انڈیا کی ریاست کیرالہ میں ایک نجی کمپنی کے ملازم کی زمین پر گھٹنے ٹیک کر چلنے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس سے تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
کوچی نامی شہر میں ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ کمپنی میں کام کرنے والی ایک خاتون کی شکایت کی بنیاد پر ویڈیو شیئر کرنے والے شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔
اس ویڈیو میں ایک نوجوان کو گلے میں بیلٹ باندھ کر گھسیٹا جا رہا ہے اور اسے کُتّے کی طرح بھونکنے پر مجبور بھی کیا جا رہا ہے۔
اسی وائرل ویڈیو میں بعد میں دعویٰ کیا گیا کہ کمپنی کے ایک ملازم کو اہداف کو پورا نہ کرنے پر ایسی ’سزا‘ دی گئی۔ تاہم پولیس کا دعوی ہے کہ یہ ویڈیو جعلی ہے اور اس میں جس شخص کو دکھایا گیا وہ اب بھی اسی کمپنی میں ملازمت کرتا ہے۔
پولیسکے مطابق کمپنی مالکان نے بتایا ہے کہ کمپنی میں ملازمین کو سزا دیے جانے کا دعویٰ درست نہیں بلکہ ویڈیو حقیقت میں جس شخص نے بنائی وہ پہلے اس کمپنی میں میجیر تھا اور یہ اس کا ذاتی فعل تھا۔ تاہم بعد میں جب ایک تنازع کے بعد اسے کمپنی سے نکال دیا تو اس نے ’بدلہ لینے کے ارادے سے یہ ویڈیو بنائی۔‘ اور یہ دعویٰ کر دیا کہ کمپنی میں ملازمین کو ٹارگٹ پورا نہ ہونے پر سزا دی جاتی ہے۔
انڈیا میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ویڈیو مںی دکھائے جانے والے مناظر غیر انسانی رویہ ہیں ایسا کسی بھی حال میں ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
پولیس اس معاملے مںی تمام دعوؤں کی چھان بین کر رہی ہے۔
لیکن یہ معاملہ ہے کیا؟
’ایسا سلوک مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں‘
اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر ملک بھر میں لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔ اس کے بعد کیرالہ انسانی حقوق کمیشن اور ریاستی یوتھ کمیشن نے اس سلسلے میں شکایت درج کرائی ہے۔
کیرالہ یوتھ کمیشن کے چیئرمین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسا سلوک کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔‘
کیرالہ میں افرادی قوت کے وزیرشیوان کٹی نے کہا کہ ’اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں محکمہ محنت کے اہلکار سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔
’نوکری چاہیے تو گائے کی آواز نکالو‘: وہ عجیب و غریب انٹرویوز جن میں امیدواروں سے ’کہنیوں کے بل چلنے‘ کا کہا گیا’کام کے دباؤ‘ سے 26 سالہ لڑکی کی موت: ’مینیجر کا چیلنج پورا کرنے کے لیے اسے اپنی جان گنوانی پڑی‘’4 ماہ میں 27 ہزار ڈالر‘، مفت رہائش اور ٹکٹ: وہ امریکی ریاست جسے غیر ملکی ملازمین کی ضرورت رہتی ہےمیکڈونلڈز میں جنسی ہراسانی کے الزامات پر 29 افراد نوکری سے فارغ: ’مرد مینیجر شرط لگاتے کہ نئی ملازمہ کے ساتھ کون سو سکتا ہے‘’ایک مینیجر نے بدلہ لینے کی نیت سے ویڈیو بنائی‘
وائرل ویڈیو میں جس شخص کو کتے کی طرح گردن میں پٹہ باندھ کر گھسیٹا جا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’میں اب بھی اسی کمپنی میں کام کرتا ہوں، یہ فوٹیج چند ماہ قبل کسی ایسے شخص نے لی تھی جو کمپنی میں بطور مینیجر کام کر رہا تھا، اس کے بعد انتظامیہ نے اس شخص کو استعفیٰ دینے کو کہا اور اب وہ اس ویڈیو کو کمپنی کے مالک کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایرناکولم کے ضلع لیبر ویلفیئر افسر ونود کمار نے کہا کہ ’متعلقہ ملازمین نے انھیں بتایا ہے کہ گزشتہ سال نومبر میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو جعلی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جس شخص نے ویڈیو پوسٹ کی وہ اب وہاں کام نہیں کرتا۔ اس نے بدلہ لینے کے لیے یہ ویڈیو جاری کی۔ متاثرہ ملازم اب بھی وہاں کام کرتا ہے۔ میں نے وہاں کے تمام ملازمین سے بات کی ہے اور لیبر ویلفیئر کمیشن کو رپورٹ بھیجی ہے۔ وہاں سے وہ رپورٹ کیرالہ حکومت کو بھیجی جائے گی۔‘
