پاکستان میں حکام کا دعویٰ ہے کہ انڈیا کی جانب سے بگلیہار ڈیم پر بنائے گئے سپل ویز بند ہونے کے باعث دریائے چناب میں گذشتہ تین روز کے دوران پانی کا بہاؤ متاثر ہوا ہے اور انڈین اقدامات کے باعث پانی کا یہ بہاؤ ’90 ہزار کیوسک سے دس ہزار کیوسک تک گِرا ہے۔‘
یاد رہے کہ پہلگام حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے خلاف جو اقدامات کیے ہیں اُن میں دہائیوں پرانے سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی شامل ہے۔ اس معاہدے کے تحت انڈیا دریائے جہلم، چناب اور سندھ کے بیشتر پانی تک پاکستان کو رسائی دینے کا پابند ہے۔ اس معاہدے کی معطلی کے بعد پاکستان بارہا یہ واضح کر چکا ہے کہ اگر انڈیا کی جانب سے پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کی کوشش کی گئی تو اسے ’اقدامِ جنگ‘ تصور کیا جائے گا۔
اس ضمن میں بڑی پیشرفت پیر کے روز سامنے آئی جب بین الاقوامی خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ اور پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) سمیت متعدد انڈین ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ چند روز قبل انڈیا نے پاکستان کو مطلع کیے بغیر بگلیہار ڈیم کے سپل ویز (ڈیم میں اضافی پانی کے اخراج کے دروازے) بند کر دیے ہیں۔
انڈین میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جموں کے علاقے رام بن میں دریائے چناب پر بنے بگلیہار ڈیم کے تمام دروازے (سپل ویز) بند نظر آ رہے ہیں۔ تاہم بی بی سی آزادانہ طور پر ان ویڈیوز کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انڈیا نے گذشتہ ماہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد پہلی بار پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کے حوالے سے کام شروع کر دیا ہے اور یہ عمل دریائے چناب پر واقع بگلیہار ڈیم سمیت پانی سے بجلی بنانے والے دو منصوبوں پر جاری ہے۔
روئٹرز کے مطابق انڈیا کی سرکاری ہائیڈرو پاور کمپنی نے جمعرات سے ان ڈیمز کی نکاسی کا کام شروع کیا ہے تاکہ ان کی مکمل صفائی کی جا سکے۔ اس رپورٹ کے مطابق ڈیم کی صفائی یعنی اس سے گاد نکالنے کا عمل تین دن تک جاری رہا۔
دریائے چناب میں پانی کے بہاؤ کیسے متاثر ہوا؟Reuters’گذشتہ تین دن میں پانی کا بہاؤ متاثر کیا جا رہا ہے۔ دو دن قبل 90 ہزار کیوسک پانی کا بہاؤ تھا جو کم کر کے دس ہزار کیوسک تک گرایا گیا ہے‘
انڈین اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ بگلیہار ڈیم کے سپل ویز یعنی دروازے اس آبی ذخیرے کی صفائی کی غرض سے بند کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی طرف پانی کے بہاؤ میں کمی ہوئی ہے۔
اس رپورٹ میں اہلکار کے حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ ’بگلیہار ہائیڈل پاور پراجیکٹ کے دروازے بند کر کے ڈیم کی صفائی مکمل کر لی گئی ہے اور اب اسے پانی سے بھرنا ہے۔ پانی بھرنے کا عمل سنیچر کو شروع ہوا ہے۔‘
انڈین اخبار ’دی ٹریبیون‘ کے مطابق پانی کا بہاؤ روک کر آبی ذخائر کی صفائی اور اُن میں دوبارہ پانی بھرنے کا عمل غیرمعمولی نہیں تاہم شمالی انڈیا میں واقع ڈیمز پر یہ کام عام طور پر اگست کے مہینے میں کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستانی اور انڈین ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ انڈیا کے لیے فوری طور پر پاکستان کے حصے کا دریائی پانی بند کرنا ممکن نہیں اور اسے یہ صلاحیت حاصل کرنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
’انڈیا چناب کے پانی سے چھیڑچھاڑ کر رہا ہے‘Getty Images’انڈیا میں فی الحال اتنی صلاحیت تو نہیں ہے کہ وہ بہتے دریا کو روک سکیں مگر وہ ہمارے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہے ہیں‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر آبپاشی محمد کاظم پیرزادہ نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’انڈیا گذشتہ تین دن سے چناب کے پانی کے بہاؤ سے چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے اور بظاہر اِس کا مقصد پاکستان کو زچ کرنا ہے۔‘
صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ ’انڈیا جو کر رہا ہے یہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ انڈیا میں فی الحال اتنی صلاحیت تو نہیں ہے کہ وہ بہتے دریا کو روک سکیں مگر وہ ہمارے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہے ہیں۔‘
