Getty Imagesنایاب معدنیات سمارٹ فون، کمپیوٹر، طبی اور دفاعی سامان سمیت کئی دیگر کئی اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں
چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ کشیدہ ہوتی جا رہی ہے اور دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے پر جوابی ٹیرف یعنی محصولات عائد کرنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔
لیکن چین اس تجارتی جنگ میں امریکہ کا مقابلہ اس پر صرف جوابی ٹیرف عائد کر کے ہی نہیں کر رہا بلکہ چین نے اب کئی ’نایاب‘ معدنیات کی برآمد پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، جو امریکہ کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
اس اقدام سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ ان معدنیات پر کس قدر انحصار کرتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی ہفتے ہی کامرس ڈیپارٹمنٹ کو حکم دیا تھا کہ اہم معدنیات کی پیداوار کو بڑھایا جائے تاکہ امریکہ کا ان معدینات کی درآمد پر انحصار کم کیا جا سکے۔
لیکن یہ ’نایاب‘ معدنیات اتنی اہم کیوں ہیں اور یہ کس طرح تجارتی جنگ کو ہلا کر رکھ سکتی ہیں؟
’ریئر ارتھ منرلز‘: نایاب زیر زمین معدنیات کیا ہیں؟
نایاب زیر زمین معدنیات، جنھیں ’ریئر ارتھ‘ کہا جاتا ہے، 17 ملتی جلتی کیمیائی خصوصیات والی معدنیات ہیں جن کا جدید ٹیکنالوجی میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ معدنیات سمارٹ فون، کمپیوٹر، طبی اور دفاعی سامان سمیت کئی دیگر کئی اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔
ان میں سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم، سیریئم، پراسیوڈائمیئم، نیوڈیئم، پرومیتھیئم، سماریئم، یوروپیئم، گاڈولینیئم، ٹیربیئم، ڈسپروسیئم، ہولمیئم، اربیئم، تھولیئم، یٹیربیئم اور لٹیٹیئم نامی معدنیات شامل ہیں۔
انھیں نایاب اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا خالص حالت میں ملنا بہت غیرمعمولی سمجھا جاتا ہے تاہم دنیا بھر میں ان کے ذخائر موجود ہیں۔
لیکن اکثر یہ نایاب معدنیات تھوریئم اور یورینیئم جیسے تابکاری عناصر کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ان کو الگ کرنے کے لیے بہت سے زہریلے اجزا کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے ان کو نکالنے کا عمل پیچیدہ اور مہنگا ہوتا ہے۔
جنجر انٹرنیشنل ٹریڈ اینڈ انویسٹمینٹ کے ڈائریکٹر تھامس کریومر اس کی مزید وضاحت ایسے کرتے ہیں کہ ’وہ تمام چیزیں جنھیں آپ آن یا آف کرتے ہیں، نایاب معدنیات سے ہی بنتی ہیں۔‘
BBCانٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق چین کے پاس ان نایاب معدنیات کی نہ صرف 61 فیصد تک کی پروڈکشن ہے بلکہ 92 فیصد پروسیسنگ بھی چین کے پاس ہےچین کو نایاب معدنیات پر غلبہ کیسے حاصل ہوا؟
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین نایاب معدنیات نکالنے اور پھر انھیں پروسیس کرنے میں عالمی سطح پر بہت آگے نکل گیا ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے اندازے کے مطابق چین کے پاس ان نایاب معدنیات کی نہ صرف 61 فیصد تک کی پروڈکشن موجود ہے بلکہ 92 فیصد پروسیسنگ بھی چین کے پاس ہی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اس شعبے میں غلبہ رکھتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہے کہ کون سی کمپنیاں ان نایاب معدنیات کی سپلائی حاصل کر سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ ان معدنیات کو نکالنا اور پھر پروسیس کرنا بہت مہنگا اور ماحول کو آلودہ کرنے والا کام ہے۔
