Getty Images
1960 کی دہائی میں جب برطانیہ کے لوگوں نے ’گریٹ ٹرین روبری‘ (ٹرین میں ہونے والی ایک بڑی ڈکیتی) کے دوران چوروں کی بے خوفی اور چرائی گئی بھاری رقم کے متعلق سنا تو وہ ششدر رہ گئے۔
پھر جب اپریل 1964 میں اس واردات میں ملوث افراد پر مقدمہ چلا تو جج نے انھیں سخت ترین سزائیں دیتے ہوئے واضح پیغام دیا کہ ایسے جرائم برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
اس واقعے کے 14 برس بعد اس واردات کے چند مجرموں نے بی بی سی سے بات کی تھی۔
16 اپریل 1964 کو رابرٹ ویلبھ ان 12 افراد میں شامل تھے جنھیں ایلز بری کراؤن کورٹ نے اس بدنام زمانہ ڈکیتی میں مجرم قرار دیا تھا۔
چودہ سال بعد 1978 میں وہ بی بی سی کی ڈاکیومینٹری اور حالات حاضرہ کے پروگرام ’مین الائیو‘ میں شامل ہوئے۔
انھوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اس دن اہم شخصیات سزا سننے کے لیے بے چینی سے عدالت میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
ویلبھ نے کہا ’یہی وہ لمحہ تھا جس کا سب کو انتظار تھا۔۔۔ جیسے کسی ڈرامے کا آخری سین ہو۔ اور جس روایتی انداز میں عدالت میں ہمیں سزا سنائی گئی وہ منظر کچھ ڈرا دینے والا تھا۔‘
ویلبھ اور ان کے ساتھی مجرمان کی زندگیاں اب بہت بدل چکی ہیں۔
ایک وقت تھا جب انھوں نے برطانیہ کی تاریخ کی سب سے بڑی واردات کی تھی جسے ’گریٹ ٹرین روبری‘ کہا جاتا ہے۔
ویلبھ اور ان کے ساتھی ڈاکوؤں کے اس گروہ میں شامل تھے جنھوں نے برطانوی رائل میل کی نائٹ ٹرین کو لوٹا تھا۔ یہ ٹرین گلاسگو سے لندن جا رہی تھی۔ ڈاکو ٹرین سے 26 لاکھ پاؤنڈز اڑا کر لے گئے جو اُس وقت ایک بہت بڑی رقم تھی۔ آج کے دور میں یہ رقم تقریباً پانچ کروڑ پاؤنڈز بنتی ہے۔
جس وقت ویلبھ پرمقدمہ چل رہا تھا پولیس ان تین افراد کو ڈھونڈنے میں لگی تھی جن کے متعلق انھیں شبہ تھا کہ وہ بھی اس واردات میں شامل تھے۔
یہ چوری بہت سوچ سمجھ کر کی گئی تھی۔ لندن کے دو بڑے جرائم پیشہ گینگز کے 15 افراد نے اس واردات میں حصہ لیا۔ ہر ایک کے ذمے ایک خاص کام تھا۔
ریجنلڈ ایبس جو اس وقت نوجوان رپورٹر تھے، نے 2023 میں بی بی سی کی پوڈکاسٹ وِٹنس ہسٹری میں بتایا: ’یہ لوگ جرائم کی دنیا کے بہت بڑے نام تھے۔ اس طرح کی بڑی چوری کرنے کے لیے بے خوفی، ذہانت اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے وہ سب ایک ٹیم کی صورت میں اکٹھے ہوئے۔‘
یہ چوری آٹھ اگست 1963 کی صبح تقریباً تین بجے ہوئی۔ ڈاکوؤں نے سب سے پہلے فون کی لائنیں کاٹ دیں تاکہ کوئی فوراً پولیس کو اطلاع نہ دے سکے۔ پھر انھوں نے ٹرین کے سگنل سے چھیڑ چھاڑ کر کے اسے سرخ کر دیا۔
