پنجاب کے ’بدمعاش‘ جرائم کی دنیا کو خیرباد کہنے کی ویڈیوز کیوں اپلوڈ کر رہے ہیں؟

اردو نیوز  |  Jul 09, 2025

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جرائم پر قابو پانے کے لیے قائم کیے گئے محکمے سی سی ڈی کی کارروائیوں کے بعد صورت حال نے ایک نیا موڑ لیا ہے اور اب جرائم پیشہ عناصر جو پولیس کو مطلوب ہیں، اپنے حلفیہ بیانات پر مبنی ویڈیوز سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک پر اپلوڈ کر رہے ہیں۔

ایک طرف شہری اس عمل کو سراہتے ہیں کہ سی سی ڈی کی کارروائیوں کے باعث جرائم پیشہ عناصر اب مجرمانہ سرگرمیوں سے توبہ تائب یا کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں تو دوسری جانب صارفین ٹک ٹاک پر ایسی ویڈیوز اپلوڈ کرنے والے مبینہ ’بدمعاشوں‘ کی ٹرولنگ بھی کر رہے ہیں۔

پاکستانی سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوانوں میں ٹک ٹاک ویڈیوز میں اسلحہ دکھانے کا ٹرینڈ زور پکڑ رہا تھا اور صورتحال پر نظر رکھنے والوں کے مطابق ایسا انڈین پنجاب کی ویڈیوز سے متاثر ہونے والے کر رہے تھے۔

اسلحہ دکھاتے ہوئے ویڈیوز اپلوڈ کرنے والے زیادہ تر صارفین انڈین پنجاب سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں کے گینگ وار پر مبنی گیت بھی چلاتے جس کا مقصد ارد گرد کے لوگوں پر دھاک بٹھانا ہوتا ہے۔

سی سی ڈی پنجاب کے انچارج سہیل ظفر چٹھہ کی جانب سے 90 روز میں پنجاب سے جرائم کے خاتمے، اسلحہ اور ڈالہ کلچر پر قابو پانے اور جرائم میں ملوث عناصر کی سرکوبی کی مہم چلانے کے اعلان کے بعد گزشتہ ایک ہفتے میں متعددگرفتاریاں کی گئیں اور کئی پولیس مقابلے دیکھنے کو ملے ہیں۔ یہ پولیس مقابلے ضلع گجرات، سرگودھا، ڈیرہ غازی خان، لاہور، شیخوپورہ، میانوالی، جھنگ، منڈی بہاوالدین اور راولپنڈی میں ہوئے ہیں جن میں دس سے زائد مبینہ ڈاکو مارے گئے۔

اس صورت حال نے نیا موڑ اس وقت لیا جب کھاریاں سے تعلق رکھنے والے ایک جرائم پیشہ فرد محمد شفیق نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہوئے اپنے جرائم کو تسلیم کرتے ہوئے مستقبل میں ان سے کنارہ کشی کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب، آئی جی پنجاب اور سی سی ڈی انچارج سے اپیل کی کہ انھیں سدھرنے کا موقع دیا جائے۔

اس کے بعد ان ویڈیوز کا سلسلہ چل نکلا، گجرات کے بعد منڈی بہاوالدین، چنیوٹ، جڑانوالہ، ڈیرہ غازی خان سمیت صوبے کے متعدد علاقوں سے مبینہ طور پر جرائم پیشہ افراد نے ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔

بظاہر ان ویڈیوز کی وجہ پولیس مقابلے ہی بتائے جا رہے ہیں کیونکہ ریکارڈ سے بھی بات ظاہر ہو رہی ہے کہ صوبے میں گزشتہ ایک سال میں بالعموم اور گزشتہ دو ہفتوں میں بالخصوص پولیس مقابلوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

یہ ویڈیوز پہلے انفرادی طور پر آنا شروع ہوئیں۔ بعد ازاں مختلف علاقوں سے گروپوں کی شکل میں جرائم پیشہ عناصر نے اپنے خاندان، امام مسجد اور علاقہ معززین کی موجودگی میں توبہ کرتے ہوئے ویڈیوز اپلوڈ کیں۔

