سنیچر کی سہ پہر بالآخر پاکستان اور انڈیا کے مابین جاری 18 روز کی کشیدگی کا خاتمہ اس وقت ہو گیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ دونوں حریف ملک جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں۔لیکن اس سے بڑی خبر تھوڑی دیر بعد ان کے وزیر خارجہ مارک روبیو نے یہ کہہ کر دی کہ ’انڈیا اور پاکستان کی حکومتیں ایک غیرجانبدار مقام پر کئی اہم امور پر بات چیت شروع کرنے پر تیار ہو گئی ہیں۔‘یہ اس لیے بھی ایک بڑی خبر تھی کیونکہ گذشتہ پانچ دنوں میں دونوں ممالک کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے بعد یہ توقع تو سب کو تھی کہ سیزفائر ہو جائے گا لیکن ایسا بہت کم لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ اس عارضی جنگ کا اختتام مذاکرات کی میز پر ہو گا۔
لیکن یہ وسیع ایجنڈا کیا ہو گا اور کیا اس ممکنہ بات چیت کا کوئی نتیجہ نکلے گا یا ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو جائے گی؟
اس حوالے سے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، جو فوجی صدر مشرف کے دور حکومت میں خود بھی انڈیا کے ساتھ مذاکرات کے عمل کا حصہ رہے ہیں اور دعوٰی کرتے ہیں کہ اس وقت مسئلہ کشمیر تقریباً حل ہو چکا تھا، پرامید ہیں کہ آج آنے والی یہ خبر خطے میں ایک بڑا بریک تھرو ثابت ہو سکتی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ 22 اپریل کے بعد سے ہونے والے واقعات میں انڈیا کو بری طرح پسپائی ہوئی ہے اور اب اگر مذاکرات کی میز سجتی ہے تو ’یہ کوشش کامیاب ہو سکتی ہے کیونکہ انڈیا نے اب سبق سیکھ لیا ہو گا۔‘ خورشید قصوری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کو توقع تھی کہ پہلگام واقعے کے بعد دنیا کے تین بڑے پاور سینٹرز واشنگٹن، برسلز (یورپی یونین) اور بیجنگ میں سے کم از کم دو اس کی حمایت کریں گے لیکن یہ اس کے لیے ناکامی تھی کہ کسی نے اس پورے کرائسز میں کسی معاملے پر اس کی حمایت نہیں کی۔’امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے یہ کہہ کر لاتعلقی اختیار کی کہ یہ ہزار، 1500 برسوں سے لڑ رہے ہیں اور پھر ان واقعات کو شرمناک قرار دے کر انڈیا کو تھپڑ رسید کیا۔ برسلز نے بھی ان کی حمایت نہیں کی اور چین نے کھل کر کہہ دیا کہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری ان کے لیے اہم ہے۔‘سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کو توقع تھی کہ خلیجی ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جو کہ مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے ہمارے بھائی ہیں وہ بھی اس مرتبہ اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے لیکن انہوں نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔‘ان کے مطابق انڈیا کو اس بار عسکری میدان میں واضح ناکامی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کامیاب ہونے کی امید کی جا سکتی ہے کیونکہ اس کے بعد اب مودی حکومت پر اندرون ملک دباؤ بہت بڑھ جائے گا۔خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کو عسکری میدان میں بھی بڑی ناکامی ہوئی ہے اور پاکستان نے ڈیڑھ گھنٹے کی لڑائی میں ہی برتری حاصل کر لی۔ اب ان کی اپوزیشن بھی ہمت پکڑے گی اور ان سے سوال کرے گی کیونکہ مودی کا مقامی بیانیہ بھی ناکام ہو گیا۔‘خورشید قصوری نے کہا کہ جب انڈیا اور پاکستان میں مذاکرات کی میز بچھے گی تو اس میں تمام اہم معاملات زیرِبحث آئیں گے۔’پاکستان کے لیے کشمیر اور پانی کا معاملہ بہت اہم ہے۔ دہشت گردی کی بات ہو گی اور پاکستان بلوچستان کا مسئلہ بھی اٹھائے گا۔ پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو پکڑا ہوا ہے اور یہ دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ پاکستان نے پہلگام واقعے کی مذمت کی لیکن انڈیا نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی مذمت نہیں کی۔ تو بات ہر طرح سے ہو گی۔‘انہوں نے تجویز دی کہ دونوں ملکوں کو موسمیاتی تبدیلی اور دیگر کئی امور بھی ایجنڈے میں شامل کر لینا چاہییں۔خورشید قصوری کا ماننا ہے کہ 22 اپریل کے بعد سے ہونے والے واقعات میں انڈیا کو بری طرح پسپائی ہوئی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)’مذاکرات سے زیادہ امید نہیں لگائی جا سکتی‘پاکستان کے سابق سفیر ڈاکٹر نفیس زکریا کہتے ہیں کہ ’پاکستان کا انڈیا سے تاج محل یا گنگا جمنا کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ کشمیر اور دریائے سندھ کے پانی کا ہے اور مذاکرات میں ان مسائل کو حل کرنا ہو گا۔‘انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ دیگر معاملات جیسے تجارت اور اعتماد بحالی کے اقدامات، سی پیک وغیرہ پر بھی بات ہو گی لیکن ان مذاکرات سے زیادہ امید نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ انڈیا قابل اعتماد نہیں ہے۔’اس سے قبل کمپوزیٹ ڈائیلاگ میں 15 برس ضائع کیے گئے، میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ انڈیا پاکستان کو گھما رہا ہے اور وقت حاصل کر رہا ہے اور آخر میں کو ئی نتیجہ نہیں نکلا۔‘ڈاکٹر نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ امریکہ، یورپ اور اقوام متحدہ کے علاوہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو بھی خطے میں امن کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’مسائل حل کرنے کے لیے پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کے لیے بہتر تیاری کی بھی ضرورت ہے۔ ہم عالمی سطح پر اپنا کیس درست طریقے سے نہیں لڑتے اور دنیا کے سامنے اپنا موقف پیش نہیں کرتے۔‘’میں نے برطانیہ میں بطور سفارت کار کشمیر کے معاملے پر پارلیمنٹ کو دو برسوں میں 70 کے قریب خطوط اور بے شمار بریفنگز دیں۔ ہمیں اس نوعیت کی سرگرمیاں بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔‘سابق سفیر ڈاکٹر نفیس زکریا کہتے ہیں کہ ’پاکستان کا انڈیا سے تاج محل یا گنگا جمنا کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ کشمیر اور دریائے سندھ کے پانی کا ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)’بات تہ در تہ آگے بڑھے گی‘انڈیا، امریکہ، برطانیہ، ایران اور افغانستان میں سفارت کاری کے فرائض سرانجام دینے والے آصف درانی ان مذاکرات کو وسیع البنیاد قرار دینے کو قبل از وقت قرار دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’ابھی تو سیز فائر ہوا ہے، دیکھنا ہو گا کہ آگے کیسے پیشرفت ہوتی ہے۔ بات تہہ در تہہ آگے بڑھے گی۔ آگے بڑھے گی تو پتہ چلے گا کہ ایجنڈا کیا ہے اور پیشرفت کیا ہے۔‘’تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ دونوں ممالک عین جنگ کے درمیان سے مذاکرات کی طرف بڑھ گئے ہیں۔‘