ایبس نے بتایا ’انھوں نے ٹرین سگنل کی سبز بتی پر دستانہ رکھ کر اسے ڈھانپ دیا تھا اور ایک سستی بیٹری سرخ بتی سے منسلک کر دی تھی جس کی وجہ سے ٹرین کے ڈرائیور کو رفتار کم کرنا پڑی۔‘
6 ملین ڈالر، 12 لاشیں اور دہائیوں پر محیط تحقیقات: امریکی تاریخ کی وہ ڈکیتی جس میں ملوث ہر ملزم یا تو قتل ہوا یا لاپتاقتل اور ڈکیتی کا ملزم جو شناخت بدل کر 34 سال تک مختلف تھانوں میں نوکری کرتا رہاڈکیتی کی انوکھی واردات، بینک سے قرضہ نہ ملنے پر ملزم لاکر توڑ کر کروڑوں روپے کا سونا لے اُڑے ڈکیتی کی وہ سنسنی خیز واردات جس میں پیسوں سے بھری پوری ٹرین غائب کر دی گئی
جب ٹرین ڈرائیور جیک ملز نے سگنل پر سرخ بتی دیکھی تو انھوں نے انجن روک دیا۔ ان کے ساتھ موجود اسسٹنٹ ڈرائیور ڈیوڈ وِٹبی باہر نکلے تاکہ ٹریک کے کنارے لگے فون کو استعمال کرکے پتا کریں کہ مسئلہ کیا ہے۔
لیکن جیسے ہی وہ وہاں پہنچے انھیں پتہ چلا کہ فون لائن کاٹ دی گئی ہے اور اسی لمحے چند نقاب پوش افراد جو بوائلر سوٹ پہنے ہوئے تھے، ان پر حملہ آور ہو گئے۔
اسی دوران ایک اور ڈاکو جو چہرے پر نقاب پہنے ہوئے تھا، ٹرین کے کیبن میں گھس گیا اور جیک ملز کو قابو میں کرنے کی کوشش کی۔ جب ملز نے مزاحمت کی کوشش کی تو ایک ڈاکو نے ان کے سر پر کسی سخت چیز سے وار کیا جس سے وہ ہوش کھو بیٹھے اور نیم بے ہوش ہو گئے۔
ریجنلڈ ایبس بتاتے ہیں ’ڈاکوؤں کی منصوبہ بندی میں واحد گڑبڑ یہ بنی کہ ٹرین ڈرائیور نے مزاحمت کی کوشش کی۔‘
انھوں نے بتایا ’ایک ڈاکو نے ان کے سر پر آہنی راڈ سے مارا جس سے ان کے سر سے خون بہنے لگا۔۔۔ وہ فوراً نیچے گر گئے۔‘
ڈاکوؤں کو ان کے مخبروں نے بتا رکھا تھاکہ ٹرین کے پہلے دو ڈبوں میں نقدی اور قیمتی سامان رکھا گیا ہے۔ اور چونکہ وہ بینک ہالیڈے کا ویک اینڈ تھا اس لیے ٹرین میں معمول سے زیادہ رقم موجود تھی۔
نوٹوں سے بھری 120 بوریاں
اگرچہ ٹرین میں پولیس موجود نہیں تھی لیکن اس میں پوسٹ آفس کے 70 سے زائد ملازمین سوار تھے جن میں سے زیادہ تر پچھلے ڈبوں میں بیٹھے خطوط کی چھانٹی کر رہے تھے۔
ڈاکو پہلے ہی ٹرین کے نظام اور ڈبوں کے نقشے کو سمجھ چکے تھے اس لیے انھوں نے فوراً وہ دو ڈبے الگ کر دیے جن میں نقدی بھری ہوئی تھی۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ یہ ڈبے ٹریک پر ایک خاص جگہ لے جا کر روکے جائیں جہاں پیسوں کی بوریاں آسانی سے اتاری جا سکیں۔
لیکن یہاں ایک اور مسئلہ پیش آیا۔
ریجنلڈ ایبس نے بتایا کہ ’ڈاکوؤں کے پاس ٹرین چلانے کے لیے اپنا آدمی موجود تھا مگر اس سے ٹرین چلی نہیں۔ آخرکار انھیں زخمی حالت میں زمین پر پڑے جیک ملز کو اٹھانا پڑا۔ اسے دھمکی دی گئی کہ ٹرین چلاؤ ورنہ انجام برا ہو گا۔‘