اُن کے مطابق ’گذشتہ تین دن میں پانی کا بہاؤ متاثر کیا جا رہا ہے۔ دو دن قبل 90 ہزار کیوسک پانی کا بہاؤ تھا جو کم کر کے دس ہزار کیوسک تک گرایا گیا ہے۔‘
صوبائی وزیرِ آبپاشی کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں منگل کی صبح ایک اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں تازہ ترین صورتحال پر غور کیا جائے گا۔
بگلیہار ڈیم کی ’صفائی‘: پاکستان کس حد تک متاثر ہو سکتا ہے؟Getty Images’انڈیا کے اقدام کو موجودہ حالات کے تناظر میں ایک ’نفسیاتی چال‘ کہا جا سکتا ہے مگر اس کا پاکستان پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا‘
انڈین ذرائع ابلاغ اور پاکستانی ماہرین کے مطابق ڈیم کی صفائی اور اسے دوبارہ بھرنا اگرچہ ایک معمول کا عمل ہے تاہم انڈیا یہ کام عموماً ماہ اگست میں کرتا ہے جسے اس مرتبہ بغیر کسی وضاحت کے مئی کے مہینے میں کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگست میں ڈیم کی صفائی اور اس کے دوبارہ بھرنے کا عمل اس وجہ سے کیا جاتا ہے کیونکہ مون سون کی بارشوں اور پہاڑوں پر برف پگھنے میں تیزی کے باعث اس مہینے میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ڈیم جلدی بھر جاتا ہے۔
کھلونا رفال طیارے پر لیموں اور مرچیں انڈیا میں زیر بحث: ’حکومت ہمیں شرمندہ کرنے کا کوئیموقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی‘پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کیا رُخ اختیار کر سکتی ہے؟سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی انڈین خواہش نظرِثانی کے مطالبے میں کیسے تبدیل ہوئیپہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا میں کشیدگی: ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان حالات کیسے بہتر ہوئے؟
تاہم اس بار انڈیا نے یہ عمل مئی کے مہینے میں شروع کر دیا ہے جب عمومی طور پر اس خطے میں پانی کی کمی ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق مئی میں پانی کی کمی کے باعث یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب بگلیہار ڈیم کو بھرنے میں زیادہ وقت لگے گا اور تب تک پاکستان کو پانی کی فراہمی معطل رہے گی کیونکہ انڈیا بگلیہار ڈیم میں پانی بھرنے کے بعد ہی اضافی پانی پاکستان کی طرف چھوڑتا ہے۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا بےوقت بگلیہار ڈیم کی صفائی کے عمل کو پاکستان کا پانی روکنے کے طور پر استعمال کر رہا ہے؟ اور اس سے پاکستان کتنا متاثر ہو سکتا ہے؟
آبی امور کے ماہرین کے مطابق یہ کوئی متنازع عمل نہیں تاہم سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا کو اس بارے میں پیشگی پاکستان کو آگاہ کرنا ہوتا ہے جو کہ شاید اس مرتبہ نہیں کیا گیا۔
ماہر آبی امور ڈاکٹر شعیب احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک معمول کی بات ہے اور انڈیا ہر سال ایسا کرتا ہے، تاہم اس مرتبہ اگست کے بجائے مئی میں صفائی کا عمل شروع کر دیا گیا جسے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک ’نفسیاتی چال‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کے مطابق اس اقدام کا پاکستان پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔
آبی امور کے ماہر نصیر میمن کا کہنا ہے کہ انڈیا کی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ دریا کا پانی زیادہ دیر تک روک سکے۔ ان کے مطابق بگلہیار ڈیم سمیت انڈیا کے آبی ذخائر میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ وہاں عرصے تک پانی روکا جا سکے کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اس سے انڈیا کا ہائیڈرو الیکٹرک کا نظام متاثر ہو جائے گا۔
انڈس واٹر ٹریٹی کمیشن کے سابق ایڈیشنل کمشنر شیراز میمن بھی اس رائے سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق اگلے چند ہفتوں میں جب درجہ حرارت بڑھے گا تو پھر چناب میں برف کے پگھلنے کی وجہ سے پانی کا بہاؤ تیز ہو جائے گا۔
ان کی رائے میں اس وقت انڈیا پانی کے بہاؤ کو کسی نہ کسی طرح اس وجہ سے بھی متاثر کر رہا ہے کیونکہ خطے میں پانی کی کمی ہے اور بارشیں کم ہوئی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پانی کے بہاؤ سے متعلق ڈیٹا شیئر کرنا سندھ طاس معاہدے کا اہم جزو ہے اور اگر انڈیا یہ نہیں کرتا تو یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ضرور ہے مگر انڈیا کے اس اقدام سے پاکستان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
