پولی گراف ٹیسٹ کیا ہے اور عمران خان اِس سے انکار کیوں کر رہے ہیں؟

اردو نیوز  |  May 27, 2025

پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان 9 مئی 2023 کے پُرتشدد واقعات سے متعلق مقدمات میں پولی گراف ٹیسٹ کرانے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔اس حوالے سے لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے پیر کو دوبارہ حکم جاری کیا کہ عمران خان کے پولی گراف اور فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کیے جائیں اور 9 جون 2025 تک رپورٹ پیش کی جائے۔

یہ فیصلہ استغاثہ کی اس دلیل کے بعد سامنے آیا کہ بغیر ان سائنسی ٹیسٹوں کے 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکتیں۔ تاہم عمران خان کے وکلا اور پارٹی رہنماؤں نے اسے ’سیاسی انتقام‘ قرار دیتے ہوئے ٹیسٹ کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس صورت حال نے پولی گراف ٹیسٹ کی افادیت اور عدالتی عمل میں اِس کے کردار پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔مقدمات اور عمران خان کا موقفنو مئی 2023 کو عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد مظاہرے پُھوٹ پڑے تھے۔ان مظاہروں کے دوران تحریک انصاف کے حامیوں نے مبینہ طور پر فوجی تنصیبات، جیسے کہ لاہور کے جناح ہاؤس (کور کمانڈر ہاؤس)، میانوالی ایئربیس، فیصل آباد میں آئی ایس آئی اور راولپنڈی میں آرمی ہیڈکواٹرز پر حملے کیے۔ان واقعات کے نتیجے میں عمران خان کے خلاف دہشت گردی کے 12 مقدمات درج کیے گئے، جن میں ان پر مظاہرین کو اُکسانے کا الزام ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان، جو اگست 2023 سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، ان تمام الزامات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 14 مئی 2025 کو پہلی بار پولیس کو عمران خان کے پولی گراف اور فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کی اجازت دی تھی۔تاہم عمران خان نے تین بار یعنی 20، 21، اور 22 مئی کو یہ ٹیسٹ کرانے سے انکار کیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ اپنے وکلا کی عدم موجودگی میں یہ ٹیسٹ نہیں دیں گے۔ ایک موقعے پر انہوں نے کہا کہ ’یہ ٹیسٹ مجھے پھنسانے کی کوشش ہے، یہ بے بنیاد ہے۔‘

عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ وہ اڈیالہ جیل میں ٹیسٹ کے انتظامات کرے اور 9 جون تک رپورٹ پیش کرے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت میں استدلال کیا کہ 9 مئی کے واقعات کے 727 دن بعد یہ ٹیسٹ کروانا غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے، کیونکہ عمران خان کو دہشت گردی کے 21 مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے۔عدالت کا تازہ حکمانسداد دہشت گردی کے جج منظر علی گل نے استغاثہ کی درخواست پر سماعت کے بعد حکم دیا کہ عمران خان کے پولی گراف اور فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ دوبارہ کیے جائیں۔ عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ وہ اڈیالہ جیل میں ٹیسٹ کے انتظامات کرے اور 9 جون تک رپورٹ پیش کرے۔ استغاثہ کے وکیل رانا آزار نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے تحقیقات کے تقاضوں کے لیے ایسے ٹیسٹوں کی اجازت دی ہے اور یہ ٹیسٹ عمران خان کے بیانات کی تصدیق کے لیے ضروری ہیں۔پنجاب کی وزیر اطلاعات اعظمیٰ بخاری نے عمران خان کے انکار پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور سچ سے بھاگ رہے ہیں۔‘’کبھی کہتے ہیں کہ وہ سو رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ وکیل موجود نہیں۔ وہ یہ سمجھ لیں کہ وہ اڈیالہ جیل میں ہیں، بنی گالہ میں نہیں۔‘

بیرسٹر سلمان صفدر کے مطابق ’9 مئی کے 727 دن بعد یہ ٹیسٹ کروانا غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے‘ (فائل فوٹو: جیورسٹ ڈاٹ کام ایکس)

دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما شیخ وقاص اکرم نے اسے ’عدالتی تاریخ کا بدترین سیاسی فیصلہ’ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ’پارٹی اِس کی اجازت نہیں دے گی۔‘پولی گراف ٹیسٹ کیا ہے؟’پولی گراف ٹیسٹ جسے عام طور پر لائر ڈیٹیکٹر یا جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ‘ کہا جاتا ہے، ایک سائنسی طریقہ ہے جو کسی شخص کے جسمانی ردِعمل جیسے دِل کی دھڑکن، سانس کی رفتار، پسینہ اور بلڈ پریشر کی پیمائش کرتا ہے جب وہ سوالات کے جواب دیتا ہے۔اس کا مقصد یہ اندازہ لگانا ہے کہ آیا کوئی شخص جھوٹ بول رہا ہے، کیونکہ جھوٹ بولتے وقت جسم کے یہ ردِعمل تبدیل ہو سکتے ہیں۔پولیس کے ایک سابق تفتیشی افسر محمد عرفان کہتے ہیں کہ ’جس شخص کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے اس کو سینسرز سے لیس کیا جاتا ہے جو اس کے جسمانی ردِعمل کو ریکارڈ کرتے ہیں۔‘ماہر پولی گرافسٹ اس شخص کو کہتے ہیں جو یہ ٹیسٹ کرتا ہے وہ سوالات پوچھتا ہے، جن میں کنٹرول سوالات (جن کا جواب معلوم ہوتا ہے) اور متعلقہ سوالات (جُرم سے متعلق) شامل ہوتے ہیں۔نتائج کا تجزیہ گرافس کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کون سے جوابات پر غیر معمولی ردِعمل دیکھا گیا۔