جیک ملز نے مشکل سے ٹرین کو تقریباً ایک میل آگے لے جا کر اس جگہ پر روکا جہاں باقی ڈاکو پہلے سے موجود تھے۔
پیچھے رہ جانے والے آٹھ یا نو ڈبوں میں پوسٹ آفس کے ملازمین آرام سے کام میں لگے رہے اور انھیں پتا ہی نہیں چل سکا کہ ٹرین کا آگے والا حصہ الگ ہو چکا ہے۔
پُل پر پہنچ کر ڈاکوؤں نے آگے والے دو ڈبوں کے دروازے توڑ دیے، اندر موجود ملازمین کو قابو میں کیا اور انھیں زمین پر منھ کے بل لٹا دیا۔ انھوں نے جیک ملز اور اسسٹنٹ ڈرائیور وٹبی کو بھی اندر لا کر ہتھکڑیاں پہنا دیں۔
ڈاکوؤں نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صرف 15 منٹ میں پیسوں کی جتنی بوریاں اتار سکے، اتاریں گے اور جو بچ گئیں وہ چھوڑ دیں گے۔
انھوں نے قطار بنا کر ایک دوسرے کو بوریاں پاس کیں اور جتنا جلدی ہو سکا 120 بوریاں، جن میں تقریباً ڈھائی ٹن رقم تھی انھیں لینڈ روور گاڑیوں میں بھر لیا۔
پندرہ منٹ ختم ہونے پر انھوں نے پوسٹ آفس کے ملازمین کو خبردار کیا کہ 30 منٹ تک اپنی جگہ سے نہ ہلیں اور پولیس کو اطلاع نہ دیں۔ پھر وہ رات کے اندھیرے میں فرار ہو گئے۔
ان چوروں کی ہمت اور اس واردات میں چرائی گئی بھاری رقم نے برطانیہ بھر کے لوگوں کو حیران کر دیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک اخبارات میں پولیس کی کارروائیوں اور ڈاکوؤں کی تلاش سے متعلقہ خبریں چھپتی رہیں۔
اگرچہ ڈاکوؤں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ منصوبہ بنایا اور مہارت سے اسے انجام دیا لیکن ایک سال کے اندر ان کے گینگ میں سے زیادہ تر ڈاکو پکڑے گئے اور عدالت میں پیش کیے گئے۔
اس کیس کے تفتیشی افسر میلکم فیوٹریل نے 1964 میں بی بی سی کو بتایا: ’بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سب بہت ہوشیاری سے کیا گیا لیکن آخرکار یہ سب ان کے لیے ایک بڑی ناکامی ثابت ہوا۔ وہ اتنے چالاک نہیں تھے جتنے خود کو سمجھتے تھے۔‘
جب مقدمہ چلا تو جج نے ڈاکوؤں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں دکھائی۔ انھوں نے کہا کہ اگر میں ان سے ہمدردی کرتا تو یہ ایک بہت غلط بات ہوتی کیونکہ انھوں نے سنگین جرم کیا تھا۔
سخت سزا اور جیل سے ڈرامائی فرار
ایبس نے 2023 میں بی بی سی وٹنس ہسٹری کو بتایا ’مجھے یاد ہے جب لارڈ جسٹس ایڈمنڈ ڈیویس نے آدھے گھنٹے میں ڈاکوؤں کو مجموعی طور پر 307 سال قید کی سزا سنائی تو عدالت میں سب حیران رہ گئے۔‘