ان نایاب معدنیات میں تابکاری عناصر بھی ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین سمیت بہت سے دیگر ممالک بھی ان کی پیداوار سے گریزاں ہیں۔
تھامس کریومر کہتے ہیں کہ ’ان معدنیات کی پیداوار کے بعد تابکاری فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فی الحال یورپی یونین کے پاس اس مقصد کے لیے موجود تمام سہولیات عارضی ہیں۔‘
لیکن اس شعبے میں چین کا غلبہ راتوں رات نہیں ہوا بلکہ یہ کئی دہائیوں کی حکومتی پالیسیوں اور سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔
سنہ 1992 میں منگولیا کے دورے کے دوران چینی رہنما ڈینگ شیوپنگ نے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ’مشرق وسطیٰ کے پاس تیل جبکہ چین کے پاس نایاب معدنیات ہیں۔‘
یونیورسٹی آف برمنگھم میں نایاب معدنیات کے ریسرچ فیلو گیون ہارپر کہتے ہیں کہ ’20ویں صدی کے آخر میں چین نے نایاب معدنیات کی پیداوار اور پروسیسنگ کو ترجیح دی اور ایسا اکثر ماحولیاتی معیار کو نظر انداز کرتے ہوئے اور کام کرنے والوں کو دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم اجرت دے کر کیا گیا۔‘
’اس سے چین کو اپنے عالمی حریفوں کا مقابلہ کرنے جبکہ کان کنی اور ریفائننگ سے لے کر مقناطیس جیسی مصنوعات تیار کرنے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا موقع ملا۔‘
چین نے ان معدنیات کی برآمد کو کیسے محدود کیا؟
امریکہ کی جانب سے ٹیرف عائد کرنے کے بعد چین نے اس ماہ کے آغاز میں سات اہم معدنیات کی برآمد پر پابندی کے احکامات جاری کر دیے۔ ان میں وہ معدنیات بھی شامل ہیں، جو دفاعی شعبے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
یہ معدنیات اتنی عام نہیں اور ان کو پروسس کرنا بھی دوسری نایاب دھاتوں کے مقابلے میں خاصا مشکل ہے، جس کی وجہ سے یہ مزید قیمتی بن جاتی ہیں۔
چار اپریل سے چین نے تمام کمپنیوں کے لیے لازمی قرار دے دیا ہے کہ ملک سے ان نایاب معدنیات کو باہر بھیجنے سے پہلے سپیشل ایکسپورٹ لائسنس حاصل کرنا ہو گا۔
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت چین ’دوہری استعمال کی مصنوعات‘ کی تجارت کو کنٹرول کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
سینٹر آف سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے مطابق اس سے خاص طور پر امریکہ کمزور ہوتا ہے کیونکہ چین کے علاوہ کسی اور کے پاس ان معدنیات کو پروسیس کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔
Getty Imagesماہرین کے مطابق 20ویں صدی کے آخر میں چین نے نایاب معدنیات کی پیداوار اور پروسیسنگ پر بہت زیادہ ترجیح دیاس کا امریکہ پر کیا اثر پڑے گا؟
امریکی جیولوجیکل رپورٹ کے مطابق سنہ 2020 سے 2023 کے درمیان امریکہ نے نایاب معدنیات کی 70 فیصد درآمدات کے لیے چین پر انحصار کیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کی یہ نئی پابندی امریکہ کو سخت ٹکر دے سکتی ہے۔
یہ معدنیات فوج کے کئی شعبوں میں استعمال ہوتی ہیں جیسے میزائل اور ریڈار میں۔
سینٹر آف سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایف 35 جیٹس اور ٹوموہاک میزائل سمیت دفاعی ٹیکنالوجی کے کئی شعبوں کا انحصار ان معدنیات پر ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ’چین ان معدنیات کی بدولت امریکہ کے مقابلے میں پانچ سے چھ گنا زیادہ رفتار سے جدید ہتھیار اور آلات تیار کر رہا ہے۔‘
تھامس کریومر چین کی جانب سے پابندی پر کہتے ہیں کہ اس سے امریکہ کی دفاعی انڈسٹری پر خاصا فرق پڑے گا۔
لیکن ایسا صرف دفاعی شعبے میں ہی نہیں ہو گا بلکہ امریکہ کی مینوفیکچرنگ کا عمل بھی شدید متاثر ہو گا۔