سپریم کورٹ کے مطابق ’پولی گراف ٹیسٹ تحقیقات کے لیے استعمال ہو سکتا ہے بشرطیکہ ملزم اس پر رضامند ہو‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولی گراف ٹیسٹ کی افادیتپولی گراف ٹیسٹ کی افادیت عالمی سطح پر متنازع ہے۔ امریکی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے 2003 کے ایک جائزے کے مطابق پولی گراف ٹیسٹ کی درستی 80 سے 90 فیصد تک ہو سکتی ہے، لیکن یہ مکمل طور پر قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ کئی عوامل اس کی درستی کو متاثر کرتے ہیں۔نفسیاتی حالت: پریشانی، خوف یا غُصہ جُھوٹ کے بغیر بھی غیرمعمولی ردِعمل پیدا کر سکتے ہیں۔ماہر کی مہارت: ٹیسٹ کے نتائج کی تشریح پولی گرافسٹ کی تربیت پر منحصر ہوتی ہے۔جوابی حکمت عملی: کچھ افراد جان بوجھ کر اپنے ردِعمل کو کنٹرول کر سکتے ہیں، جیسے کہ سانس روک کر یا ذہنی طور پر خود کو پُرسکون رکھ کر۔قانونی حیثیت اور ٹرائل میں کردارپاکستان میں پولی گراف ٹیسٹ کی قانونی حیثیت محدود ہے اور اسے عدالتی ثبوت کے طور پر قبول کرنے پر بحث جاری ہے۔ ایویڈینس ایکٹ 1872 اور قانون شہادت 1984 کے تحت پولی گراف ٹیسٹ کے نتائج براہ راست قابلِ شہادت نہیں ہیں، کیونکہ انہیں سائنسی طور پر مکمل قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا۔تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2016 کے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ پولی گراف ٹیسٹ تحقیقات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ملزم اس پر رضامند ہو۔

پاکستان میں پولی گراف ٹیسٹ کی قانونی حیثیت محدود ہے اور اسے بطور ثبوت قبول کرنے پر بحث جاری ہے (فائل فوٹو: فری پَک)

ٹرائل میں کردار: پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پولی گراف ٹیسٹ کا بنیادی مقصد تحقیقات کو آگے بڑھانا ہے، جیسے کہ ملزم کے بیانات کی تصدیق یا نئے شواہد کی تلاش میں مدد ملتی ہے۔‘’عدالتوں میں پولی گراف کے نتائج کو ثانوی ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی ملزم ٹیسٹ میں ’جھوٹ‘ بولتا دکھائی دیتا ہے تو اسے دیگر شواہد (جیسے عینی شہادت یا ویڈیو فوٹیج) کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔‘پاکستان کے قانون کے تحت پولی گراف ٹیسٹ کے لیے ملزم کی رضامندی ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق عمران خان کا انکار اسی قانونی حق کے تحت بظاہر معلوم ہوتا ہے لیکن عدالت ان کے انکار کو تحقیقات میں تعاون نہ کرنے کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔عالمی سطح پر انڈیا، امریکہ، اور یورپ کی کئی عدالتوں نے پولی گراف ٹیسٹ کو قابل قبول ثبوت ماننے سے انکار کیا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی سپریم کورٹ نے 1998 میں فیصلہ دیا کہ پولی گراف ٹیسٹ کے نتائج کی سائنسی غیر یقینی کی وجہ سے انہیں عدالتوں میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں بھی ماہرین جیسے بیرسٹر محمد احمد پنسوٹا کہتے ہیں کہ ’پولی گراف ٹیسٹ ایک نفسیاتی دباؤ ہے۔ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا عدالتی عمل کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘عمران خان کے انکار کے اثراتپراسیکیوشن کا کہنا ہے کہ عمران خان کے مسلسل انکار سے 9 مئی کے مقدمات کی تحقیقات میں تاخیر ہو رہی ہے، جو کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت چار ماہ میں مکمل ہونی ہیں۔ استغاثہ کا مزید کہنا ہے کہ عمران خان کا عدم تعاون ان کے الزامات کو مضبوط کرتا ہے، جبکہ پی ٹی آئی رہنما اسے سیاسی دباؤ کا حربہ قرار دیتے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More