انھیں جو سزائیں سنائی گئیں وہ برطانوی قانون کے مطابق سخت ترین سزاؤں میں شامل تھیں۔ انھیں سخت ترین سزا اس لیے بھی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس واقعے میں نہ ہی کسی کی ہلاکت ہوئی اور نہ کوئی ہتھیار استعمال ہوا۔
ڈاکوؤں میں سے ایک ٹومی وزبی نے 1978 میں کہا تھا کہ ’مجھے جیسے جھٹکا لگا تھا۔ بس یہی سوچ رہا تھا کہ 30 سال! ہم باہر کب نکلیں گے؟ شاید کبھی نہیں۔‘
ایک اور ڈاکو گورڈن گوڈی نے کہا کہ ’پہلے تو حوالات میں سب ہنسی مذاق کر رہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ لیکن چند دن بعد حقیقت کا احساس ہوا تو ہمارادل جیسے اندر ہی اندر بیٹھ گیا۔‘
جج نے سخت سزا کی بڑی وجہ ٹرین ڈرائیور جیک ملز پر حملہ بتائی۔
جج نے کہا کہ ’جس نے بھی اس خوفزدہ ڈرائیور کو دیکھا وہ سمجھ گیا ہو گا کہ مسلح حملہ آوروں کے ایسے حملے عام لوگوں کو کتنا خوفزدہ کر سکتے ہیں۔‘
جیک ملز اس حملے کے بعد کبھی کام پر واپس نہیں آ سکے اور 1970 میں خون کے کینسر سے وفات پا گئے۔ ان کے ساتھی ڈرائیور وٹبی، اگلے سال محض 34 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔
تاہم اس وقت اکثر لوگوں خاص کر ڈاکوؤں کو ایسا لگتا تھا کہ انھیں ضرورت سے زیادہ سخت سزائیں اس لیے دی گئی ہیں کیونکہ ان کی چوری سے برطانوی حکومت اور اداروں کی بدنامی ہوئی تھی۔
ڈاکو رائے جیمز نے 1978 میں بی بی سی کو بتایا کہ ’عدالت میں پورے مقدمے کی کارروائی کی دوران مجھے شرمندگی محسوس ہوتی رہی مگر یہ احساس اس وقت ختم ہو گیا جب مجھے لگا کہ جج ایڈمنڈ ڈیویس نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا ہے۔ انھوں نے اپنے اختیارات کو بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا اور خود بھی وہی بن گئے جس کے لیے وہ مجھے موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے۔‘
ریجنلڈ ایبس نے کہا کہ ’اکثر لوگوں کو لگا کہ جسٹس ڈیویس کی سختی کے پیچھے دو بڑی وجوہات تھیں۔ پہلی ٹرین کے ڈرائیور پر تشدد۔ دوسری یہ کہ اس واقعے سے حکومت، پوسٹ آفس اور برٹش ریل سروس کی بہت سبکی ہوئی تھی۔۔۔ اور عوام کو ایسا تاثر ملا جیسے یہ ادارے انتہائی بے خبری میں تھے اور واقعہ ہوتے ہیں ان سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہوں۔‘
سزا کے بعد ڈاکو مزید مشہور ہو گئے کیونکہ ان میں سے دو جیل سے ڈرامائی انداز میں بھاگ نکلے تھے۔
چارلس ولسن جو اس گروہ میں پیسوں کے نگران تھے، مقدمے کے صرف چار ماہ بعد ہی جیل سے فرار ہو گئے۔ وہ چار سال تک روپوش رہے اور پھر کینیڈا میں پکڑے گئے۔ انھیں وطن واپس لا کر مزید 10 سال جیل میں رکھا گیا۔
جیل سے فرار ہونے والے دوسرے ڈاکو رونی بگس تھے جو سزا ملنے کے 15 ماہ بعد لندن کی وینڈز ورتھ جیل سے بھاگ نکلے۔۔۔ جیل سے نکلنے کے لیے انھوں نے رسی سے سیڑھی بنائی تھی۔
