بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اتوار کو ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت جماعتِ اسلامی کی رجسٹریشن بحال کر دی، جس سے جماعت اسلامی کو ایک دہائی بعد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔خیال رہے حسینہ واجد کی سابق حکومت نے جماعت اسلامی کی رجسٹریشن کی منسوخی کی تھی۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سپریم کورٹ نے جماعتِ اسلامی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جس سے اب یہ جماعت دوبارہ الیکشن کمیشن کے ساتھ باضابطہ طور پر سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر ہو سکے گی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل توحید الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس جماعت کی رجسٹریشن قانون کے مطابق نمٹائے۔
جماعتِ اسلامی کے وکیل شیشیر منیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ملک میں ایک ’جمہوری، شمولیتی اور کثیر الجماعتی نظام‘ کو فروغ دے گا۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ بنگلہ دیشی عوام، خواہ ان کی نسلی یا مذہبی شناخت کچھ بھی ہو، جماعتِ اسلامی کو ووٹ دیں گے، اور پارلیمنٹ تعمیری مباحثوں سے بھرپور ہو گی۔‘شیخ حسینہ کو اگست میں وزیرِاعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد، جماعتِ اسلامی نے 2013 کے ہائی کورٹ کے اُس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کی تھی، جس میں جماعت پر پابندی لگائی گئی تھی۔یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب سپریم کورٹ نے 27 مئی کو جماعتِ اسلامی کے ایک اہم رہنما، اے ٹی ایم اظہرالاسلام کے خلاف 2014 میں دی گئی سزائے موت کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔ ان پر 1971 کی جنگِ آزادی کے دوران ریپ، قتل اور نسل کشی کے الزامات تھے۔جماعتِ اسلامی نے 1971 میں پاکستان کے حق میں موقف اپنایا تھا، جو آج بھی بہت سے بنگلہ دیشیوں کے لیے ایک حساس اور غصے کا باعث ہے۔جماعت اسلامی شیخ حسینہ کے والد اور بنگلہ دیش کے بانی، شیخ مجیب الرحمٰن کی حریف رہی ہے۔شیخ حسینہ نے اپنے دورِ حکومت میں جماعتِ اسلامی پر پابندی عائد کی اور اس کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔مئی میں عبوری حکومت نے عوامی لیگ پر بھی اس وقت تک پابندی عائد کر دی جب تک کہ ان پر عوامی احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن کے مقدمے کا فیصلہ نہ آ جائے، جو شیخ حسینہ کی معزولی کا سبب بنا تھا۔