات پر فلپ نے مئی 1337 میں گیسکونی کو واپس اپنی عملداری میں لینے کا فیصلہ کیا۔

’اس فیصلے نے ایڈورڈ کو ایک بار پھر فرانسیسی تخت کے دعوے پر آمادہ کیا—اس بار تلوار کے زور پر۔‘

یوں سو سالہ جنگ (1337–1453) کا آغاز ہوا۔

فرانس اور انگلستان کے درمیان کشیدگی کی جڑیں 1066 کی نارمن فتح تک جاتی تھیں، جب نارمن نسل کے ولیم، ڈیوک آف نارمنڈی، نے انگلستان کا تخت سنبھالا۔

تب سے انگریز بادشاہوں کی فرانس میں جاگیریں تھیں اور وہ فرانسیسی بادشاہوں کے باج گزار سمجھے جاتے تھے۔ قرونِ وسطیٰ میں یہ جاگیریں دونوں سلطنتوں کے درمیان تنازعے کی ایک بڑی وجہ بنی رہیں۔

لیکن فرانسیسی تخت پر دعووں سے شروع ہونے والی یہ جنگ وقت کے ساتھ ساتھ ایک وسیع فوجی، معاشی، اور سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہو گئی، جس میں مغربی یورپ بھر کے مختلف دھڑے شامل ہو گئے۔ دونوں جانب ابھرتی قوم پرستی نے اس تنازع کو مزید ہوا دی۔

دو شاہی خاندانوں کی پانچ نسلوں کے مابین اس جنگ کو عموماً 116 سالوں پر محیط تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن وقفوں سے جاری رہنے والی اس جنگ کی تباہ کاریوں میں 1340 کی دہائی میں سیاہ طاعون (بلیک ڈیتھ) نے مزید اضافہ کر دیا۔

یہ واقعے یورپی تہذیب و ثقافت پر بھی اثرانداز ہوا۔

درباری محبت کے موضوع پر تحقیق کرنے والے محققین نے یہ مشاہدہ کیا کہ جنسی تعلقات کی کہانیاں ’تور دے نیسل‘ کے قضیے کے فوراً بعد قصوں اور روایات سے غائب ہونے لگیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاہی خاندان میں ہونے والی سزاؤں اور قید و بند کی وجہ سے ایسی داستانیں عوام میں غیر مقبول یا ناپسندیدہ ہو گئیں۔

خود تور دے نیسل کا محافظ بُرج بھی 1665 میں گرا دیا گیا۔

مورخ باربرا ٹچ مین نے اس دور کو 'المناک چودھویں صدی' قرار دیا، جس کی بڑی وجہ ’تور دے نیسل‘ سکینڈل بنا۔

سنہ 1475 میں ہونے والے پیقینی معاہدہ سے باضابطہ طور پر سو سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔اس معاہدےکے تحت تب کے ایڈورڈ نے فرانس کے تخت پر اپنا دعویٰ ترک کر دیا۔ تاہم، انگلستان (اور بعد میں برطانیہ) کے بادشاہ 1803 تک رسمی طور پر 'بادشاہِ فرانس' کا لقب استعمال کرتے رہے۔

برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی بندربانٹ کیسے ہوئیسلطنت عثمانیہ: جب نئے سلطان نے ’روتے روتے اپنے 19 بھائی مروا دیے‘قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولاایپسٹین سکینڈل: شہزادہ اینڈریو، بل کلنٹن سمیت نامور شخصیات کا جنسی جرائم سے متعلق عدالتی دستاویزات میں ذکر
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More