Getty Images
’میں نے اس بچے کے لیے بہت دعائیں مانگیں لیکن کسی کمزور لمحے میں، میں شدت سے چاہتی تھی کہ یہ حالت بس ختم ہو۔‘
کینیڈا کے شہر اونٹاریو سے تعلق رکھنے والی کرسٹابیل نگوبی کو جب پہلی بار پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہیں تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ برسوں سے 30 سالہ کرسٹابیل بچے کے لیے دعائیں مانگ رہی تھیں لیکن ان کی خوشی جلد ہی مایوسی میں بدل گئی۔
چند ہفتے کے اندر ہی ان کی حاملہ ہونے کی خوشی ان کی صحت کے ساتھ ایک زبردست جنگ میں بدل گئی۔
کرسٹابیل کو شدید متلی اور قے کا سامنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ کھانے کی مہک سے بھی ان کی حالت بگڑ جاتی۔ جلد ہی وہ مسلسل الٹی کے خوف سے پانی کے گھونٹ پینے سے گھبرانے لگی۔
ان کی اس حالت کی علامات حمل کے دوران صبح کے وقت الٹی ہونے والی حالت جسے ’مارننگ سکنس‘ کہا جاتا ہے سے مختلف تھیں۔
مارننگ سکنس کی حالت عموماً خواتین میں حمل کے ابتدائی مراحل میں چھ اور 14 ہفتوں کے درمیان ہوتی ہے اور اس کی وجہ انسانی جسم میں کوریونک گوناڈوٹروپن (ایچ سی جی) اور ایسٹروجن جیسے ہارمونز بڑھ جانا ہوتا ہے۔
مگر کرسٹابیل کی حالت اس سے کہیں زیادہ سنگین تھی۔
بلآخر ان میں ’ہائپریمیسس گریویڈیرم‘ کی تشخیص ہوئی، یہ حمل کے دوران ایسی جسمانی حالت ہے جو پورے 39 ہفتوں کے حمل تک برقرار رہ سکتی ہے اور اس سے خواتین کے جسم میں پانی اور غذائیت کی کمی ہوتی ہے۔
اس بیماری یا حالت نے حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر عوامی توجہ حاصل کی، ان میں کیتھرین، پرنسز آف ویلز جیسی اعلیٰ شخصیات کو بھی اپنے حمل کے دوران ایسا تجربہ ہوا۔
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق برطانیہ میں ہر 100 حاملہ خواتین میں سے ایک سے تین خواتین اس حالت سے متاثر ہوتی ہیں تاہم ماہرین صحت کا خیال ہے کہ یہ حالت کم رپورٹ کی گئی، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کے اثرات کے متعلق صحیح حد تک جاننا مشکل ہو گیا۔
کرسٹابیل کہتی ہیں کہ ’میں بھوک سے مر رہی تھی، مجھے تکلیف تھی لیکن میں کچھ کھا پی نہیں سکتی تھا کیونکہ میں متلی اور مسلسل قے سے ڈرتی تھی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس دوران ان کی دماغی صحت شدید تناؤ کا شکار تھی کیونکہ وہ خود کو الگ تھلگ اور غلط فہمی کا شکار محسوس کر رہی تھیں۔
اس مرض کی تشخیص میں مشکل
دنیا کے بہت سے ممالک میں صحت کی محدود سہولیات کے باعث اکثر ہائپریمیسس گریویڈیرم(ایچ جی) کی تشخیص نہیں ہوتی۔ کچھ خواتین کو سماجی طور پر بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں شدید علامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
برطانیہ سے ہزاروں میل دور نائیجیریا کے شہر ابوجا میں پہلی بار حاملہ ہونے والی نینی کو بھی ان علامات کا سامنا کرنا پڑا۔
انھیں متلی اور تھکاوٹ جیسی صورتحال کے ساتھ ساتھ اور مسلسل قے، شدید پانی کی کمی اور بار بار ہسپتال جانے کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار ان کے جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ڈرپ لگانی پڑی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اس سے پہلے کبھی اس حالت کے بارے میں نہیں سنا تھا۔‘
