واٹس ایپ پیغام میں ’وائے‘ اور ’یو‘ کے حروف نے کس طرح پولیس افسر کے قتل کا معمہ حل کیا

بی بی سی اردو  |  Apr 09, 2025

یہ یکم اپریل سنہ 2016 کی بات ہے۔ اس دن مہاراشٹر پولیس کی خاتون افسر اشونی بیدرے گور لاپتہ ہو گئیں۔

بعد میں جو تفصیلات سامنے آئیں اس نے پورے مہاراشٹر کو چونکا دیا کیونکہ ان کے قتل کا الزام ان کے ساتھی پولیس انسپیکٹر ابھے کروندکر پر آیا تھا۔

ابھے ایک قابل احترام پولیس افسر تھے جن کو ان کی خدمات کے لیے صدارتی تمغے سے بھی نوازا گیا۔

انھوں نے اشونی کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ایک ٹرنک میں بھر کر نالے میں پھینک دیا تھا۔

تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار قتل اور لاش کے ٹکڑے کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہتھیار کو تلاش کرنے میں ناکام رہے اس کے باوجودعدالت نے ابھے کروندکر کو قصوروار پایا۔

اشونی کے لاپتہ ہونے کے ٹھیک نو سال بعد ابھے کروندکر اور دو دیگر شریک ملزمان کو عدالت 11 اپریل کو سزا سنانے والی ہے۔

اشونی کے ساتھ جھگڑے کے باوجود انصاف کے لیے لڑنے والے ان کے شوہر اور خاندان کے افراد کی کوششوں، بغیر فیس کے مقدمہ لڑنے والے سرکاری وکیل کے موثر اور زبردست دلائل اور تفتیشی خاتون پولیس افسر کی وجہ سے عدالت نے ابھے کروندکر کو مجرم قرار دیا۔

اشونی بیدرے گورے کا قتل کیسے ہوا اور پولیس نے کس طرح واٹس ایپ پیغام میں دو حرف ’وائے‘ اور ’یو‘ کی بنیاد پر اس کیس کو حل کیا؟

اشونی بیدرے گورے قتل کیس کی تفصیلات

اشونی بیدرے کولہاپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے سنہ 2005 میں راجو گورے سے شادی کی۔

اشونی اپنی شادی سے پہلے ہی امتحانات کی تیاری کر رہی تھیں۔ شادی کے ایک سال کے اندر ہی انھوں نے پولیس کا امتحان پاس کر لیا اور سب انسپیکٹر بن گئیں۔

ابتدائی پوسٹنگ کے دوران اشونی نے سینیئر پولیس افسر ابھے کروندکر سے ملاقات کی۔ سنہ 2013 میں اشونی کو ترقی ملی۔ اس دوران اشونی اور ابھے کے درمیان قربتیں بڑھ گئیں۔

ابھے اکثر اشونی سے ملنے آیا کرتے تھے۔ اسی دوران اشونی کے شوہر اور ان کے والد کو ان دونوں کے تعلقات کے بارے میں علم ہوا۔

جلد ہی اشونی لاپتہ ہو گئیں۔

اشونی بیدرے نئی ممبئی کے علاقے کالمبولی سے لاپتہ ہوئیں۔ ان کے اہلخانہ نے الزام لگایا کہ سینیئر پولیس افسر ابھے کروندکر نے انھیں غائب کر دیا۔ ابتدائی طور پر اہلخانہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس ٹھیک سے تفتیش نہیں کر رہی کیونکہ ملزم اسی محکمے کا افسر ہے۔

انڈین پولیس کی ’انسٹا کوئین‘ جنھیں منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیااسلام آباد میں خاتون کے قتل پر بھائی گرفتار: ’لاش کو بھینسوں کے باڑے میں دفن کیا گیا تھا‘مانسہرہ میں ’غیرت کے نام پر‘ خاتون اور بچی کا قتل، دو ملزمان گرفتار: ’میری 16 ماہ کی بیٹی کو کچھ نہ کہیں‘اسلام آباد پولیس سوشل میڈیا پر موجود تصویر کی مدد سے بیوی کے مبینہ قاتل شوہر تک کیسے پہنچی؟لیپ ٹاپ سے راز افشا ہوا

