"میری والدہ پروین شاکر تھیں، جب ان کا انتقال ہوا تو میری عمر صرف چودہ سال تھی۔ اس کے بعد میری زندگی میں کئی مسائل آئے، لیکن اُس وقت ملک نے میرا ساتھ دیا۔ بے نظیر بھٹو نے مجھے اسکالرشپ دی، لمز میں میری فیس معاف ہوئی۔ میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ ہماری فلم انڈسٹری کو سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اور چونکہ میری والدہ کا تعلق بھی فنونِ لطیفہ سے تھا، تو اب وقت تھا کہ میں اس انڈسٹری کو کچھ لوٹاؤں۔ ہارر میرا پسندیدہ صنف رہا ہے، اسی لیے میں نے اس میں سرمایہ کاری کی۔" — سید مراد علی
پروین شاکر، جنہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی شناخت دی، ان کی ناگہانی موت نے صرف ادبی دنیا کو نہیں، بلکہ ان کے کمسن بیٹے کو بھی گہرے صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔ مگر قسمت نے ایک اور رخ لیا — وہی بیٹا آج فلمی دنیا میں قدم رکھ چکا ہے، اور پیچھے ہے ایک ایسی سیاسی شخصیت کا سایہ جس نے ایک یتیم بچے کو سنبھالا، سنوارا، اور بلندیوں تک پہنچنے کا راستہ دیا۔
چینل 365 کے عید اسپیشل شو رائز اینڈ شائن میں پروین شاکر کے بیٹے سید مراد علی نے پہلی بار کھل کر بتایا کہ سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو نے ان کے تعلیمی سفر کو ممکن بنایا۔ صرف اسکالرشپ ہی نہیں، بلکہ لمز جیسی یونیورسٹی میں ان کی مکمل فیس بھی معاف کی گئی — یہ وہ تعاون تھا جس نے ایک اداس بچپن کو باوقار جوانی میں تبدیل کر دیا۔
اب وہی سید مراد علی، ماں کی ادھوری محبت کو تخلیقی دنیا میں مکمل کرنے نکلے ہیں۔ ان کی پروڈیوس کردہ فلم دیمک، جس میں فصیل قریشی، سونیا حسین، ثمینہ پیرزادہ اور بشریٰ انصاری جیسے بڑے نام جلوہ گر ہیں، عید کے موقع پر ریلیز ہوئی ہے — اور ہارر جیسی صنف کا انتخاب، مراد کے اندر چھپی نئی سوچ اور جرات کا عکاس ہے۔