یاد رہے کہ ٹرمپ امریکہ کی جانب سے بھاری ٹیرف عائد کرنے کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ ملک کی مینوفیکچرنگ بحال کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر ہارپر کہتے ہیں کہ دفاع اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں مینوفیکچرز ترسیل میں رکاوٹ کی وجہ سے ممکنہ طور پر اشیا کی قلت اور تاخیر کا سامنا کریں گے۔
ان کے مطابق ’نایاب معدنیات کی قیمتوں میں اضافہ بھی متوقع ہے، جس سے سمارٹ فونز سے لے کر ملٹری ہارڈ ویئر میں استعمال ہونے والے اجزا کی لاگت میں اضافہ ہو گا۔‘
اور یہ بھی واضح ہے کہ ٹرمپ کے ذہن میں پہلے سے ہی کچھ ہے۔ اسی ہفتے انھوں نے ان معدنیات پر امریکہ کے انحصار کی وجہ سے قومی سلامتی کو پیدا ہونے والے خطرات کی تحقیقات کا حکم دیا۔
اس حکمنامے کے مطابق ’صدر ٹرمپ یہ جانتے ہیں کہ غیر ملکی اہم معدنیات اور ان سے تیار کردہ مصنوعات پر زیادہ انحصار امریکہ کی دفاعی صلاحیتوں، ترقی اور تکنیکی جدت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔‘
’نایاب معدنیات قومی سلامتی اور معاشی استحکام کے لیے ضروری ہیں۔‘
Getty Imagesگزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین نایاب معدنیات نکالنے اور انھیں پروسیس کرنے میں عالمی سطح پر بہت آگے نکل گیا ہےتو کیا امریکہ خود یہ معدنیات پیدا نہیں کر سکتا؟
امریکہ کے پاس ان نایاب معدنیات کی صرف ایک ہی فعال کان موجود ہے تاہم اس میں بھی معدنیات کو الگ کر کے پروسیس کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔
1980 تک امریکہ میں ایسی کمپنیاں موجود تھیں جو نایاب مقناطیس تیار کرتی تھیں بلکہ 1980 تک امریکہ نایاب معدنیات کا سب سے بڑا پروڈیوسر بھی تھا لیکن یہ کمپنیاں اس وقت مارکیٹ سے نکل گئیں جب چین نے کم لاگت اوروسیع پیمانے پر معدنیات پر کام کی وجہ سے اس شعبے میں غلبہ حاصل کرنا شروع کر دیا۔
اور شاید اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کے ساتھ معدنیاتی ذخائر تک رسائی کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ چین پر انحصار کم کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ یوکرین میں نایاب زیرزمین معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں تاہم ان میں سے بہت سے ذخائر ایسے علاقوں میں موجود ہیں جن پر اس وقت روسی فوج کا قبضہ ہے۔
اس کے علاوہ ٹرمپ کی نظر گرین لینڈ پر بھی ہے۔ گرین لینڈ معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنے دو تہائی مالی اخراجات پورے کرنے کے لیے ڈنمارک پر انحصار کرتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار اس خطے پر کنٹرول حاصل کرنے کی بات کہہ چکے ہیں۔ دوبارہ صدر بننے پر انھوں نے کہا تھا کہ ’اس بڑے جزیرے (گرین لینڈ) کی ملکیت اور کنٹرول کو حاصل کرنا امریکہ کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔‘
یہ وہ مقام ہیں جہاں سے امریکہ اپنی نایاب معدنیات کی برآمدات میں سے کچھ کو حاصل کرسکتا تھا لیکن ٹرمپ نے ان کے ساتھ جو سخت موقف اختیار کیا، اس کے بعد امریکہ کے پاس بہت کم متبادل سپلائرز ہی بچتے ہیں۔
ڈاکٹر ہارپر کہتے ہیں کہ ’امریکہ کو دو طرح کی مشکلات کا سامنا ہے: اس نے نایاب معدنیات پر اجارہ داری رکھنے والے چین کو ناراض کر دیا جبکہ ایسے ممالک کو بھی اپنا دشمن بنا لیا، جو پہلے ٹیرف اور دیگر اقدامات کے ذریعے اس کے شراکت دار تھے۔‘
’اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ امریکی انتظامیہ کی ہنگامہ خیز پالیسیوں کے اس ماحول میں کیا یہ ممالک اب بھی امریکہ کے ساتھ شراکت داری کو ترجیح دیں گے۔‘