راجو پریشان تھے کیونکہ وہ اشونی سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے۔ اشونی اس وقت کالمبولی پولیس سٹیشن میں ڈیوٹی پر تھیں، اس لیے راجو ان کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے وہاں گئے۔

تاہم وہاں سے تسلی بخش معلومات نہ ملنے پر راجو نے اس پولیس سٹیشن میں گمشدگی کی شکایت درج کروائی جہاں ان کی بیوی اشونی کام کرتی تھیں۔

جس فلیٹ میں اشونی رہتی تھیں اس کا تالا ٹوٹا ہوا تھا۔ ان کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ کی تلاشی لی گئی۔

اس تفتیش کے دوران ملزم پولیس انسپکٹر ابھے اور اشونی کے درمیان تعلقات کو لے کر کئی تفصیلات سامنے آئیں۔

شکایت کے بعد انسپکٹر کروندکر کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھیوں راجو پاٹل، مہیش فالسیکر اور کندن بھنڈاری کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

بیدرے اور گورے خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان پر بہت زیادہ سیاسی دباؤ تھا۔ اس کے باوجود راجو گورے ہر ہفتے پنویل سے ممبئی کا سفر کرتے اور سماعت میں شریک ہوتے۔ راجو نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اور گورنر کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔

ابھے کروندکر نے مبینہ طور پر اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ اس دوران مقامی عدالت نے تحقیقات کی سست رفتاری پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سنجیدگی سے تحقیقات کا آغاز ہوا۔ یہ مقدمہ یکم جنوری 2017 کو درج کیا گیا تھا اور ایک سال بعد ابھے کروندکر کو گرفتار کر لیا گیا۔

’وائے‘ اور ’یو‘ کے حروف نے کس طرح مدد کی

اشونی کے قتل سے چند گھنٹے قبل ان کی ملاقات ملزم ابھے سے تھانے میں ہوئی تھی۔ دونوں نے ریلوے سٹیشن کے سامنے ایک ہوٹل میں چائے پی۔

بیدرے اور کروندکر کے موبائل لوکیشن کی بنیاد پر پولیس کو پتہ چلا کہ وہ دونوں ایک ہی کار میں میرا روڈ پر واقع کروندکر کے گھر گئے تھے۔ اشونی کا 11 اپریل 2016 کی رات قتل کر دیا گیا تھا۔

کروندکر نے اگلے دن کندن بھنڈاری کی مدد سے لاش کو ٹھکانے لگایا۔ اس بات کی تصدیق ملزمان کے موبائل فونز کے سم کارڈز کی لوکیشن کی بنیاد پر ہوئی۔ دیگر ملزمان کی موبائل لوکیشن بھی اسی علاقے میں تھی۔

ابھے نے یہ ظاہر کرنے کی بہت کوشش کی کہ اشونی زندہ ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے اشونی کے موبائل سے پیغامات کا جواب دیا۔

ابھے نے اشونی کے موبائل سے ’کیسی ہو‘ پوچھنے کے لیے حرف ’وائے‘ کا استعمال کیا۔ اس چیٹ نے پولس کی توجہ حاصل کی اور ابھے کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔

اشونی کے موبائل پر چیٹنگ کے دوران ابھے نے ہر بار پوچھنے کے لیے ’یو‘ کے بجائے’وائے‘ کا استعمال کیا۔ ابھے کے گھر والوں اور دوستوں سمیت چار پانچ لوگوں نے تصدیق کی کہ یہ ابھے کی عادت تھی۔

دوسری طرف اشونی نے کبھی بھی ’یو‘ لکھنے کے لیے ’وائے‘ حرف کا استعمال نہیں کیا تھا۔ اس دوران اشونی کے بہنوئی اویناش گنگاپورے کو واٹس ایپ پر ایک میسج موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ ’میری دماغی حالت کی وجہ سے میں (اشونی) اترانچل یا ہماچل پردیش جانا چاہتی ہوں اور وہاں پانچ چھ ماہ تک علاج کرانا چاہتی ہوں۔‘