صارفین کے مطابق سوشل میڈیا پر اسلحہ دکھانے والے اب معافی مانگنے کی ویڈیوز اپلوڈ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو: فری پکساس حوالے سے سی سی ڈی کا کہنا ہے کہ کسی بھی جرم سے کنارہ کشی کا اعلان اور حلفیہ بیان دینا کہ وہ آئندہ کوئی جرم نہیں کریں گے کافی نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے کیے گئے جرائم کا سامنا کرنے کے لیے بھی خود کو سرنڈر کرنا اور قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔

سی سی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ 'ہمارا مینڈیٹ بالکل واضح ہے کہ منظم جرائم پر قابو پانا ہے اور اس مقصد کے لیے سب سے پہلے ڈالہ اور اسلحہ کلچر کے خلاف مہم چلائی گئی۔ لوگوں کو آگاہی دی گئی اور پھر گرفتاریاں کی گئیں۔ اس سلسلے میں واضح کیا گیا کہ چاہے کوئی بھی ہو اس کو اسلحے کی نمائش اور بدمعاشی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پولیس کی کارروائیوں کے نتیجے میں جرائم کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔

ان پولیس مقابلوں کو غیرقانونی قرار دے کر وکلاء کی جانب سے ان پر تنقید  بھی کی جا رہی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر پنجاب میں سی سی ڈی ٹرینڈ کر رہا ہے۔

ان ویڈیوز میں جو ویڈیو سب سے زیادہ ٹریینڈ کر رہی ہے وہ ٹک ٹاک پر اسلحہ کی نمائش کرنے والوں پر طنز کرتے ہوئے بنائی گئی ہے۔

ویڈیو میں کپڑے کے نیچے ڈنڈہ چھپا کر اس سے فائرنگ کی اداکاری کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور پولیس کا سائن بجتے ساتھ ہی اس ڈنڈے کو لاٹھی بنا کر نابینا بھکاری کا روپ دھار لیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ دکھانا ہے کہ سی سی ڈی کی کارروائیوں سے پہلے ٹک ٹاک پر فائرنگ کی ویڈیوز اپلوڈ کرنے والے اب کمزور ہو چکے ہیں۔

عدالتوں سے بری ہونے والوں نے پولیس کی جانب سے تنگ کیے جانے کی شکایت کی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پیسوشل میڈیا پر ہی وکلاء کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کے اہل خانہ کو ملزمان کو جعلی مقابلوں میں مارے جانے سے سے بچانے کے قانونی طریقے بھی بتائے جا رہے ہیں۔

ایڈووکیٹ میاں عبدالمتین کا کہنا کہ سی سی ڈی اگر کسی نوجوان کو اٹھاتی ہے تو اس کے گھر والوں سب سے پہلے ون فائیو پر کال کریں تاکہ وہاں پر کال ریکارڈ ہو جائے اس کے بعد مقامی پولیس سٹیشن میں اغوا کا مقدہ درج کرنے کی درخواست دینی چاہیے اور اگلے ہی دن براہ راست ہائی کورٹ میں درخواست دینی چاہیے۔ یہ سب کرنے سے معاملہ قانونی طور پر ریکارڈ میں آ جائے گا اور سی سی ڈی یا پولیس اہلکار ان کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے سے باز رہیں گے اور  ایسا کرنے کی صورت میں قانونی طور پر پکڑے جائیں گے۔

دوسری جانب یہ شکایات بھی مل رہی ہیں کہ ماضی میں جرائم میں ملوث رہنے اور سزائیں بھگتنے کے بعد معمول کی زندگی گزارنے والے افراد کو بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔ ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جن میں لوگوں نے شکایت کی ہے کہ وہ عدالتوں سے بری ہو چکے ہیں مگر اب پولیس دوبارہ تنگ کر رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More