انھوں نے چہرہ بدلوانے کے لیے پلاسٹک سرجری کروائی اور کبھی سپین، کبھی آسٹریلیا اور کبھی برازیل میں چھپ کر زندگی گزارتے رہے۔۔ وہ تقریباً 40 سال تک پولیس کی گرفت سے بچے رہے۔
2001 میں وہ خود علاج کروانے کے لیے برطانیہ واپس لوٹے اور باقی سزا جیل میں کاٹی۔
Getty Imagesقانون سے فرار اور گرفتاریاں
قانون کے ہاتھ آخرکار اُن تین ڈاکوؤں تک بھی پہنچ گئے جو پہلے گرفتار نہیں ہو سکے تھے۔
بروس رینالڈز جنھیں اس ڈکیتی کا مرکزی منصوبہ ساز سمجھا جاتا ہے، پانچ سال تک قانون کی نظروں سے بچ کر چھپے رہے اور انگلینڈ واپس آنے پر پکڑے گئے۔ انھیں 25 سال قید کی سزا ہوئی لیکن وہ صرف 10 سال بعد رہا ہو گئے۔
ان کا بیٹا نک بھی بچپن میں اپنے والد کے ساتھ میکسیکو اور کینیڈا میں چھپا رہا۔ بڑے ہو کر وہ ایک بینڈ ’الاباما تھری‘میں شامل ہوئے جس کا گانا ’ووک اپ دس ماررننگ‘ مشہور ٹی وی ڈرامے دا سوپرانو کا تھیم سانگ بنا۔
رونالڈ ’بسٹر‘ ایڈورڈز ڈکیتی کے بعد میکسیکو فرار ہو گئے تھے۔ انھوں نے 1966 میں خود کو پولیس کے حوالے کر دیا اور نو سال جیل میں گزارے۔ بعد میں ان پر ایک فلم بھی بنی جس میں گلوکار فل کولنز نے ان کا کردار نبھایا۔
جیمز وائٹ جنھوں نے ڈکیتی کی تیاری کے لیے سامان مہیا کیا تھا انھیں تین سال چھپے رہنے کے بعد کے بعد کینٹ میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ انھیں 1975 میں رہائی ملی۔
اگرچہ ان ڈاکوؤں کو سخت سزائیں سنائی گئیں لیکن ان میں سے کوئی بھی 13 سال سے زیادہ جیل میں نہیں رہا۔ تاہم بعد کے سالوں میں ان میں سے کئی دوسرے جرائم میں دوبارہ پکڑے گئے۔
ڈکیتی میں چرائی جانے والی رقم کا بڑا حصہ کبھی نہیں مل سکا۔۔۔ حالانکہ پولیس نے 1964 میں اعلان کیا تھا کہ جو کوئی بھی رقم کا پتہ بتائے گا اُسے 10 فیصد انعام دیا جائے گا۔ تاہم زیادہ تر پیسے بازیاب نہ ہو سکے۔
ڈکیتی کی وہ سنسنی خیز واردات جس میں پیسوں سے بھری پوری ٹرین غائب کر دی گئی6 ملین ڈالر، 12 لاشیں اور دہائیوں پر محیط تحقیقات: امریکی تاریخ کی وہ ڈکیتی جس میں ملوث ہر ملزم یا تو قتل ہوا یا لاپتاقتل اور ڈکیتی کا ملزم جو شناخت بدل کر 34 سال تک مختلف تھانوں میں نوکری کرتا رہاڈکیتی کی انوکھی واردات، بینک سے قرضہ نہ ملنے پر ملزم لاکر توڑ کر کروڑوں روپے کا سونا لے اُڑے ’میڈم آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔۔۔‘ کچے کے ڈاکو کاروبار یا محبت کا جھانسہ دے کر کیسے لوگوں کو اغوا کرتے ہیںکینیڈا میں ڈکیتی کی بڑی واردات لیکن یہ پہلی ڈکیتی تو نہیں ہے