لیبر ویلفیئر آفیسر ونود کمار نے کہا کہ ’کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین کو اجرت نہیں دی جاتی ہے۔ وہ ہر روز گھر گھر جا کر کچھ گھریلو سامان بیچتے ہیں اور انھیں سیلز کی بنیاد پر کمیشن ملتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ انھیں سیلز کا ہدف پورا نہ کرنے پر سزا دی گئی۔‘
دوسری جانب مقامی پولیس نے ویڈیو وائرل کرنے والے شخص کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ پولیس نے ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے والے سابق مینیجر کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 74 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پیرومباور سرکل انسپکٹر سوپی نے کہا کہ ’وائرل ویڈیو کو مذاق کے طور پر لیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہاں کام کرنے والے ایک مینیجر نے بدلہ لینے کی نیت سے ویڈیو بنائی اور اسے غلط معلومات کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ جب وہ اس کمپنی میں تھا تو کمپنی انتظامیہ اور اس شخص کے درمیان کچھ تنازعہ ہوا تھا۔‘
سرکل انسپکٹر نے کہا کہ ’ویڈیو میں نظر آنے والے شخص نے خود کہا ہے کہ اسے ایسی کوئی سزا نہیں دی گئی۔ پولیس افسر نے کہا کہ اسی کمپنی میں کام کرنے والی ایک خاتون نے ویڈیو پوسٹ کرنے والے سابق مینیجر کے خلاف پہلے ہی شکایت درج کرائی ہے۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ کمپنی کے کسی ملازم نے ابھی تک اس طرح کے ناروا سلوک کی کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے۔
سرکل انسپکٹر سوپی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شکایت میں مذکورہ واقعے کو کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ اس لیے فوری طور پر گرفتاری کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں قانونی مشورہ لیا گیا ہے۔‘
تاہم پیپلز سول رائٹس ایسوسی ایشن کے ایک ایگزیکٹو اور وکیل بالاموروگن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ واقعہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چونکہ یہ انسانی وقار کو پامال کرنے والا واقعہ ہے، اس لیے پولیس کے پاس اس معاملے میں مقدمہ درج کرنے کے لیے کافی بنیادیں ہیں۔‘
لگژری ہوٹل میں نئے ملازم کو ’برہنہ کر کے گھنٹوں کرسی سے باندھے رکھنے‘ کا واقعہ، عملہ اردگرد کھڑا دیکھتا رہامیکڈونلڈز میں جنسی ہراسانی کے الزامات پر 29 افراد نوکری سے فارغ: ’مرد مینیجر شرط لگاتے کہ نئی ملازمہ کے ساتھ کون سو سکتا ہے‘’نوکری چاہیے تو گائے کی آواز نکالو‘: وہ عجیب و غریب انٹرویوز جن میں امیدواروں سے ’کہنیوں کے بل چلنے‘ کا کہا گیا’کام کے دباؤ‘ سے 26 سالہ لڑکی کی موت: ’مینیجر کا چیلنج پورا کرنے کے لیے اسے اپنی جان گنوانی پڑی‘’4 ماہ میں 27 ہزار ڈالر‘، مفت رہائش اور ٹکٹ: وہ امریکی ریاست جسے غیر ملکی ملازمین کی ضرورت رہتی ہےبرطانیہ میں نوکری کا فراڈ اور پاکستانی ایجنٹ: ’اس نے کہا آپ میری بہنوں جیسی ہیں، زیادہ پیسے نہیں لوں گا‘