امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل ایران پر کسی بھی وقت فضائی کارروائی کرسکتا ہے۔ یہ اطلاع نہ صرف سفارتی حلقوں میں ہلچل کا باعث بنی ہے بلکہ خطے کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال کو بھی مزید پیچیدہ بنا چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے اس ممکنہ حملے سے قبل امریکا کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ ایران میں فوجی آپریشن کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اس پیغام نے واشنگٹن کو نہ صرف دفاعی اقدامات پر مجبور کیا بلکہ مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی مفادات اور تنصیبات کو بھی فوری خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ اگر اسرائیل حملہ کرتا ہے تو ایران اس کا جواب عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کی صورت میں دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے خطے میں اپنے غیر سفارتی عملے اور فوجی خاندانوں کو رضاکارانہ انخلا کی اجازت دے دی ہے۔
یہ اقدامات صرف حفاظتی تدابیر نہیں بلکہ ایک واضح اشارہ ہیں کہ واشنگٹن کو آنے والے دنوں میں ممکنہ فوجی تصادم کا سنجیدہ خدشہ ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے تصدیق کی ہے کہ فوجی اہلکاروں اور ان کے اہلِ خانہ کی سلامتی اس وقت ان کی اولین ترجیح ہے۔
دوسری طرف ایران نے امریکا کو براہِ راست خبردار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر ایران پر جنگ مسلط کی گئی، تو وہ خطے میں موجود تمام امریکی تنصیبات کو نشانہ بنائے گا۔ ایرانی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ وہ سفارتی راستہ اختیار کرنے کے حق میں ہیں، لیکن اگر بات بندوق تک پہنچی تو اس کے اثرات دشمن پر کہیں زیادہ بھاری ہوں گے۔
اس تمام کشیدگی کا پس منظر امریکا اور ایران کے درمیان جاری جوہری مذاکرات ہیں۔ دونوں ممالک 2015 کے معاہدے کی جگہ ایک نئے معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں، مگر یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر اب تک کسی معقول نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ ان مذاکرات کا چھٹا دور اتوار کے روز عمان کے دارالحکومت مسقط میں متوقع ہے، جسے ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے۔
اس وقت مشرق وسطیٰ کی فضا غیر یقینی صورتحال سے بھری ہوئی ہے۔ اسرائیل اور ایران کی دشمنی، امریکا کی دو طرفہ تنی ہوئی رسی پر چلنے کی کوشش، اور سفارت کاری کا کمزور توازن سب مل کر ایک نازک مرحلے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