پولیس نے ثابت کیا کہ لاپتہ ہونے سے پہلے اشونی اور ابھے ساتھ تھے۔ اس کے علاوہ ابھے نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ جیسے اشونی زندہ ہیں اور وہی چیٹنگ کر رہی ہیں۔

مہیش فالسیکر نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ ابھے کروندکر نے اشونی کو سر پر بلا مار کر قتل کیا۔

سائبر ایکسپرٹ روشن بنگیرا نے اشونی اور ابھے کی موبائل فون، ان کے فیس بک، واٹس ایپ، سوشل میڈیا ایپلی کیشنز اور لیپ ٹاپس سے اہم ڈیٹا نکالنے میں مدد کی۔

گوگل میپس، اوشیانوگرافی ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے پانی کے اندر سکیننگ اور سیٹلائٹ امیجری جیسے تکنیکی پہلو بھی پیش کیے گئے۔

گو کہ قتل کا ہتھیار اور لاش نہیں ملی تھی لیکن کیس میں تکنیکی شواہد اہم ہوتے جا رہے تھے۔

ٹھیک نو سال بعد سزا

سنیچر کو پنویل سیشن کورٹ کے جج کے جی پالدیوار نے اشونی بیدرے قتل کیس میں انسپیکٹر ابھے کروندکر کو دفعہ 302 اور 218 کے تحت قتل کا مجرم قرار دیا۔

عدالت نے شریک ملزم مہیش فالسیکر اور کندن بھنڈاری کو بھی مجرم قرار دیا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے اشونی کی لاش کو ٹھکانے لگانے میں ابھے کی مدد کی تھی۔ عدالت نے اس معاملے میں ملزم راجیش پاٹل عرف راجو پاٹل کو بری کر دیا۔

پولیس نے تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم کا تقرر کیا جس نے تقریباً 80 لوگوں کے بیانات لینے کے بعد کروندکر اور تین دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

پنویل سیشن کورٹ کے فیصلے کے بعد راجو گور نے میڈیا اور عدالت کا شکریہ ادا کیا۔ راجو کے مطابق میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے اسمبلی میں اس معاملے پر بحث ہوئی اور پولیس نے کیس کی تحقیقات کی اور مجرم کو گرفتار کر لیا۔

راجو گور نے سرکاری وکیل پردیپ گھرت اور تفتیشی خاتون پولیس افسر سنگیتا الفونسو کا بھی شکریہ ادا کیا۔ پردیپ گھرت کا کہنا ہے کہ تفتیش میں کوتاہی برتنے والے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

سنگیتا الفانسو کے مطابق ’میں نے اس کیس پر چھ سے سات سال تک کام کیا، ہم نے تکنیکی اور حالات سے متعلق شواہد اکٹھے کیے۔‘

عدالت کا کہنا ہے کہ یہ کیس اہم ہے کیونکہ عوام کے ساتھ ساتھ پولیس کی توجہ اس بات پر مرکوز رہے گی کہ ٹھیک نو سال بعد اشونی کو کس قسم کا انصاف ملتا ہے۔

مانسہرہ میں ’غیرت کے نام پر‘ خاتون اور بچی کا قتل، دو ملزمان گرفتار: ’میری 16 ماہ کی بیٹی کو کچھ نہ کہیں‘اسلام آباد میں خاتون کے قتل پر بھائی گرفتار: ’لاش کو بھینسوں کے باڑے میں دفن کیا گیا تھا‘ماہر امراضِ قلب بن کر سرجریز کرنے والا ’جعلی ڈاکٹر‘ پانچ مریضوں کی مبینہ ہلاکت کے بعد کیسے پکڑا گیا؟انڈین پولیس کی ’انسٹا کوئین‘ جنھیں منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیااسلام آباد پولیس سوشل میڈیا پر موجود تصویر کی مدد سے بیوی کے مبینہ قاتل شوہر تک کیسے پہنچی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More