پہلی مرتبہ حاملہ ہونے والی بہت سے ماؤں کی طرح وہ شروع میں سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ جب ان کی حالت خراب ہوئی تو ڈاکٹروں کو ان کی صحت کو بہتر کرنے میں وقت لگا۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’ان کی ڈاکٹر نے اسے مارننگ سکنس قرار دیتے ہوئے زیادہ توجہ نہیں دی‘ لیکن نینی جانتی تھیں کہ ان کی حالت نارمل نہیں۔
یہاں تک کہ پانچ ماہ کی حاملہ ہونے کے باوجود، وہ اب بھی باقاعدگی سے متلی اور شدید قے سے گزر رہی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ جب تک انھیں خون کی الٹیاں شروع نہیں ہوئی ڈاکٹروں نے ان کی حالت کو سنجیدہ نہیں لیا۔
پریگنینسی یعنی حمل ٹھہرنے کے علاوہ وہ آٹھ وجوہات جو ماہواری رُکنے کا باعث بن سکتی ہیں’نوعمری میں حمل کو عام کرنا‘: روس کا سکول، کالج کی طالبات کو حاملہ ہونے کی ترغیب دینے کا متنازع اقدام کیا ہے؟سائنسدانوں نے حاملہ خواتین کو صبح ہونے والی متلی اور قے کا حل تلاش کر لیا15 ماہ کی ’حاملہ‘: بانجھ خواتین میں ’معجزانہ‘ طریقے سے حمل ٹھہرانے کا دھوکہ کیسے پکڑا گیا؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایچ جی کی تشخیص کرنا خاص طور پر مشکل ہے کیونکہ اس کی علامات اکثر حمل کے دوران عام علامات یا حالت جیسی ہوتی ہیں۔
نائیجیریا کے شہر ایبونی میں نیشنل اوبسٹریٹرک فسٹولا سنٹر میں ماہر امراض نسواں ڈاکٹر نکیروکا اوچے نیویڈاگو نے خبردار کیا ہے کہ لوگوں کو ایچ جی کو رد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مارننگ سکنس متلی اور قے کا سبب بن سکتی ہے لیکن زیادہ تر خواتین ایسی حالت میں اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہیں اور معمول کے مطابق کھا سکتی ہیں جبکہ دوسری طرف ایچ جی کی حالت میں آپ دن بدنکمزور ہوتے جاتے ہیں،یہ حالت خواتین کو لاغر بنا دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ بنیادی کاموں کو بھی نہیں کر سکتی۔‘
ڈاکٹر نکیروکا اوچے نیویڈاگو متنبہ کرتی ہیں کہ ’(یہ حالت) صحت کی سنگین پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے، بشمول جسم میں نمکیات اور الیکٹرولائٹ کا عدم توازن جو جسمانی اعضا کے کام کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔‘
لندن میں پی بی آر لائف سائنسز کے ماہر امراض نسواں اور میڈیکل ایجوکیٹر ڈاکٹر اڈینی اکیسیکو کہتے ہیں کہ ایچ جی بچے کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
’اگر ماں کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو غذائیت کی کمی کے نتیجے میں بچے کا پیدائش کے وقت وزن کم ہو سکتا ہے، حمل کے دوران کمزور بچے اور یہاں تک کہ قبل از وقت ڈیلیوری بھی ہو سکتی ہے۔‘
کیا ایچ جی جینیاتی مرض ہے؟
مختلف تحقیق میں حتمی طور پر ہائپریمیسس گریویڈیرمکو جینیاتی مرض سے نہیں جوڑا ہے۔ تاہم یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کی ایک محقق ڈاکٹر مارلینا فیزو کا کہنا ہے کہ اس بات کے پختہ شواہد موجود ہیں کہ ایچ جی میں جینیاتی تعلق ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ 'تحقیق کے دوران ہم نے یہ پایا کہ اگر آپ کی بہن کو یہ ہے تو آپ میں اس کے ہونے کا خطرہ 17 گنا زیادہ ہے۔'
