حبیب یونیورسٹی نے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں اپنی آٹھویں کانووکیشن تقریب کا انعقاد کیا،جس میں 2025ء کی کلاس کی تعلیمی کامیابیوں اور تبدیلی کے سفر کو سراہا گیا۔ اس یادگار تقریب میں 237 فارغ التحصیل طلبہ کی استقامت، ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا، جنہوں نے یونیورسٹی کی منفرد لبرل آرٹس اور سائنس ماڈل سے تعلیم حاصل کی۔
رواں سال کے کانووکیشن میں Yohsinپر مبنی اصلاحی نصاب کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا جو سوچ سمجھ کر خود کو پروان چڑھانے کا فلسفہ ہے۔ اس پُروقار تقریب میں ممتاز اساتذہ، قابل فخر خاندان اور علمی و سماجی حلقوں کی نمایاں شخصیات نے شرکت کی۔
Comparative Humanitiesپروگرام سے تعلق رکھنے والیClass Valedictorian ایمان اشرف نے گریجویٹ کلاس کے اجتماعی سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، ''ہم نے سیکھا کہ کیسے پچھلی باتوں کو بھلا کر نئے انداز میں سوچا جائے، سوال کیا جائے اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ اس سفر میں کبھی کبھار اپنی ذات کو ترجیح دینا فطری بات ہے۔یہ انسانی کمزوری ہے، لیکن اگر ہم واقعی اُس دنیا کے متلاشی ہیں جس میں ہم پیدا ہونا چاہتے تھے تو صرف باتوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ 'اصلاحی مستقبل‘، ’فکری خودسازی‘ اور ’Yohsin‘ جیسے تصورات اُس وقت تک بے معنی رہیں گے جب تک ہم انہیں اپنے عمل سے بامعنی عمل نہیں بنادیتے۔ چنانچہ جب ہم مستقبل کے خواب کو آنکھوں میں سجائیں تو یہ بھی لازم ہے کہ ہم ایسا راستہ تلاش کریں جو صرف واپس لوٹانے کا نہ ہو بلکہ آگے بڑھ کر دینے کا ہو۔''
حبیب یونیورسٹی کے صدر واصف رضوی نے اپنے خطاب میں ترقی کے مروجہ تصور کو چیلنج کرتے ہوئے کہا،''جسے عموماً ترقی کہتے ہیں، وہ دراصل ظلم و ستم کی ایک مہذب شکل ہے۔ جدیدیت کے اس خوشنما پردے کے پیچھے،جسے کھربوں ڈالر زکی تشہیری مشینری نے سجا رکھا ہے۔وسائل کا، انسانوں کا اور معنی کا بے رحمانہ استحصال پانچ سو سالہ ایک نہ ختم ہونے والی مہم جاری ہے۔''
اور اب آپ کلاس آف 2025 میں شامل ہیں۔ آپ اس دنیا کے دروازے پر لاعلمی کی حالت میں نہیں پہنچے، بلکہ آپ کی تربیت حبیب یونیورسٹی جیسے نایاب اور منفرد ادارے میں ہوئی ہے۔ ایک ایسی جگہ جو آپ کی سوچ کو کسی مفاد کے لیے بیچتی ہے اور نہ ہی آپ کی روح کو کسی ڈگری کے عوض قربان کرتی ہے، بلکہ اس ادارے نے آپ کے لیے ایک دروازہ کھولا ہے۔یہYohsin کا دروازہ ہے۔ جو ایک فلسفہ، ایک عمل اور جینے کا سیدھا راستہ ہے۔ یہ آپ کو خوبصورتی، جذبے اور مقصد کے ساتھ جینے کی دعوت دیتی ہے۔''
واصف رضوی نے اعلیٰ تعلیم میں مساوات اور رسائی کے لیے حبیب یونیورسٹی کے غیر متزلزل عزم کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ کلاس آف 2025 کے 83 فیصد طلبہ کو ان کے تعلیمی سفر کے دوران مالی معاونت ملی۔ انہوں نے حبیب یونیورسٹی کی معزز ڈونرز اور کمیونٹی محسنین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جن کی سخاوت اور تعلیم کی طاقت پر یقین نے ان انقلابی مواقع کو ممکن بنایا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ ماہر معاشیات اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی چیئرپرسن ڈاکٹر شمشاد اختر نے اختتامی خطاب میں فارغ التحصیل طلبہ کو بلند حوصلگی کے ساتھ انکساری اپنانے کی نصیحت کی۔ انہوں نے کہا، ”آپ کی قابلیت کا تعین آپ کی صلاحیت سے نہیں بلکہ آپ کے رویے سے ہوتا ہے۔ اس لیے بلند سوچیں۔ جو کچھ آپ اپنے اہداف حاصل کرکے پاتے ہیں، وہ اتنا معنی خیز نہیں جتنا یہ کہ ان اہداف کو حاصل کرکے آپ کیا بن پاتے ہیں۔“
حبیب یونیورسٹی کے چانسلر رفیق محمد حبیب نے فارغ التحصیل طلبہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا، '' حبیب یونیورسٹی آپ ہی کی وجہ سے ہے۔ آپ کا جوش، جستجو اور ایک دوسرے سے مضبوط تعلقات اس ادارے کی روح کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب آپ یہاں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیں توآپ پاکستان میں بہترین انڈر گریجویٹ تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں۔ آپ جو بھی راستہ منتخب کرتے ہیں اس کے لیے آپ تیار بھی ہوتے ہیں۔“
جیسے ہی کلاس آف 2025 عملی میدان میں قدم رکھے گی وہ اپنے ساتھ فکری جستجو، ہمدری اور مقصدیت کو لے کرآگے بڑھے گی، جو حبیب یونیورسٹی کے تعلیمی تجربے کی اصل روح ہے۔ یونیورسٹی کی کمیونٹی فارغ التحصیل طلبہ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہے اور پُرامید ہے کہ یہ نوجوان نہ صرف تبدیلی کے علمبردار بلکہ مستقبل کے فکری رہنما بن کر دنیا میں مثبت اور پائیدار اثرات مرتب کریں گے۔