آبی تنازعات پر نظر رکھنے والے نصیر میمن کے مطابق انڈیا اس وجہ سے بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ ان دریاؤں پر انڈیا نے کوئی نہر نہیں تعمیر کی ہے اور اگر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انڈیا ان میں سے کسی دریا کے پانی کا رخ موڑنا بھی چاہتا ہے تو اسے دو دہائیوں سے زیادہ کا وقت درکار ہو گا اور اس دوران پاکستان بھی خاموش تو نہیں بیٹھا رہے گا۔
بگلہیار ڈیم پر تنازع کیا ہے؟
بگلیہار ڈیم ایک طویل عرصے سے دونوں پڑوسی ممالک پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کا موضوع رہا ہے۔ پاکستان نے پہلے بھی اس معاملے میں عالمی بینک سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے بھی اعتراضات اٹھائے ہیں اور اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ دونوں ڈیم ہائیڈرو الیکٹرک ہیں یعنی ان سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔
بی بی سی ہندی کے مطابق بگلیہار ڈیم کے ذخائر میں 475 ملین کیوبک میٹر پانی رکھنے کی گنجائش ہے۔ اس ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 900 میگاواٹ ہے۔ ڈیم سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کو 'بگلیہار ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹ' کا نام دیا گیا ہے۔
یہ منصوبہ 1992 سے زیر غور تھا، بالآخر 1999 میں اس پر کام شروع ہو سکا، اس کے بعد کئی مراحل میں اس پر کام جاری رہا اور بالآخر 2008 میں مکمل طور پر تیار ہو گیا۔
سنہ 1960 میں ورلڈ بینک کی ثالثی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں پر پاکستان جبکہ تین مشرقی دریاؤں پر انڈیا کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔
بی بی سی ہندی کے مطابق بگلیہار کے علاوہ دریائے چناب پر کئی دیگر ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر کام جاری ہے۔ چناب اور اس کے معاون دریاؤں پر ایسے چار منصوبے جاری ہیں جو 2027-28 تک کام شروع کر دیں گے۔ یہ منصوبے پاکل دول (1000 میگاواٹ)، کیرو (624 میگاواٹ)، کوار (540 میگاواٹ) اور رتلے (850 میگاواٹ) جنھیں نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن اور جموں و کشمیر سٹیٹ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن مشترکہ طور پر تیار کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے 2018 میں پاکل ڈل پراجیکٹ، 2019 میں کیرو اور 2022 میں کوار ہائیڈل پاور پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکل ڈل میں 66 فیصد، کیرو میں 55 فیصد، کوار میں 19 فیصد اور رتلے پر 21 فیصد تعمیراتی کام مکمل ہو چکا ہے۔
پاکستان نے ان منصوبوں کی مخالفت کی ہے۔ رتلے اور کشن گنگا کے منصوبوں کی خاص طور پر زیادہ مخالفت کی گئی ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ ان ڈیموں کے ڈیزائن سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
بگلیہار کے علاوہ پاکل ڈل، کیرو، کوار اور رتلے میں 3,014 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ انڈین حکومت کے ایک اندازے کے مطابق ان منصوبوں سے ہر سال 10,541 ملین یونٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ اکیلے جموں و کشمیر میں 18,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جس میں سے 11,823 میگاواٹ صرف چناب بیسن میں ہے۔
کھلونا رفال طیارے پر لیموں اور مرچیں انڈیا میں زیر بحث: ’حکومت ہمیں شرمندہ کرنے کا کوئیموقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی‘پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کیا رُخ اختیار کر سکتی ہے؟سندھ طاس معاہدے کی معطلی: کیا انڈیا پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟سندھ طاس معاہدہ: انڈیا اور پاکستان کے درمیان وہ معاہدہ جس سے دونوں ملک چاہ کر بھی نہیں نکل سکتےسندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی انڈین خواہش نظرِثانی کے مطالبے میں کیسے تبدیل ہوئیپہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا میں کشیدگی: ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان حالات کیسے بہتر ہوئے؟پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مدارس بند، سیاحوں کی آمد پر پابندی: ’مدارس انڈیا کی کسی بھی ممکنہ کارروائی کا آسان ہدف ہو سکتے ہیں‘انڈین فضائیہ نے اتر پردیش کی زیرِ تعمیر ’گنگا ایکسپریس وے‘ پر لینڈنگ کی مشق کیوں کی؟