ڈاکٹر فیزو نے مزید کہا کہ ایچ جی والی خواتین میں حمل کے دوران ہارمون GDF15 کی سطح زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ہارمون جسم میں سوزش، میٹابولزم اور خلیوں کی نشوونما کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ خواتین بھی جینیاتی طور پر حمل سے پہلے نچلے درجے کا شکار ہوتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ 'ہم نے پایا ہے کہ ہارمون کی سطح میں یہ تبدیلی اضافے کے لیے انتہائی حساسیت پیدا کرتی ہے، جس سے ہائپریمیسس شروع ہوتا ہے۔'
Getty Imagesاس کا علاج کیا ہے؟
ایسی دوائیں ہیں جو حمل میں تجویز کی جا سکتی ہیں جن میں حمل کے پہلے 12 ہفتوں میں ایچ جی کی علامات کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ ان میں اینٹی ایمیٹک دوائیں، سٹیرائڈز، یا دونوں کا مجموعہ شامل ہو سکتا ہے۔
تاہم، اگر اس حالت کے دوران متلی اور قے پر قابو نہیں پایا جاتا تو متاثرہ خواتین کو ہائیڈریشن اور غذائی امداد کے لیے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
بی بی سی نے جن طبی ماہرین سے بات کی ان کا کہنا ہے کہ الیکٹرولائٹ کے عدم توازن جیسی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے مریضوں کی نگرانی کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ایسے مںی دماغی صحت بھی اتنی ہی اہم ہے۔ایچ جی کا نفسیاتی نقصان ڈیلیوری سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر اکیسیکو کے مطابق، انتہائی صورتوں میں ایچ جی کے دیرپا نفسیاتی اثرات خواتین میں بے چینی اور ڈپریشن کا باعث بن سکتے ہیں۔
نینی کا کہنا ہے کہ انھوں نے کئی مہینوں کی جسمانی اور جذباتی پریشانی کو برداشت کیا، اور ان کے بچے کی پیدائش کے بعد بھی ان میں ایچ جی کے اثرات برقرار رہے۔
وہ کہتی ہیں کہ 'میں نے خود کو آئینے میں دیکھنا، اپنا خیال رکھنا چھوڑ دیا۔لوگ پوچھتے ہیں کہ میری جلد اتنی پیلی کیوں لگ رہی ہے۔ ایچ جی نے مجھے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔'
وہ مزید کہتی ہیں کہ 'میرے خیال میں اس تنہائی نے پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں بھی اضافہ کیا جس کا مجھے بچے کی پیدائش کے بعد میں سامنا کرنا پڑا۔'
سنگین صورتوں میں نفسیاتی نقصان سے نمٹنے کے لیے اضافی علاج اور جذباتی مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ڈاکٹر اوچے کہتی ہیں کہ اس بارے میں آگاہی کی ضرورت ہے کیونکہ ایچ جی کی اکثر تشخیص نہیں ہوتی اور بہت سی خواتین خاموشی سے اس کا شکار ہوتی ہیں۔
ایسی صورت میں فوری طبی علاج خواتین کی حالت کو سنبھالنے اور ماں اور بچے دونوں کے لیے صحت کے سنگین خطرات کو روکنے میں اہم ہے۔ یہ نہ صرف خواتین کی تکلیف کو کم کرنے کرتا ہے بلکہ ممکنہ طور پر ان کی جان بھی بچاتا ہے۔
پریگنینسی یعنی حمل ٹھہرنے کے علاوہ وہ آٹھ وجوہات جو ماہواری رُکنے کا باعث بن سکتی ہیں’نوعمری میں حمل کو عام کرنا‘: روس کا سکول، کالج کی طالبات کو حاملہ ہونے کی ترغیب دینے کا متنازع اقدام کیا ہے؟’یہودی طالبان‘: زبردستی حمل ٹھہروانے اور نابالغوں کے ریپ جیسے الزامات کی زد میں آنے والا قدامت پسند یہودی فرقہ ’لیو طہور‘15 ماہ کی ’حاملہ‘: بانجھ خواتین میں ’معجزانہ‘ طریقے سے حمل ٹھہرانے کا دھوکہ کیسے پکڑا گیا؟سائنسدانوں نے حاملہ خواتین کو صبح ہونے والی متلی اور قے کا حل تلاش کر لیا